اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعرہ، افسانہ نگار، تذکرہ نگار ، ناول نگار اور صحافی سلطانہ مہر کا یوم پیدائش ہے

سلطانہ مہر (پیدائش: 6 اپریل 1938ء)
——
سلطانہ مہر کے نام سے شہرت پانے والی شاعرہ اور صحافی کا خاندانی نام فاطمہ ہے۔ 6 اپریل، 1938ء کو بمبئی کے ایک میمن گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد کا نام حاجی ہاشم کریم دولا ہے۔ جن کا تعلق کاٹھیاواڑ کے شہر ویراول سے تھا۔ والدہ خدیجہ ہاشم کاٹھیاواڑ کے شہرکو ڈینار کی رہنے والی تھیں۔
سلطانہ مہر نے گجراتی زبان میں ابتدائی چار جماعت تک تعلیم میمن کمو جعفر اسکول، بمبئی میں ہی حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد مکمل کی اور کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی سند حاصل کی۔
——
ادبی خدمات
——
سلطانہ مہر کو بچپن ہی سے اردو ادب سے لگاؤ تھا۔ ان کا پہلا افسانہ اردو روزنامہ انقلاب میں 1953ء میں شائع ہوا جب کہ ان کی تحریریں تبسم حیدرآباد، روزنامہ ہندوستان اور شمع دہلی کی بھی زینت بنتی رہیں۔ یکم جنوری 1965ءسے روزنامہ انجام کراچی سے منسلک ہوئیں۔ 1967ء میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئیں۔ جنگ میں ان کا کالم آج کاشاعر بے حدمقبول ہواجسے 1978ء میں انہوں نے سخنور کا نام دے کر کتابی شکل میں شائع کیا تو ادبی حلقوں میں اس کتاب کو بے حد پزیرائی ملی۔ اس سے قبل 1973ءمیں آج کی شاعرات کے نام سے ایک سو تین پاکستانی شاعرات کا تذکرہ انہوں نے لکھا تھا اور خود شائع بھی کیا تھا۔
سلطانہ مہر ایک کہنہ مشق صحافی، معروف شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف افسانہ نویس، ناول نگار اور تذکرہ نگار کی حیثیت سے بھی خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ ماہنامہ روپ کی بحیثیت مدیر اعلیٰ 1980ءسے 1990ء تک اپنی علمی و ادبی قابلیتوں کا لوہا منواتی رہیں اور آ ج کل لاس اینجلس، ریاستہائے متحدہ امریکا میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کی ادبی سرگرمیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے لاس اینجلس میں مہر بک فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے زیر اہتمام سخنور (حصہ دوم)، گفتنی (اول) اور ایک شعری مجموعہ حرف معتبر شائع ہو چکے ہیں۔
علمی اور ادبی حلقوں میں سلطانہ مہر کا نام مقبول، ممتاز اور منفرد ہے۔ انہوں نے اردو ادب کی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ جس کا اعتراف دانشوروں کے علاوہ ناقدین نے بھی کھلے دل سے کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سخن رہے گا، سخنور بھی کم نہیں ہوں گے
——
سابق شیخ الجامعہ کراچی اور ماہر ادب و لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب لکھتے ہیں،
” سلطانہ مہر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ جو کام بھی کرتی ہیں سلیقے سے کرتی ہیں۔ صحافی ہونے کے علاوہ وہ شاعرہ بھی ہیں، ناول نگار بھی تنقید نگار بھی اور افسانہ نگار بھی۔ا ن کی کتاب سخنور ادبی و علمی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی ہے۔ سخنور جلد دوم کی اشاعت پر میں سلطانہ مہر کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ “
——
تفصیلِ کتب
——
سلطانہ مہر کی اب تک بیس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں ۔
بچوں کا ادب
ایک سپاہی کی کہانی (1974ء )
شاعری
حروفِ معتبر (1996ء)
ناول
داغِ دل (1961ء)
تاجور (1966ء)
اک کرن اجالے کی ( 1970ء )
جب بسنت رت آئی (1971ء)
افسانوی مجموعے
بند سیپیاں (1976ء)
دھوپ اور سائبان (1980ء)
دل کی آبرو ریزی (1981ء)
تنقیدی کتب
اقبال، دورِ جدید کی آواز ( 1977ء )
ساحر کا فن اور شخصیت ( 1989ء)
تذکرہ نگاری
آج کی شاعرات (1973ء )
سخنور، تذکرہِ شعرائے پاکستان (1979ء)
سخنور اول (1978ء)
سخنور دوم (1996ء)
سخنور سوم (1998ء )
سخنور چہارم (2000ء)
سخنور پنجم ( 2004 ء)
گفتنی اول (2000ء )
گفتنی دوم ( 2004ء )
——
سلطانہ مہر کی شخصیت پر تحقیقی مقالات
——
ان سب کتب کے علاوہ بھی سلطانہ مہر کا تخلیقی کام مطبوعہ و غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔ جو مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے اور کچھ ابھی شائع ہونا ہے۔ نیز جامعات میں ان کے فن و شخصیت پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں، ان طلبہ میں ڈاکٹر زاہد ظفر خان نے 2013 میں اردو میں تذکرہ نگاری ( سلطانہ مہر کے خصوصی مطالعے کے ساتھ )کے عنوان سے پی، ایچ ڈی اردو کے لیے برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال میں مقالہ پیش کیا جو منظور ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : صد شُکر کہ ہم نعت سے منسوب ہُوئے ہیں
——
محترمہ جوہی فاطمہ نے 2014 میں سلطانہ مہر بحیثیت جدید تذکرہ نگار کے عنوان سے جامعہ کراچی میں ایم، فل اردو کے لیے مقالہ پیش کیا جو منظور ہوا۔
مبشر صدیق صاحب نے 2013 تا 2015 کے سیشن میں سلطانہ مہر : شخصیت اور فن کے عنوان سے ایم فل اردو کے لیے گورنمنٹ کالج، لاہور یونیورسٹ میں مقالہ پیش کیا جو منظور ہوا۔
——
منتخب کلام
——
جتنا جتنا آدمی مائل بہ ارزانی ہوا
اتنا اتنا نرخ اخلاصِ وفا بڑھتا گیا
چاند تو اہلِ زمیں کی زد میں آ پہنچا مگر
دل سے دل کا فاصلہ بڑھتا گیا ، بڑھتا گیا
——
بجلی چمکے ، بادل گرجے ، چھم چھم چھم برسات ہوئی
دل کی دھرتی اب بھی پیاسی ، جانے یہ کیا بات ہوئی
روز و شب کے کوہ تراشیں ، روز کا یہ معمول ہوا
مر مر کر اب صبح کریں گے ، تڑپ تڑپ کر رات ہوئی
——
ایسی ہی برسات ہوئی تھی جب اپنا گھر بیٹھ گیا
تب سے جب جب بادل دیکھے ، دل میں اک ڈر بیٹھ گیا
کیسا خستہ ، کیسا شکستہ اپنی ذات کا ایواں تھا
ابھی ابھی دیوار گری تھی اور ابھی در بیٹھ گیا
——
سائے کی متلاشی آنکھیں جھلسی جائیں سورج سے
پھل کے لیے پھیلی جھولی میں پیڑ سے پتھر گرتے ہیں
اس کو گلشن کون کہے گا ایسا گلشن ہوتا ہے ؟
چھپے ہوئے ہیں پھن پھولوں میں ، سانپ مہکتے پھرتے ہیں
——
یہ کہہ کے الگ ہیں ہم پروازِ خلائی سے
انسان کو فطرت کے اسرار سے کیا مطلب
تقریر تو کرتے ہیں تعمیر نہیں کرتے
گفتار کے غازی ہیں کردار سے کیا مطلب
——
سو طرح کے گماں تھے ، وہ آئے یا نہ آئے
بیٹھے رہے سحر تک ہم سو دئیے جلائے
——
ماضی کو سینے سے لگائے مستقبل کا ساتھ دیا
یوں ہم نے ہر بزم نبھائی ، ہر محفل کا ساتھ دیا
——
ہم قفس میں رہ کے جس کو آشیاں کہتے رہے
تھی فقظ حدِ نظر ، ہم آسماں کہتے رہے
——
تخریب میں تعمیر کے پہلو ہیں نہاں اور
مٹتا ہے جہاں ایک تو بنتا ہے جہاں اور
——
جو دانشور خزاں کو بانجھ کہتے تھے وہ جھوٹے تھے
خزاں کا آئینہ ٹوٹا تو ہر کرچی میں بُوٹے تھے
——
گو وقت ہر اک زخم کا مرہم ہے مگر مہرؔ
اک زخمِ محبت جو ہرا تھا سو ہرا ہے
——
آنکھوں میں مری جھانک کے اک بار تو دیکھو
ویران خلاؤں میں بھی اک شہر بسا ہے
——
ماضی کو سینے سے لگائے مستقبل کا ساتھ دیا
یوں ہم نے ہر بزم نبھائی ، ہر محفل کا ساتھ دیا
خون ابھی باقی تھا رگوں میں اور یہ ظالم ڈوب گئی
نبض ہماری کہلاتی تھی اور قاتل کا ساتھ دیا
آتشِ دل آہوں میں ڈھلی اور اشک زمیں میں جذب ہوئے
آگ ہوا سے مل گئی جا کر ، آب نے گِل کا ساتھ دیا
کر کے گریباں چاک گلوں نے بزم سجائی ماتم کی
آج شفق نے خوں برسا کر ، مجھ بسمل کا ساتھ دیا
پتا پتا کمھلایا ہے ، کیاری کیاری دھول رچی
سارے چمن نے جیسے مری بربادیٔ دل کا ساتھ دیا
تم سب کچھ پا کر بھی ناخوش ، ہم سب کچھ کھو کر بھی مگن
تم دولت کے پیچھے بھاگے ، ہم نے دل کا ساتھ دیا
مہرؔ کسی کا جھوٹا وعدہ ، دل نے جان کے مان لیا
دل جو مرکزِ حق کہلائے اور باطل کا ساتھ دیا
(بحوالہ : حرفِ معتبر ، مصنفہ سلطانہ مہر ، صفحہ نمبر 150 )
——
اپنی دریدہ ذات پہ ہم نے ، رفو کئے ہر چند بہت
چادر اصل تو تھوڑی رہ گئی ، اور ہوئے پیوند بہت
زیست کی ساری تلخی سہہ لی ، پل بھر کا جو پیار ملا
زہر کا پورا پیالہ بھی ہو ، تو چٹکی بھر قند بہت
ہر چہرہ اک کھلا صحیفہ ، دل سے پڑھو تو علم اتھاہ
دل کا دریچہ بند رہے تو اک چٹکی پاژند (۱) بہت
سب بُقراط بزعمِ خود ہیں ، کوئی یہاں ہمدرد نہیں
غم خواری کو سب گونگے ہیں ، سب کے لب پر بند بہت
وقت ادھر اک بپھری ندی ہے ، ہر لحظہ اک لہر نئی
اور ادھر ہم ماضی کی زنجیروں کے پابند بہت
سچ کی ہمت کیسے کرتے ، ہم بے بس مجبور مگر
جھوٹی قسموں پر شرمندہ ، ہوئے تری سوگند بہت
دل سے نکلی آہ بھی بھاری ، مہرؔ ہزاروں شبدوں پر
دو غزلہ ، سہ غزلہ کیسا ، ، اچھے شعر تو چند بہت
۱۔ پاژند : بہت قدیم زرتشت کی کتاب
(بحوالہ : حرفِ معتبر ، مصنفہ سلطانہ مہر ، صفحہ نمبر 148 )
——
جو دانشور خزاں کو بانجھ کہتے تھے وہ جھوٹے تھے
خزاں کا آئینہ ٹوٹا تو ہر کرچی میں بُوٹے تھے
یہیں جُھلسے ، بدن چٹخے ، یہیں پیاسوں نے جاں دی تھی
اسی صحرا سے آبِ سرد کے چشمے بھی پُھوٹے تھے
درِ زنداں کھلا ، ہم آئے باہر ، تو کھلا ہم پر
وہی زنداں کا موسم تھا کہ جس موسم میں چُھوٹے تھے
مہِ سوزاں سے آنکھیں سینکنے والوں نے کب دیکھا
شبِ مہتاب کے آنگن میں تارے ، کتنے ٹُوٹے تھے
یہ تیرا شہر ، میری عمر کو واپس نہ کر پایا
جو ماہ و سال تیرے شہر کی گلیوں نے لُوٹے تھے
تمہیں انکار گلشن میں قدم تم نے نہیں رکھا
میں کیسے مان لوں کلیاں غلط تھیں ، پھول جُھوٹے تھے
نظر ڈالی جو دل کے گلستاں پر مہرؔ تو دیکھا
کہ ساری کیاریوں میں دھول تھی ، گُل تھے نہ بُوٹے تھے
(بحوالہ : حرفِ معتبر ، مصنفہ سلطانہ مہر ، صفحہ نمبر 146 )
——
کیسے ستم اک جرمِ محبت میں اس دل پر ٹوٹ گئے
کتنے نشتر پار ہوئے اور کتنے نشتر ٹوٹ گئے
ہم نے مانا ٹوٹنا دل کا لمحے بھر کی بات سہی
لیکن اس لمحے میں ہم پر لاکھوں محشر ٹوٹ گئے
پیار کا رشتہ جب نہ رہا تو ساری امنگیں خاک ہوئیں
کانچ کے برتن ہاتھ سے چُھوٹے ، فرش پہ گر کر ٹوٹ گئے
پتھر کو ہم کیا روتے ، انسانوں کو روتے ہیں
بت خانہ ٹوٹا تو ٹوٹا ، سینکڑوں آزر ٹوٹ گئے
درد کی دولت خون کے آنسو پلکوں تک تو پہنچے تھے
اس سے آگے لُٹ گئی دولت ، سارے گوہر ٹوٹ گئے
جب تک تھی پرواز کی طاقت ، اُڑتے ہوئے ڈر لگتا تھا
جس دم دل میں ہمت آئی ، دونوں شہپر ٹوٹ گئے
سنگدلوں کی مہرؔ یہ دنیا جس کو دیکھو پتھر ہے
دو ہمدرد بھی مل جائیں تو سمجھو پتھر ٹوٹ گئے
(بحوالہ : حرفِ معتبر ، مصنفہ سلطانہ مہر ، صفحہ نمبر 145 )
——
نظم : میں گُڑیا ہوتی تو
——
میں گڑیا ہوتی تو
بچپن مجھ سے روٹھ نہ جاتا
جن لمحوں میں میرے خالق نے
مجھ کو تخلیق کیا تھا
وہ لمحے امر ہو جاتے
چاہے دکھ سکھ کے موسم کتنے ہی آتے
میں گڑیا ہی رہتی
ماضی اور مستقبل کے اندیشوں
اور گورکھ دھندوں سے آزاد
میں اپنے حال میں گم رہتی
میرے ہونٹوں پر ہر دم
کلیاں کھلتی مسکانوں کی
اور کبھی نہ مرجھاتیں
باسی جھوٹے چہروں اور کھوٹے سکوں کے بیچ
میرا بیوپار نہ ہوتا
میں ماں ہوتی ، بیوی یا بیٹی ہوتی
یا بہنا جس کی بھی
میری حرمت پامال نہ ہوتی
میں ویسی ہی رہتی
جیسا میرے خالق نے
مجھ کو تخلیق کیا تھا
ہاں میں گڑیا ہوتی تو ۔۔
کاش کہ میں
گڑیا ہوتی
(بحوالہ : حرفِ معتبر ، مصنفہ سلطانہ مہر ، صفحہ نمبر 83 )
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ