اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز مزاح نگار شوق بہرائچی کا یومِ وفات ہے۔

شوق بہرائچی(پیدائش: 6 جون، 1884ء- وفات: 13 جنوری، 1964ء)
——
شوق بہرائچی جنکا پورا نام سید ریاست حسین رضوی تھا کی پیدائش اجودھیاضلع فیض آباد کے محلہ سیدواڑا میں ایک زمیندار طبقہ سے تعلق رکھنے والے سید سلامت علی رضوی کے گھر میں 06 جون 1884ء کو ہوئی تھی۔
شوق صاحب تلاش معاش میں بہرائچ آئے اور پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔
شوق کے کمزور جسم پر ایک شیروانی ٹنگی رہتی تھی جو جسم کی ساخت کے آگے سے لٹکی ہوئی اور پیچھے سے اچکی ہوئی رہتی تھی۔پیٹ کے پاس کے دو تین بٹن بند رہتے تھے باقی کھلے رہتے تھے۔ہوسکتا ہے ایک آدھ بٹن ٹوٹا بھی رہتا رہاہو۔ داہنے ہاتھ میں پرانی سی چھڑی ،سر پر تیل خوردہ کشتی دار ٹوپی اور بازار سے گھر آتے وقت بائیں ہاتھ میں ایک پڑیا جس میں کوئی نہ کوئی مٹھائی رہتی تھی ۔
علمی لیاقت کے اعتبار سے وہ صفر تھے لیکن یہ وہی صفر تھا جسے کسی گنتی کے داہینی طرف لگا دیا جائے تو اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے
شوقؔ کا حال کچھ ایسا ہی تھا اردو ہندی انگریزی اور فارسی زبان کے الفاظ پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔شروع میں غزلیں کہتے تھے پر انکی چلبلی طبیعت نے کروٹ بدلی اور غزل سے قطع تعلق کر کے وہ طنز و مزاح کی دنیا میں آگئے ۔
شوق کی زندگی کے آخری دور میں یہ چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھی کہ شوق ؔ نے غزلیں لکھنا بند نہیں کیا بلکہ اجرت لیکر دوسرے شاعروں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ شوق نے جب بہرائچ سے اپنا ادبی سفر شروع کیا تو یہاں شعر و شاعری کا عام چرچا تھا ۔ جگرؔ بسوانی کے ہم عصر رافعت ؔ بہرائچی ،حکیم محمد اظہر ؔ وارثی ،جمال ؔ بابا،شفیعؔ بہرائچی، بابو لاڈلی پرساد حسرتؔ سورج نرائن آرزو،مولانا سید سجاد حسین طور ؔ جونپوری ثم نانپاروی، پیارے میاں رشید لکھنوی کے شاگرد سید محمد اصغر نانپاروی ،ابوالفضل شمسؔ لکھنوی ،حکیم نبی احمد نجم خیرآبادی ،تعلقدار وصی حیدر جرولی کی غزل گوئی چھائی ہوئی تھی جو شہر بہرائچ اور نانپارہ و جرول جیسے مردم خیز اور ادب نواز قصبوں میں رہتے تھے۔
شاعر و ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ طنز و مزاح کے شاعروں میں شوق بہرائچی کا شمار اکبر الہ آبادی کے بعد ہوتا ہے ۔شوق ؔ طنز و مزاح کے نامور شاعر تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اثر بہرائچی کا یوم پیدائش
——
عمر کے آخری ایام میں بوڑھے شوق کے لاغر جسم کو دمہ کے پرانے مرض نے بدحال کر دیا تھا ۔
بیماری اور بے روزگاری نے زندگی کو بہت دشوار بنا دیا تھا ۔شوق کو حکومت کی طرف سے ایک مختصر سی رقم بطور وظیفہ ملتی تھی لیکن یہ سلسلہ صرف ایک سال کے لئے تھا۔اس وقت کے وزیر انصاف سید علی ظہیر صاحب کسی سلسلہ میں بہرائچ آئے تھے اور شوق کی عیادت کے لئے بھی شوق کے گھر گئے تھے۔شوق کی کسمپرسی اور علالت سے وزیر صاحب بہت متاثر ہوئے اور سرکاری مدد اور پنشن دلانے کا وعدہ کر لیا لیکن لیڈران کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوتے ۔چنانچہ بستر مرگ پر پڑے ہوئے آدمی سے کیا گیا وعدہ بھی اور وعدوں کی طرح وفا نہیں ہو سکا اور شوق بہرائچی مدد کے انتظار میں راہی ملک عدم ہو گئے ،اسی سلسلہ میں شوقؔ نے ایک قطعہ لکھا تھا
——
” سانس پھولے گی ،کھانسی سوا آئے گی
لب پہ جان حزیں بار ہا آئے گی
دار فانی سے جب شوقؔ اٹھ جائے گا
تب مسیحا کے گھر سے دوا آئے گی“
——
شوق بہرائچی کی وفات 13 جنوری1964ء بہرائچ میں ہوئی اور آزاد انٹر کالج کے پچھم واقع قبرستان چھڑے شاہ تکیہ میں تدفین ہوئی۔
——
بادشاہِ طنز و ظرافت جناب شوق بہرائچی – پروفیسر طاہرمحمود
——
اردو کے دو الگ الگ زباں زد عوام مصرعے ہیں؏’’ہرشاخ پہ الوّ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘ اور ’’بے زر کا کوئی بہنوئی نہیں زردار کے لاکھوں سالے ہیں‘‘۔میں نے یہ دونوں مصرعے متعدّد موقعوں پر باربار سنے ہیں ۔باضابطہ تحریروں میں بھی اور بے تکلف باتوں میں بھی ۔ان میں سے دوسرا مصرع تو ایک منچلے فلم ساز نے ایک بار اپنی فلم میں بھی استعمال کر لیا تھا۔مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے اکثر نے بھی یہ مصرعے ضرور سنے اور سنائے ہوں گے اور یہ یقیناً آپ کے ذہنوں میں محفوظ ہوں گے۔البتہ جس با ت میں مجھے شک ہے وہ یہ ہے کہ ان مصرعوں کے خالق سے صحیح واقفیت یا اس کے حالات کا قدرے علم رکھنے والوں کی تعداد شاید بہت زیادہ نہ ہو۔کوئی ان مصرعوں کو غلطی سے حضرت اکبرؔ الہٰ آبادی سے منسوب کرتا ہے اور کوئی کسی اور معروف مزاح نگار سے۔صد حیف کہ ان لازوال مصرعوں کا اصل خالق آج گمنامی کے اندھیروں میں محو استراحت ہے اور اس کے لاجواب فنِ طنز نگاری پر آج اس کی وفات کے ایک تہائی صدی بعد بھی دنیائے ادب کی بے وجہ ناقدری کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔اس کے نہ جانے کتنے مقبول زمانہ معاصر اور معروف و غیر معروف واقف کار بھی،جو اس کے کمال فن کے معترف تھے یا اس پر روشنی ڈال سکتے تھے،اب اس فانی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔کم ہی لوگ آج اس عظیم فنکار سے ذاتی واقفیت رکھنے کا دعویٰ کر سکیں گے اور میرا نام خوش قسمتی سے اس محدود فہرست میں شامل ہے۔
جن دو معنی خیز مصرعوں سے میں نے اپنی بات شروع کی تھی وہ ان دو مکمل اشعار کا حصہ ہیں ؏
——
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الوّ کافی تھا
ہر شاخ پہ الوّ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
——
اللہ غنی اس دنیا میں سرمایہ پرستی کا عالم
بے زر کا کوئی بہنوئی نہیں زردار کےلاکھوں سالے ہیں
——
اور طنز و ،مزاح کے شاہکار ان خیال آفریں اشعار کے خالق تھے سید ریاست حسین شوق بہرائچی مرحوم و مغفور۔میں نے اب سے ۴۵-۴۰ سال قبل جناب شوقؔ کو اپنے وطنِ پدری شہر بہرائچ اور متعدد اور جگہوں پر دیکھا تھا اور خوب خوب انجمن آرا دیکھا تھا۔طفولیت اور آغازِشباب کے زمانے کی نہ جانے ایسی کتنی تصویریں میرے ذہن کے نگار خانے میں محفوظ ہیں جن میں ان کے ضعف و ناتواں پیکر کا عکس نظر آتا ہےیا اُن کی لرزیدہ آواز ابھرتی ہے۔آیئے آج ان میں سے کچھ تصویریں آپ کو بھی دکھاتا چلوں۔ ( یہ بھی پڑھیں حضرت شوق بہرائچی : کتابوں کے نظر سے – جنید احمد نور)
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
وطن ِعزیز کی انتہائی دل خوش کن آزادی اور اس کی بے حد افسوسناک تقسیم کو ابھی صرف چند سال ہی گذرے ہیں۔زبردستی ٹھونسی گئی غیر فطری سیاسی سرحد کے دونوں طرف سرگرم سیاست کا دور دورہ ہے۔مذہبی اور لسانی تعصب اور منافرت کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔جیالی زبان اردو بھر بھی زندہ ہےاور عوامی جلسوں ،مشاعروں اور پردۂ سیمیں کے مکالموں اور نغموں کے ذریعےاپنی مقبولیت کا لوہا بدستور منوا رہی ہے۔مشرقی یوپی کے دور افتادہ شہروں سے لے کر عروس البلاد بمبئی اور جنوب میں مدراس تک میں اب بھی مشاعروں اور ادبی محفلوںکا انعقاد ہوا رہا ہے۔اردو شاعری میں حسب سنجیدگی اور متانت بھی یے اور طنز و ظرافت بھی۔دونوں طرف اساتذۂ وقت کو ائف زمانہ پر بھرپور وار کر رہے ہیں۔اسی ادلی مناظر میں ایک کہنہ مشق بادشاہِ سخن شوق بہرائچی اپنا ظریفانہ کلام جگہ جگہ پیش کرکے سامعین کی صفیں الٹتے نظر آتے ہیں۔عمر گزیدہ تنِ نازک ،ذہن ضعیف دانتوں سے بے نیاز ،ہاتھوں میں رعشہ،آواز میں لرزہ،پھر بھی کلام ایسا جاندار کہ شائقین ِادب کے زبردست مجمعوں میں بھی اپنا بھرپور جادو دکھا رہا ہے اور بزرگ شاعر مکرّر ارشاد کی فرمائشوں اور تحسین و توصیف کے نعروں کی یلغار میں گلے گلے ڈوبے جا رہے ہیں ۔میں ’’ایک طفل مکتب‘‘لیکن کم عمری کے باوجود اردو نثر و نظم کی شیرینی کا پوری طرح ذائقہ شناس اس منظر نامے کا عینی شاہد ہوں۔
جناب شوق سنا ہے کہ ضلع فیض آباد کے باشندے تھے۔تلاش معاش میں شہروں شہروں پھرے،اعظم گڑھ میں آج کی ادبی دنیا کے پیر میخانہ جناب کیفیؔ اعظمی کے والد بزرگوار کے محرّر بنے اور بالآخر مستقلاً شہر بہرائچ میں جا بسے اور اسی غریب پرور شہر کو وطن مالوف بنا لیا۔یہیں ان کی اہلیہ بلدیہ کی رکن منتخب ہوئیں تو مظلوم شوہرنے یوں تہنیت پیش کی ؏
——
ہمیں لے کے بوسہ رُخ پر شکن کا
یہ باسی سوئیاں سوارت کریں گے
——
یہیں اُ ن کے صاحبزادے یہ نعرہ لگاتے ہوئے اساطِ سخن پر نووارد ہوتے دیکھے گئے کہ ’’ جناب شوق بہرائچی کا بیٹاتخلص ذوقؔ کرتا ہوں‘‘۔ بہرائچ ،لکھنؤ، گورکھپور اور ان اطراف کے کئی اور شہروں میں جناب شوقؔ کو مشاعرے لوٹتے میں نے بچپن اورعفوان شباب خود دیکھا تھا۔بارہ برس کی عمر میں جب خود مجھے شعر گوئی کا شوق ہوا تھا تو اپنی چند ابتدائی کاوشیں بغرض اصلاح انہیں دکھائی بھی تھی اور خود اپنے گھر پر ح حسبِ تربیت خاندانی اُن کی جوتیاں بھی سیدھی کی تھی۔غالباً۱۹۶۴ء میں ،جب کہ میں نے تعلیم مکمل کرکے جونپور میں ملازمت شروع ہی کی تھی،ایک دن علی الصباح اردو کے اخبارمیں شائع ایک جلی سرخی پر نظر پڑی’’شوققؔ بہرائچی کا انتقال‘‘۔ذہن و دل پر ایک بجلی سی گری۔بھاگم بھاگ جا کر یہ افسوسناک خبر شفیقؔ بریلوی مرحوم کو دی،کہ وہ بھی بہرائچ کے تھے اور ان دنوں جونپور میں میرے پڑوسی تھے۔ایک عظیم فنکار کی کسمپرسی میں موت پر ہم دونوں عرصہ تک دل گرفتہ رہے۔
عمر کا ایک بڑا حصہ جناب شوق بہرائچی نے تنگدستی اور افلاس میں گذارا تھا اس عالم میں اپنوں اور غیروں کی بے رخی کے یوں شاکی ہوئے تھے ؏
——
زمانہ یوں مرے سائے سے دور رہتا ہے
کہ جیسے کاٹ ہی کھائے گئ مفلسی میری
——
ایک اصطلاع کا سہارا لے کر انہوں نے یہ شکایت کی تھی ؏
——
یہاں اہلِ سخن کی قدر بعد از مرگ ہوتی ہے
یہاں ہر ایک دعویٰ خارج المیعاد ہوتا ہے
——
حکومت کی عدالت میں ان کی داد رسی ہوئی اور ایک مختصر رقم بطور وظیفہ حسب قاعدہ پہلے صرف ایک سال کیلئے منظور ہوئی تو جناب شوق بہرائچی یوں چیں بہ جبیں ہوئے تھے کہ’’کیا ایک سال ہے دی معیادِ زندگی؟ ان کی معیادِ زندگی بہرحال ایک سال میں ہی ختم ہوگئی۔انہیں دیکھے اور سنے آج کم ازکم چار دہائیاں گذر چکی ہیں۔جناب شوق بہرائچی کا سراپا اور ان کا انہیں کے منھ سے سنا ہوا کلام پھر بھی ذہن ودل کی کتاب میں محفوظ ہے،کچھ اوراق الٹتا ہوں۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات
——
۱۹۵۲ء میں آنجہانی راجندرؔ پرشاد عرف راجنؔ بابو اپنی دیہی صفات کی شہرت کے ساتھ آزاد ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ منتخب ہوتے ہیں تو جناب شوق بہرائچی نے ایک بہت چھوٹی بحر گڑھ کر اس کا نام ’’بحر شیر خوار‘‘ رکھتے ہیں اور اس انقلاب وقت پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ؏
——
پُر بہار ارے واہ ، خار زار ارے واہ
کرسیٔ ناز پر ، اک گنوار ارے واہ
——
کچھ عرصہ بعد ادھر سرحد پار ملک فیروز خاں نونؔ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو جناب شوق بہرائچی نے ان کے نام کے ہم معنی انگریزی الفاظ کا فائدہ اٹھا کر یوں چوٹ کرتے ہیں کہ ؏
——
نونؔ کے دور میں یہ تاریکی
آفٹر نونؔ جانے کیا ہوگا
——
سرحد کے دونوں طرف بڑھتی ہوئی بد عنوانیوں سے نالاں ہو کر جناب شوق بہرائچی مختلف عنوانوں سے یوں کف افسوس ملتے ہیں کہ ؏
——
عدالت کو بھی اب لبھانے لگی ہے
مسماۃ رشوت کی اٹھتی جوانی
——
پہونچنا بام ترقی پہ کچھ نہیں مشکل
اسمبلی میں کوئی رشتے دار ہو تو سہی
——
جو وقتِ پرسش کوئی بھی بگڑا فرشتہ موت ہنس کے بولا
یہ بابو جی حشر کا میداں تمہارا ہندوستاں نہیں ہے
——
ایک دفعہ گورکھپور کے ایک مشاعرے میں ایک مولوی نما ناظم مجلس قطعاً بے جا طور پر شوق بہرائچی صاحب کیلئے کچھ گستاخانہ جملے کہتے ہیں تو برا فروختہ ہو کر انہو ں نے بھی فی البدیہہ حملہ کرتے ہیں اور پوری مولوی قوم کو نعوذ باللہ یوں نشانہ بناتے ہیں؏
——
عقل کے کچھ دبیر ہوتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے دہر میں اے شوقؔ
ایک مہمل سی چیز ہوتے ہیں
مولوی بد تمیز ہوتے ہیں
——
اور پھر ایک طویل غزل میں یوں و شنام طراز نظر آتے ہیں ؏
——
ہو تم بھی ابنِ آدم اور وہ بھی بنتِ حوا ہیں
مری بیوی تمہیں کہنے لگی بھائی تو کیا ہوگا ؟
یہ ہم بھی مانتے ہیں واجب التعظیم ہیں واعظ
مگر چندیا جو ان کی آپ کھجلائی تو کیا ہوگا
چلے تو ہو کسی محمل نشیں کو دیکھنے زاہد
مگر لیلیٰ کی کتیا تم پہ غرّائی تو کیا ہوگا
——
اب دوسری طرف چلئے اور دیکھئے کہ جناب شوق بہرائچی کسی انتہائی سنجیدہ مصرعے کو حسبِ روایت بار بار دہرا کر اچانک اس پر دوسرا قطعی غیر متوقع ظریفانہ مصرع چسپاں کرکے کس طرح محفل کو قہقہوں سے لالہ زار کرتے ہیں۔غزل کے پیکر میں اس انداز کے ذرا ان کے چند اشعار دیکھئے ؏
——
یہ کون آ کے تصوّر میں میرے بیٹھ گیا
خدا کی مار ہو انگلی کچل گئی میری
——
خوشی کوغم حیات کو ممات کہتے آئے ہیں
ہر ایک بات آپ واہیات کہتے آئے ہیں
——
اور پھر ذرا یہ رنگ بھی دیکھئے۔ایک نعتیہ مشاعرے میں جناب شوق بہرائچی سامعین میں نظر آتے ہیں تو کچھ دوست نما دشمن انہیں گھیر کر اسٹیج پر لے آتے ہیں اور اپنے مخصوص رنگ میں مگر موقعہ کے شعر سنانے کی فرمائش کی۔چیلنج قبول کرتے ہوئے وہ یوں گرجتے ہیں کہ ؏
——
میں گھس جاؤں کا جنت میں خدا سے بس یہی کہہ کر
یہیں سے آئے تھے آدم یہ میرے باپ کا گھر ہے
ہیبل کو آج کعبے سے نکالا ہے یہ فرما کر
یہ بیتِ کبریا ہے بے کہ تیرے باپ کا گھر ہے
——
پھر محرم کے دنوں میں شوقؔ صاحب کا مسلک انہیں ایک ماتمی مجلس میں لے جاتا ہے تو وہاں اپنے مخصوص رنگ میں عم امام معصوم حضرت کے عمزادہ حسین ؓ حضرت عباسؓ علمبردار(غیر معصوم) کا رشتہ امام مظلوم کے صاحبزادے جوڑ کر ان کی شان میں یہ نے ضرر اور معنی خیز شعر سناتے ہیں؏
——
عباسؔ کی بزرگی زین العباؔ سے پوچھو
معصوم تو نہیں ہے معصوم کا چچا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ وفات
——
افسو س کہ ہر رنگ میں اپنا رنگ دیکھانے والا ’دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والا‘ ’روتوں کو ہنسانے والا‘ طنز و ظرافت کے نشتر سے امراضِ معاشرہ کی تشخیص کرنے والا یہ بے مثال فنکار گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گیا۔کاش کوئی محقق ’اردو کا کوئی جیالا‘اس کے فن کو زندہ کرکے اردو والوں سے اس کے فن کا خاطر خواہ تعارف کرواسکے تو یقیناً علم و ادب کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
——
منتخب کلام
——
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
——
ہر ملک اس کے آگے جھکتا ہے احتراماً
ہر ملک کا ہے فادر ہندوستاں ہمارا
——
مہ جبینوں کی محبت کا نتیجہ نہ ملا
مرغیاں پالیں مگر ایک بھی انڈہ نہ ملا
حسن خود بیں نہ ملا حسن خود آرا نہ ملا
جب میں سسرال گیا ایک بھی سالا نہ ملا
کس طرح جاتا کوئی منزل مقصد کی طرف
کوئی یکہ کوئی تانگہ کوئی رکشا نہ ملا
نظر آیا نہ کہیں ناصح ناداں میرا
جستجو جس کی تھی وی مٹی کا ببوا نہ ملا
اب کی ناکام رہا قائد ملک و ملت
اب کی بربادئ اقوام کا ٹھیکہ نہ ملا
شیخ صاحب کے تلون کا فسوں ہے یہ بھی
مسجدوں میں کبھی اک مٹی کا بدھنا نہ ملا
اے غم دوست ضیافت میں تری کیا کرتا
ایک خوراک سے راشن ہی زیادہ نہ ملا
لاکھ بازار محبت کے لگاۓ پھیرے
بے وقوفی کے سوا ااور کوئی سودا نہ ملا
کس طرح سے کوئی تعمیر نشیمن کرتا
کبھی ستلی نہ ملی اور کبھی سیٹھا نہ ملا
دوست کی شیریں بیانی کا مزا کیا کہۓ
ایسی برفی کبھی ایسا کبھی پیڑا نہ ملا
رکھے ہی رکھے ہوئی جنس کرم سب برباد
ایک بھوکے کو مگر پاؤ بھر آٹا نہ ملا
ہاتھ آۓ گا نہ پروانہء جنت اے قوم
شیخ صاحب کو اگر حلوا پراٹھا نہ ملا
کس طرح سے کسی تعمیر کی ہوتی تکمیل
وقت پر جب کبھی اینٹا کبھی گارا نہ ملا
آج شمشیر برہنہ وہ لیے پھرتے ہیں
جن کے گھر میں کبھی اک بانس کا پھٹا نہ ملا
——
نئی بزم عیش و نشاط میں یہ مرض سنا ہے کہ عام ہے
کسی لومڑی کو ملیریا کسی مینڈکی کو زکام ہے
یہ عجیب ساقئ ماہ وش ترے مے کدے کا نظام ہے
ہوا جیسے تو بھی دیوالیہ نہ تو خم نہ مے ہے نہ جام ہے
یہاں ذکر آب و طعام کیا یہاں کھانا پینا حرام ہے
یہاں برت رکھتے ہیں روز سب یہاں روز ماہ صیام ہے
نہ تو متفق کسی امر میں نہ تو متحد کسی کام میں
مرے لیڈروں کا دماغ ہے کہ حماقتوں کا گودام ہے
ابھی ہے غریبوں کی چشم تر ابھی ان کے حال پہ اک نظر
ابے انقلاب ٹھہر ذرا ابھی تجھ سے اور بھی کام ہے
میں سنا چکا ہوں ہزار بار انہیں درد و یاس کی داستاں
نہ یقین ہو تو وہ پوچھ لیں کہ گواہ ٹیلی گرام ہے
ابھی اس کو جسم تو ڈھکنے دو ابھی اس کو پیٹ تو بھرنے دو
ابھی اس کو فکر عوام کیا ابھی ننگا بھوکا نظام ہے
وہی خادمانہ روش رہے یہ خیال رہبری چھوڑ دو
اسے پی سکو گے نہ دوست تم یہ بہت ہی گاڑھا قوام ہے
تجھے اپنے اور پراۓ کا نہیں کچھ شعور ابھی تلک
مرے جاں نثاروں کی لسٹ میں ذرا دیکھ تیرا بھی نام ہے
——
نہ جب دیکھی گئی میری تڑپ میری پریشانی
پکڑ کر ان کو جھوٹنے کھینچ لایا شوق عریانی
لباس ایجاد کر ایسا کوئی اے عقل انسانی
کہ تن پوشی کی تن پوشی ہو عریانی کی عریانی
معاذ اللہ وہ کافر ادا کو حسن پنہانی
کہ اب خطرے میں ہے ہر اک مسلماں کی مسلمانی
بتا دیتی ہے بڑھ کر ان کے جلووں کی فراوانی
کہ گھر سے بے حجابانہ نکل آئی ہے مغلانی
معاذ اللہ جناب شیخ کا یہ جوش ایمانی
سمجھتے ہیں بتوں کے حکم کو آیات قرآنی
جسے دیکھو رکھے ہے سر پہ اپنے تاج سلطانی
ہنسی ٹھٹھا سمجھ رکھا ہے ہر اک نے جہاں بانی
تمنائیں مری پامال یوں کرتا ہے وہ ظالم
کسی موضع میں جیسے کھیت جوتے کوئی دہقانی
ہر اک کی خاطریں حسب مراتب ہوں گی دوزخ میں
وہ ناصح ہوں کہ زاہد ہوں کہ ملا ہوں کہ ملانی
خدا محفوظ رکھے فطرت انساں سے عالم میں
مؤدب ہو کے کہتا ہے جسے شیطاں بھی استانی
سدا حرص و ہوس سے دور رہنا چاہۓ ہم دم
یہ دونوں ہیں بڑی فتنہ جٹھانی ہو کہ دیورانی
بقدر ذوق تکمیل تمنا شوقؔ کیا ہوتی
کہ ہم نے عورتیں پائیں کبھی اندھی کبھی کانی
ہیں یکساں زاہد کم عقل ہوں یا ناصح ناداں
کھلونے سب برابر ہیں وہ چینی ہوں کہ جاپانی
وہ ناصح ہوں کہ واعظ ہوں کہ قاعد ہوں کہ رہبر ہوں
انہیں لوگوں سے پھیلی ہے جہاں میں نسل انسانی
جفائیں ہم پہ ہوتی ہیں کرم غیروں پہ ہوتا ہے
یہاں گرتے ہیں اولے اور وہاں برساتے ہیں پانی
مجھے برباد کر کے دوست پچھتانے سے کیا حاصل
نہ لڑھکا دے تمھیں دوزخ میں یہ شیطان کی نانی
——
خوف اک دل میں سمایا لرز اٹھا کاغذ
کانپتے ہاتھوں سے ظالم نے جو موڑا کاغذ
نہ تو نیلا نہ تو پیلا نہ تو اجلا کاغذ
چاہئے ان کے تلون کو ترنگا کاغذ
صفحۂ دل پہ نظر آتے ہیں اب داغ ہی داغ
گود ڈالا کسی کمبخت نے سارا کاغذ
باغباں کے ستم و جور جو لکھتے بیٹھے
لگ گیا رم کا رم اور دستہ کا دستہ کاغذ
جب بھی وہ بیٹھتے ہیں لکھنے کو اقرار وفا
گاؤں بھر میں کہیں ملتا نہیں پرزہ کاغذ
ان کے ہاتھوں میں قلم دان ہدایت اب ہے
جو نہیں جانتے سیدھا ہے کہ الٹا کاغذ
کیا کہے ان کے تخیل کی دیانت کوئی
جیسے دیکھا ہے کبھی بانس کا موٹا کاغذ
ظلم ڈھا کر بھی ابھی تک ہے کوئی بے تقصیر
روز لکھنے پہ بھی ہے سادے کا سادہ کاغذ
داستاں گیسوئے پیچاں کی جو لکھنے بیٹھے
فاؤنٹن پن میں ہمارے بہت الجھا کاغذ
دم تحریر نہ ظاہر ہو کہیں دل کا غبار
دیکھیے ہونے نہ پائے کہیں میلا کاغذ
بھیجنا ہے مجھے اک ماہ جبیں کا خط شوق
شوقؔ صاحب کہیں ملتا نہیں بڑھیا کاغذ
——
ہو کیسے کسی وعدے کا اقرار رجسٹرڈ
جب خود ہی نہیں ہے مری سرکار رجسٹرڈ
کیا شیخ و برہمن پہ کرے کوئی بھروسہ
تسبیح رجسٹرڈ نہ زنار رجسٹرڈ
اس جنبش چتون سے کوئی بچ نہیں سکتا
قاتل کا مرے ہوتا ہے ہر وار رجسٹرڈ
چاہے بھی تو اب ترک تغافل نہیں ممکن
ہے دوست کی غفلت کا یہ آزار رجسٹرڈ
مدت ہوئی دم توڑ دیا امن و اماں نے
اب ہو گئے یہ حشر کے آثار رجسٹرڈ
ہو پایا ترے حسن تلون کے کرم سے
اقرار رجسٹرڈ نہ انکار رجسٹرڈ
دنیا ہے مری تیغ کا مانے ہوئے لوہا
ہے سارے زمانے میں یہ تلوار رجسٹرڈ
تجھ پر ترے ہر فعل پر اٹھنے لگی انگلی
تو خود ہے گزیٹیڈ ترا کردار رجسٹرڈ
اب حسن فروشی کے لیے مصر کے بدلے
بھارت میں ہے نخاس کا بازار رجسٹرڈ
تو لاکھ کرے چہرۂ زیبا کی نمائش
ہوگا نہ ترے حسن کا معیار رجسٹرڈ
چڑھتا ہے ارادہ مرا پروان تہ تیغ
ہوتا ہے مرا عزم سر دار رجسٹرڈ
بیٹھا ہوا سکہ ہے مری فکر سخن کا
اے شوقؔ نہ ہوں کیوں مرے اشعار رجسٹرڈ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ