اردوئے معلیٰ

سید فخرالدین بلے کی بیاض کے ساتھ سات دن
خوبصورت لب و لہجے کےصاحب ِ طرز شاعر سیدفخرالدین بلے کی بیاض کے ساتھ نامورادیب و شاعر شبنم رومانی نے سات دن گزارے اور اختصار کے ساتھ اظہاریہ بھی لکھا،اُنہیں جو اشعار زیادہ بھائے ،انہیں اب کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ شبنم رومانی کے فرزند ارجمند اور جانے مانے شاعر فیصل عظیم نے لکھاہے ۔یہی نہیں پاکستان اور بھارت کےنامورادیبوں اور مایہ ء ناز شاعروں نے سید فخرالدین بلے کی شاعری پر بہت کچھ لکھا اور کہا ہے۔ان میں سے کچھ تحریروں کے اقتباسات بھی اس کتاب کی زینت بنادئیے گئے ہیں ۔ سیدفخرالدین بلے کاشعری سفر 60سال جاری رہا۔بہت سے ادوار انہوں نے زندگی میں دیکھے ،ان کی جھلکیاں بھی ان کےکلام میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ارباب ِشعرو ادب سیدفخرالدین بلے کی شاعری کے معترف اور کہیں کہیں مداح نظرآتے ہیں ۔ فیض احمد فیض انہیں چھپا رستم کہتے تھے۔آل احمد سرورنے انہیں بلند پایہ اور گراں مایہ کلام کاخالق قراردیا۔احمد ندیم قاسمی کا خیال تھا کہ بہت سےشاعروں کی غزلوں کے انبار میں سے بھی سیدفخرالدین بلے کی غزل الگ سے پہچانی جاتی ہے ۔ڈاکٹروزیرآغا نےلکھاکہ میں ان کاجدید رنگ دیکھ کردنگ رہ گیاہوں۔فراق گورکھپوری نے انہیں لفظوں کےمصور کانام دیا۔جگن ناتھ آزادنے لکھا سید فخرالدین بلے کاکلام پڑھنے اور سننے کےبعد برسوں اس کے سحر سےآزاد ہونا مشکل ہے۔ افتخار عارف نے انہیں اعلیٰ ادبی روایات کاامین اور پرچارک قراردیا۔ انتظار حسین نےفروغ ادب کیلئے ان کی خدمات کوبھرپورانداز میں خراج محبت پیش کیااور لکھا انہوں نے جتنی بھی شاعری کی ،اس کے ساتھ خوب انصاف کیا۔سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کہا مجھَے ان کی شاعری میں وطن سے محبت بولتی نظرآئی ۔ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ نظریہ ء پاکستان سید فخرالدین بلے کی شاعری میں دھڑکتا اور سانس لیتا دکھائی دیتاہے۔کنورمہندرسنگھ بیدی سحران کی شخصیت اور شاعری کودیکھ کر بلے بلے کہنے پرمجبور دکھائی دئیے۔ڈاکٹرعنوان چشتی کاخیال تھا کہ تصوف میں ان کی شاعری کارنگ اور بھی کِھلتا اور کُھلتا ہوامحسوس ہوتاہے۔ضمیر جعفری تو انہیں سن کر یہ ضرور کہتے تھے کہ “جے میں ویکھاں اوندے ولے بلے بلے بلے”۔جگرمراد آباد ی نے ان کی پاکستان ہجرت کے بعدعلی گڑھ کے
مشاعرے میں فی البدیہ شعر کہہ کر انہیں غائبانہ داد دی ۔
——
کیا کوئی شعر پڑھے آج کہ بلے کے بغیر
کاٹنے دوڑتی ہے محفل ِ اشعار مجھے
——
اس سے پہلےبھی ایک کتاب سید فخرالدین بلے ایک آدرش ۔ایک انجمن منظرعام پر آچکی ہے۔
لیکن اس وقت تو سید فخرالدین بلے کی بیاض کےساتھ7دن کی بات ہورہی ہے۔ یہ کتاب بھی قارئین کرام کی ضیافت طبع کیلئے پیش کی جارہی ہے۔ سب سے پہلے آپ محترم شبنم رومانی کا اظہاریہ ملاحظہ فرمائیں گے۔اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے مشاہیر ِ ادب نےصاحب ِ طرز شاعر سیدفخرالدین بلے کی شاعری کے حوالے سےجوکچھ کہا، ان کے اقتباسات دیکھ پائیں گے ۔اس کےبعد جانے مانے شاعر فیصل عظیم کا دیباچہ بعنوان آسمانوں کاسفر آپ کے دامن دل و نگاہ کواپنی طرف کھینچتاہوا محسوس ہوگا اور اس کتاب کےآخر میں سیدفخرالدین بلے کا منتخب کلام آپ کےذوق کی تکمیل کاسامان بہم پہنچائے گا۔ مرتبین کی یہ کاوش قابل ِ قدر بھی ہے اورادب دوستوں کیلئے محبت بھری سوغات بھی ۔آپ پڑھئے اور سردُھنئے۔
{ ادارہ }
——
سَیَّد فخراالدین بَلّے کے شعری رنگ
اظہاریہ :شبنم رومانی
——
سَیّد فخرالدین بَلّے نے اپنے اندرکا براعظم تودریافت کرلیاہے۔اس براعظم میں کتنے جہان آباد اور کتنے خزائن مخفی ہیں ،اس کاسراغ ان کی تخلیقات کے ذریعے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ شاعر، ادیب، اسکالر، دانشور، محقق ، مولف، خطیب اورماہر ِ تعلقات عامہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے جوہردکھائے۔شہرشہر محفلیں سجائیں۔فنون و ثقافت کی ترویج و ترقی کے لئے قابل ِقدرخدمات انجام دیں،جن کے اعتراف میں انہیں محسن ِ فن اور مین آف دی اسٹیج کے خطاب سے بھی نوازاگیا۔
سَیّد فخرالدین بَلّے کی شخصیت کثیرالجہت اوران کی شاعری کئی ادوار پرمحیط ہے۔نظموں میں بلاکازور ِ بیان ہے۔منظرنگاری کے ساتھ ساتھ حسن ِ فطرت کی خوبصورت مصوری بھی کی ہے۔ان کی غزل کاکینوس بڑاوسیع ہے۔میں نے ان کی بیاض کے ساتھ سات دن گزارے ہیں ۔وہ کہیں تصوف کے اسرار ورموز کھولتے نظرآئے،کہیں حکمت و دانش کے ساتھ بولتے نظرآئے۔کہیں اپنی شاعری میں بہت سے سوال اٹھائے ا ورکہیں خود ہی ان کے جواب دے کرلاجواب کردیا۔یہ شاعری دعوت ِ فکر دیتی ہے ۔تشنگان ِ ادب و معرفت کی پیاس بجھاتی اور ذوق کی تسکین کاسامان بہم پہنچاتی ہے۔سَیّد فخرالدین بَلّے کاکلام ان کی وسیع العلمی ،قادرالکلامی،ژرف نگاہی،نفاست پسندی،زبان و بیان پراستادانہ مہارت اور فکرو خیال کی بلندی کا آئینہ دارہے۔
ادیبوں اور شاعروں کاقافلہ ان کے گھرپرہرمہینے کی یکم تاریخ کوپڑاوڈالتاہے۔بڑے بڑے ادبی ستاروں کی کہکشاں ان کے آنگن میں سجی نظرآتی ہے اور قافلے کے سفر اور پڑاوکی بازگشت ہمیں ان کے مجلے آواز ِ جرس میں سنائی دیتی ہے۔انہوں نے قافلے کاخصوصی پڑاومیر ے اعزاز میں بھی ڈال کرمیری عزت افزائی کی۔
سید فخرالدین بَلّے نے جس جس شعبے میں قدم رکھا،وہاں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ عمرنے وفاکی تومیں انہیں اپناموضوع ضرور بناوں گا۔
——
یہ بھی پڑھیں : قوالی کا رنگ ، امیر خسرو سے سید فخرالدین بلے تک
——
اب ملاحظہ فرمائیے ۔ سید فخرالدین بلے کی شاعری ۔ پاک و ہند کے مشاہیر ِ ادب کی نظر میں
——
احمدندیم قاسمی
——
سیّد فخرالدین بَلّے ایک قادرالکلام شاعر،خوبصورت نثرنگار ،اپنی ذات میں ایک انجمن ،ایک قافلہ اورایک تہذیبی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ فنون و ثقافت کےدلدادہ ہیں۔علم و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
تلاش ِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بَلّے
ہماری زندگی شعرو ادب یوں بھی ہےاوریوں بھی
اعلیٰ سرکاری عہدوں کا فائز رہے۔ کچھ حکمرانوں کے ساتھ ذاتی سطح پر قریبی مراسم ہونے کے باوجود اپنا کوئی مکان نہیں بناسکے۔دوران ملازمت سرکاری بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہےاور پھرکرائے کےمکانوں میں زندگی اطمینان کےساتھ گزاری ۔ہمیشہ ان کی زبان پر کلمہ ء شکررہا۔اس صورت حال پر بھی ان کا اپنا ایک شعر ان کی مثبت سوچ کا پتا دیتا ہے ۔
——
سر اُٹھاکر زمیں پہ چلتا ہوں
سرچُھپانے کوگھرنہیں، نہ سہی
——
بلے صاحب برائی کابدلہ ہمیشہ بھلائی سے دیتے نظرآئے۔دائیں ہاتھ سے مدد کریں تو اپنے بائیں ہاتھ کو پتا نہیں چلنے دیتے۔ خوبصورت محفلیں سجانا ان کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔وہ پندرہ جرائد کے بانی ایڈیٹراور ایڈیٹر بھی رہے لیکن اس کے باوجود خود نمائی سے ہمیشہ کوسوں دور دکھائی دئیے۔اخترحسین جعفری ان کے کمالات ِ فن کے مداح تھے۔ان کی دل میں اتر جانے والی نعت سن کر اہل ِمحفل نے حفیظ تائب کی آنکھیں بھیگتی دیکھیں ۔ فیض احمد فیض انہیں چُھپا رستم کہتے تھے۔اور وقت نے ان کے اس تبصرے پر مہر ِ تصدیق ثبت کردی ۔ان کی تخلیقی شخصیت کے بہت سے رنگ دنیائےادب پرشعروں کے معانی کی طرح رفتہ رفتہ کھلے۔ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ادب دوست ان کاذکر عزت واحترام سے کرتے دکھائی دئیے۔ اس لئے کہ وہ اپنےحلقہ ءیاراں کےدلوں میں آج بھی بسے ہوئے ہیں۔سیدفخرالدین بلے کاشعری لب و لہجہ تواناہے۔ ان کی فکر میں بلا کی گہرائی ہے ،جو سننے والے کوسوچنے پرمجبورکردیتی ہے ۔وہ مشاعروں میں شرکت سے گریزاں ضرور رہے لیکن ادبی دنیا سے نہیں ۔وہ تو خود جہاں ہوتے شعرو ادب کی محفل سج جایاکرتی تھی ۔ ان کااپنا ہی ایک انداز رہا ۔ میری نظر سے ان کا جو کلام بھی گزراہے ،اس کے پیش نظر یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے شاعروں کی غزلوں کے انبار میں سے بھی ان کی غزل کوالگ کیاجاسکتاہے ۔آپ ان کی کوئی سی غزل ہویانظم اٹھاکردیکھ لیں ،وہ ان کی قادرالکلامی، فنی پختگی اور فکرو خیال کی بلندی کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔
——
ڈاکٹر وزیرآغا
——
میرے لئے بَلّے صاحب کی ذات اور شخصیت کے دریا کو کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ اتنے اچھے ہیں، اتنے اچھے ہیں کہ بہت ہی اچھے ہیں اور یہی شاید ان کا قصور بھی ہے۔ جب مہاتما گاندھی کو گاڈسے نے گولی کا نشانہ بنایا تو جارج برنارڈ شا نے برملا کہا تھا ۔دیکھا !اس دنیا میں اچھا ہونا کتنا خطرناک ہے۔ کچھ یہی بَلّے صاحب کا حال ہے۔ انہوں نے زمانے سے جو زخم کھائے ہیں۔ اس کی داستان طویل تو ہے لیکن لذیذ ہرگز نہیں۔ البتہ اس میں قطعاً کوئی کمال نہیں ہے کہ ان چرکوں نے وہی کام کیا ہے ،جو گاڈسے کی گولی نے کیا تھا۔ اب غلام جیلانی اصغر چاہیں تو برملا کہہ سکتے ہیں کہ “بَلّے صاحب‘ میں نہ کہتا تھا کہ اتنا اچھا ہونا اچھا نہیں”۔ ادب کے لئے بَلّے صاحب کی لگن اور لگاﺅ مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت نے انہیں اعلیٰ ذوقِ نظر ہی عطا نہیں کیا۔ دل کی بات کو لفظوں میں ڈھالنے کا گُر بھی سکھایا ہے۔ اس کی نثر اتنی پختہ ‘ نین نقش کی اتنی صحیح اور لفظوں کے انتخاب کے معاملے میں اس قدر سخت مزاج ہے کہ کسی فقرے پر تو کجا ان کے استعمال کردہ لفظ پر بھی انگلی رکھنا بہت مشکل ہے۔ اس پر مستزاد ان کا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے کتابوں کو خود پر لادا نہیں بلکہ انہیں ہضم کیا ہے اور پھر ان کے مطالبہ کو اپنی سوچ سے ہم آہنگ کر کے بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کے حوالے کر دیا ہے۔ تصوف کے موضوع پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف انہیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے ہیں۔ بَلّے صاحب شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ شاعری کے بھی ان کے ہاں دونوں رنگ ملتے ہیں۔ کلاسیکی بھی اور جدید بھی۔ پچھلے دنوں مجھے ان کی بیاض دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں ان کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
[سید فخرالدین بَلّےکے سرگودھا سے لاہور تبادلے پر منائی جانے والی ایک شام میں نامور شاعر اور نقاد ڈاکٹر وزیرآغانےاپنا یہ مضمون پیش کیاتھا، اس شام کااہتمام انجم نیازی نے کیا تھا۔ جبکہ اسی محفل میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے ان کی کثیرالجہت شخصیت اور شعرو شاعری پر بڑا خوبصورت مقالہ پیش کیا تھا]
——
حفیظ تائب
——
سیدفخرالدین بلے نے عشق ِ نبیء آخرلزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو زبان دی ہے ،وہ انہی کاخاصا ہے۔ایک بڑی مشکل بات کواتنی آسانی کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ اس پر رشک ہی کیاجاسکتاہے۔تنہائی میں میرے ہونٹوں پر ان کے یہ دو نعتیہ اشعار رہتے ہیں اور میں انہیں گنگناتے ہوئے جو کیفیت محسوس کرتاہوں، اسے بیان نہیں کرسکتا۔سبحان اللہ ۔سبحان اللہ ۔ بلے بلے ۔کیا نعت ہے ۔
——
ہے خوف ِ خدا ان کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
الفاظ جھجھکتے ہیں لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صل ِ علی ٰ کہہ نہیں سکتے
——
یہ بھی پڑھیں : کتاب کا مقدمہ ” ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں”۔
——
افتخار عارف
——
سید فخر الدین بلے ہمارے زمانے کے ان یگانہ ءروزگار شخصیتوں میں تھے کہ جن کی ذات گرامی بے شمار کمالات کی جامع تھی۔شاعر، ادیب، نقاد، محقق، سکالر۔ پروردگار ِعالم نے سید گرامی کو بہت نواز تھا۔ پھر بھی شخصی طور پر وہ ایک انتہائی ملنسار، خوش مزاج، کشادہ ذہن، کشادہ نظر آدمی تھے کہ ایک بار جو بھی ان سے مل لیتا ،وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ محمد اور آل ِمحمد سے ان کی تمام و کمال عقیدت ان کے اشعار میں بھی ان کے دل کی ترجمانی کرتی نظر آتی تھی۔شعر دیکھئے
——
واللہ بے مثال تھی شادی بتول کی
بیٹا خداکے گھرکاتھا،بیٹی رسول کی
——
آج بھی ان کا منقبتی نوعیت کا کلام اہل ِ محبت میں عقیدت کے ساتھ پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ اپنے اہل ِ کمال کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات ِ جلیلہ کا اعتراف کرنا زندہ قوموں کی روایت میں شامل ہوتا ہے۔ لازم آتا ہے کہ ہم سید فخر الدین بلّے کی علمی و ادبی خدمات کو یاد رکھیں اور زیادہ سے زیادہ حلقوں تک ان کے فیضان کو عام کریں۔ اپنے ایک محسن کا یہ کم سے کم حق ہے ،جو ہم ادا کر سکتے ہیں۔
——
ڈاکٹر عنوان چشتی، بھارت
——
سیّد فخرالدین بَلّے کے اندر نامعلوم جہان آباد ہیں ۔جو وقتاً فوقتاً ان کے رویوں اور کردار میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ خواجہ غریب نوازؒ کی یادگار ہیں۔ اس لئے ان کی زندگی اور شاعری میں چشتیہ مسلک اور تصوف کا رنگ اور بھی کھِلتا اور کھُلتا ہوا نظر آتا ہے۔وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ان کی شاعری کے مفاہیم ومطالب مزید کُھلتے چلے جائیں گے۔
——
جوش ملیح آبادی
——
سیّد فخرالدین بَلّے کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔ تاریخ‘ ادب اور تصوف کا وسیع مطالعہ ان کے کلام میں بولتا ہوا اور سوچ کے در کھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
——
بابائے اردو مولوی عبدالحق
——
سیّد فخر الدین بَلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے ۔
——
جون ایلیا
——
سید فخرالدین بلے کی شخصیت ان کی خوبصورت شاعری کاپرتوہے اور ان کی شاعری ان کی دلکش شخصیت کی آئینہ دار۔ان کے شعروں میں معنوں کی تہیں کھولنے کیلئے غوروفکر ہی کافی نہیں ،مضبوط علمی اورادبی پس منظر بھی ضروری ہے۔
——
میرزاادیب
——
ہر ملاقات میں ان کی شخصیت کا ایک نیا رُخ میرے سامنے آیا‘ میں اس کثیر الجہت شخصیت کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو قرار دے سکتا ہوں۔ان کی شاعری دلکش بھی ہے اور معانی سے بھرپوربھی۔جدید اور قدیم رجحانات کو انہوں نے یکجاکرکے ایک نیارنگ بخشاہے،جو ان کی پہچان ہے۔
——
ڈاکٹر خواجہ زکریا
——
سیّد فخر الدین بَلّے کی ذات میں جتنا تنوع تھا۔ اسی قدر رنگا رنگی ان کی نظم و نثر میں موجود تھی۔ ان کی گفتگو بھی مطالعہ اور تجربے کا امتزاج ہوتی۔ ان سے ملنے والے ایک خوشگوار شخصیت کا نقش دل پر لئے ہوئے ان سے رخصت ہوتے۔
——
فراق گورکھپوری نےسید فخرالدین بلے کولفظوں کا مصور قراردیتے ہوئے لکھا
Syed Fakhruddin Balley like a painter with palette, he painted with his words.
——
جاوید احمد قریشی ، سابق چیف سیکریٹری پنجاب
——
سَید فخرالدین بَلّے میرے دوست بھی تھے اور رفیق کار بھی۔ہماری رفاقت نصف صدی کاقصہ ہے۔وہ کوئٹہ ،قلات اور خضدار گئے تووہاں بھی ادبی ہنگامہ خیزیاں جاری رکھیں۔سرگودھا،ملتان اور بہاول پورمیں بھی ان کے جنوں نے انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا۔لاہوراورراولپنڈی میں بھی ادبی اورثقافتی ہلچل مچائے رکھی۔تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اس شخصیت میں دست قدرت نے بہت سی شخصیات کو یکجا کررکھاتھا۔۔ادیب،شاعر،دانشور،مقرراورماہرتعلقات عامہ ہی نہیں ،وہ بہت کچھ تھے۔ان میں بلاکی خوداعتمادی تھی۔وسیع العلمی ان کی پہچان تھی۔اورقادرالکلامی ان کاطرہّ امتیاز۔جس رستے پر چلے،اپنی ذہانت اور علمیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔انسانیت ان کے انگ انگ میں بھری ہوئی تھی۔مٹی کاقرض چکانااپنا فرض سمجھتے تھے۔۔ملک پر مارشل لاکے بڑھتے ہوئےسائے دیکھ کران کے اندرکاشاعر کبھی خاموش نہیں رہا۔اپنے کاموں کاکریڈٹ دوسروں کو بلاجھجک دیناان کی عادت تھی۔دوسروں کے نام سے ساری زندگی لکھا،کبھی دفتری مجبوری کے تحت ،کبھی کسی کی فرمائش پر۔صدور،وزرائے اعظم ،گورنروں ،وزرائے اعلیٰ سمیت مقتدرشخصیات کے لئے ہزاروں تقریریں لکھیں،بیسیوں بروشرز،سووینئیرز،کتابیں اور کتابچے شائع کرائے۔بزم آرائیوں کے شوقین تھے۔لاہور میں ادبی تنظیم قافلہ بنارکھی تھی،جس کے تحت بڑی خوبصورت محفلیں سجائیں ۔ راولپنڈی آرٹس کونسل اور ملتا ن آرٹس کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ان دونوں ثقافتی اداروں کونئی زندگی بخشی۔سَید فخرالدین بِلّے سے بڑا ماہر تعلقات عامہ میری نظرسے نہیں گزرا۔۔ہرمشکل وقت میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت سرکاراور وطن عزیزکے کام آئی۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کاچہرہ تھے۔ان کی عظمت یہ بھی ہے کہ اس محکمے میں ان کے ساتھ بہت سی ناانصافیاں بھی ہوئیں مگرانہوں نےاپنے کام سے ہمیشہ انصاف کیا۔کام کو ہمیشہ عبادت سمجھا۔لوگ ساری زندگی دولت سمیٹتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ دنیاسے رخصت ہوتے ہیں لیکن سَید فخرالدین بِلّے نے صرف عزت اور نیک نامی کمائی اوردنیاکوبہت کچھ دے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخرِعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی , سید فخرالدین بَلے علیگ
——
محسن اعظم محسن ملیح آبادی
——
سید فخرالدین بلے کی شاعری کلاسیکل اور جدید کا بہترین مربع التاثیر آمیزہ ہے۔ سب سے بڑی خوبی ان کے کلام کی یہ ہے کہ قنوطیت وجمود سے مبرا ہے۔ وہ امید و رجا کے بیدار دماغ شاعر ہیں۔ ان کا شاعرانہ لہجہ تقلیدی نہیں، خود آفریدہ ہے۔ ان کے اسلوب بیان میں تازہ کاری ہے، شائستگی اور شگفتگی ان کی شاعری کا جوہر ِخاص ہے۔ فصاحت کے ساتھ طلاقتِ لسانی ، شوکتِ خیال اور خوبصورت الفاظ کے دروبست کے وہ ماہر شعری صورت گر ہیں۔ ان کے شعری کینوس پر ان کا فیصلہ کن مشاہدہ پھیلا ہوا ہے۔ ان کے احساسات کا دائرہ اپنے اندر بہت سی جذباتی فکری نفسیاتی بوقلمونیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری ہر اعتبار سے اظہار کے مضبوط ستونوں پر ٹھہری ہوئی ہے۔ انتقادی تناظر میں یہی وہ خوبیاں ہیں، جو کسی شاعر کو منفرد ونادر صورت میں سامنے لاتی ہیں۔ اور اس کو آفاقی ادب میں بلند مقام دینے پر اصرار کرتی ہیں۔ میں نے موصوف کا وہ شعری سرمایہ بالاستیعاب پڑھا ہے، جو مجھے دستیاب ہوا ۔ وہ انتقادی تناظر کے ساتھ میری استحسانی وتاثراتی روشنی میں ایک ماہر شعری صورت گر ٹھہرے ہیں۔ وہ ان شعراءکی صف کے شاعر ہیں ۔جو اپنے کلام کے بل پر زندہ رہنے والے ہیں۔ ان کے کلام کے جسم میں جو حرکت عزیزی موجود ہے، وہ بڑی توانا ہے۔
میں نے مندرجہ بالاسطور میں جو بیان کیا ہے۔ اس کی شہادت ان کے مندرجہ ذیل اشعار خود ہی دینگے۔ شعری ذوق رکھنے والوں میں اعلیٰ سخن فہم، اورسلیم الحواس قاری کو ان کی عظمت شاعرانہ کے اعتراف میں اپنا سر تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا۔ میں فخر الدین بلے کو اپنے انتقادی تناظر میں ایک ہنرمند اور ممتاز شاعر کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ آیئے ان کے شعری صنم خانے میں چند تغزل کے صنم دیکھتے ہیں، جو فکری طورپر کلاسیکل ہیں اوربیان کے لحاظ سے نیم جدید ہیں۔ ان کی رومانی غزلوں کی بنیاد روایت ہی پر قائم ہے اورسچ بات بھی یہی ہے۔ غزل روایت سے ہٹ کر روح غزل سے خالی ہوجاتی ہے۔ وہ غزل کے مزاج شناس تھے۔۔ ان کی رومانی غزلوں کی بنیاد روایت ہی پر قائم ہے اورسچ بات بھی یہی ہے۔ غزل روایت سے ہٹ کر روح غزل سے خالی ہوجاتی ہے۔ وہ غزل کے مزاج شناس تھے۔ جہاں تغزل ہے، اس میں غزل کے تمام ضروری لوازمات ملتے ہیں۔ وہ محاکاتی غزل بھی سلیقے سے کہنے والے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں شائستگی بدرجة اتم موجود ہے۔ وہ پرانی بات کو نیا بناکرپیش کرنے میں ماہر تھے۔ شاعری کا یہی ہنر کسی شاعر کو اعتبار بخشتا ہے۔ اشعارملاحظہ فرمائیے ۔
——
ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھری ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ
——
میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مرا انتخاب کیسا ہے؟
——
منقولہ بالا شعر محاکاتی ہیں اور منظرکشی کی خوبی سے بھی مزین ہیں۔ الفاظ کے ذریعے بکھری ہوئی زلفوں اور انہیں سنوارنے کا خیال کس قدر سادگی سے مصورکردیا ہے۔ بکھری زلفیں ہماری اردو شاعری میں حسین استعارہ ہے۔ اس سے ہم محبوب کی کھلی ہوئی زلفوں کے علاوہ بھی کئی مفہوم لے لیتے ہیں۔ اسی طرح سنورے گیسو بھی بطور استعارہ کئی معنی میں لئے جاتے ہیں ۔دوسرے شعر کا انداز بیان کس قدر شاعرانہ ہے یعنی “میں جانتا ہوں، مگر تو بھی آئینہ لے کر”دونوں مصرعے بے حد پرمعنی ہیں اور پھر یہ کہنا “مجھے بتا ! کہ مرا انتخاب کیسا ہے” شعریت سے بھرا ہواشعر ہے، اور شاعر کے سلیقہ ءبیان کے حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک بات مختلف ڈھنگ سے کہی جا سکتی ہے، مگر وہی طرز ادا استحسانی خوبی رکھتا ہےِ جس میں بیان کرنے کا طریقہ عام روش سے ہٹ کر ہو۔
ایک شعر اورغزل کا دیکھئے، سادہ انداز بیان ہے مگر حسن ادا نے سادہ پن میں بناؤ سمیٹ دیا ہے ۔ شعر کی یہی خوبصورتی اس کے خالق یعنی شاعر کے ہنر شعرگوئی کی واضح شہادت ہے ۔
——
کیا چاہتا تھا اور یہ کیا دے گیا مجھے
قاتل بھی زندگی کی دعا دے گیا مجھے
——
محولہ بالا شعرتغزل سے ہٹ کر دیکھئے اور مفہوم بھی دے رہا ہے۔ شعر ذومعنی ہے۔ قاتل ایک استعارہ ہے مقتول کا لفظ لائے بغیر بھی مقتول کا تصور ذہن پر مرتسم ہوجاتا ہے۔” کیا چاہتا تھا “کا ٹکڑا سب سے زیادہ پرمعنی ہے۔ پھر “زندگی کی دعا دے گیا “غضب کا جملہ ہے۔ کہنے کو شعرسادہ معلوم ہو رہا ہے مگرسادگی، رنگینیء بیان کے ساتھ علو ے فکرکا تصور بھی دے رہی ہے ۔ان کی شاعرانہ خوبی سے متاثر ہوکر ہی مشہورشاعر جگن ناتھ آزاد نے کہاتھا سید فخرالدین کی خوبصورت شعری تخلیقات پڑھنے یا سنننے کے بعد برسوں تک ان کے سحرسے آزاد ہونا مشکل ہے۔
{یہ اقتباس محسن اعظم محسن ملیح آبادی کے ایک طویل مقالے سے ماخوذ ہے،جس کی اشاعت کیلئے ایک پوری کتاب درکارہے}
——
جگن ناتھ آزاد ،بھارت
——
سید فخرالدین بلے کی تخلیقات سننے یا پڑھنےکےبعدبرسوں ان کے سحرسےآزاد ہونا مشکل ہے
Jagan Nath Azaad used to say that after reading literary work of Syed fakhruddin Balley it was difficult to get out of his spell for days and months.
——
منصورعاقل ، مدیراعلیٰ الاقرباء ، اسلام آباد
——
بہاولپور میں پچاس کی دہائی کے نصف اول کو بلے صاحب کی شاعری کے حوالے سے طلوع آفتاب کا ہنگام کہا جاسکتا ہے اور ان کی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں قیام ملتان کو”دلیل آفتاب”۔ بعد کے اس دور میں ان کے فکر وفن نقطئہ عروج کو چھوتے نظر آتے ہیں، جس کی بشارت ان کے ایک معاصر نقاد ماجد قریشی نے اپنی کتاب’دبستان بہاولپور‘ میں ساٹھ کی دہائی میں درج ذیل جملے میں لکھ کر دے دی تھی۔
“اس کے جسم میں ایک ایسی نامعلوم آگ سلگ رہی ہے، جس میں سے کبھی دھواں اٹھتا ہے ،اورکبھی شعلے لو دینے لگتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بلے میں کوئی دوسرا شخص بھی چھپا بیٹھا ہے۔
چنانچہ جب سید فخرالدین بلے صوفیا واولیا کی سرزمین ملتان پہنچے تو وہ سلگتی آگ بھی شعلئہ جوالہ بن گئی اور وہ “دوسراشخص” بھی ظاہر ہوگیا جو ، چھپا بیٹھا تھا۔
——
یوں لگی مجُھ کوخنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم پیدائش
——
پروفیسرمنظرایوبی
——
دیکھئے ، اس شخص میں کتنے جہاں آباد ہیں۔ سید فخر الدین بَلّے کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی خانوادے سے تھا ۔جس کی فضیلت گذشتہ کئی نسلوں سے مثالی حیثیت کی حامل تھی۔ ذہن کی ابتدائی نشوونما میں گھر کے تربیتی ماحول اور ترکِ وطن کے بعد پنجاب کی خوشگوار ادبی فضاءنے ان کی شخصیت سازی میں بہت اہم رول ادا کیا۔ ویسے اللہ تعالیٰ نے انہیں جو قابلیت ‘ لیاقت‘ سوجھ بوجھ اور استعداد عطا کیں۔ بلے صاحب نے ان سے بطریقِ احسن کام لینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ تنہا اپنی ذات سے ایسے ایسے کمالات ہنر دکھلائے اور معجزاتی امور سر انجام دیئے کہ دنیائے ادب میں انہیں ایک ادارے‘ ایک انسٹی ٹیوشن کے معتبر حوالے کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔منظرایوبی لکھتے ہیں بلے صاحب ادیب‘ شاعر‘ صحافی‘ تجزیہ نگار‘ محقق‘ تخلیق کار ہی نہیں تھے بلکہ دینی عالم‘ دانشور اور بہ اعتبارِ مشرب تصوف کے علمبردار بھی تھے۔ سائنس کے گریجویٹ ہونے کے باوجود انہوں نے سائنسدان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے بجائے ذرائعِ ابلاغ کے سرکاری محکموں میں ملازمت اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ گویا تعلقاتِ عامہ اور محکمہ اطلاعات کو روزی کا ذریعہ بنایا۔ عمر بھر متعلقہ ادارات اور دیگر عوامی فلاحی دفاتر سے منسلک رہے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر مہارتِ کاملہ کا لوہا منوایا۔نظم نگاری کے تعلق سے سیّد فخر الدین بلے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ۔جس کا ابتک کھل کر اس لئے اظہار نہ ہو سکا کہ ہم بھی ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول بلے صاحب کی غزلوں کے سحر سے باہر نہیں نکلے۔ لیکن اس حوالے سے صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ بلے صاحب کو نظم و غزل دونوں اصناف پرقدرت کاملہ حاصل ہے۔ میں اپنے عمیق مطالعہ کی بنیاد پر بلے صاحب کو جملہ اصنافِ سخن کا تخلیق کار سمجھتا ہوں۔ مختلف موضوعات پر مبنی جتنی نظمیں میری آگاہی کا حصہ بنی ہیں، تمام کی تمام نظم نگاری کی تکنیک اور جدید فنی تقاضوں پر پوری اترتی ہیں۔ ان کی چند نظمیں بالکل تازہ اور انوکھے موضوعات کے ساتھ ساتھ ”ہئیت“ کے جدید تجربوں کی آئینہ دار بھی ہیں۔شاعر کا ہر خیال‘ تصور‘ جذبہ یا احساس اپنے ساتھ اظہار کا طریقہ یا پیرایہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔ بلے صاحب کی ہر نظم کی ہئیت یا خارجی شکل موضوع کی مناسبت سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ بلے صاحب کی نظموں کے موضوعات میں رنگا رنگی ‘ ہمہ گیری یا بوتلمونی کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اوصاف یا محاسن تو خود ان کی پر شکوہ ترنم ‘ ڈکشن‘ لہجہ کی مٹھاس‘ مصرعوں کی کاٹ‘ روانی ءطبع‘ مقصدیت اور تخلیقیت کے جواب سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی ان گنت جہتیں‘ زمانے کی تیز رفتاری‘ بدلتی دنیا کا اہم رخ‘ ان کی طویل نظموں اور مختصر نظموں میں اپنی اپنی بہار دکھاتا محسوس ہوتا ہے۔ فرش تا عرش اور شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے دامنِ قلب و نظر کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے قدرتی مناظر کی تصویر کشی بلے کی نظموں کا خاصہ ہے۔ بلے صاحب کےحوالےسے مستند قلمکاروں کی بے شمار آراء میری نظر سے گزری ہیں ۔لیکن مقالہ ہذا میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں۔ البتہ بعض ناقدینِ ادب کے گراں قدر اظہاریوں اور اپنے مطالعہ کی روشنی میں ہم بڑی حد تک بلے صاحب کے قدو قامت کا تعین کر سکتے ہیں۔ میری نظر میں ان کی ذات ایک ایسے باغ کی مانند ہے، جس میں انواع و اقسام کے گل بوٹے‘ طرح طرح کے پودے‘ سبزے کی روشیں‘ رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں اپنی اپنی بہار دکھا رہی ہیں۔ فضائیں مختلف رنگوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ہوائیں خوشبوؤں میں گندھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔گویا بلے صاحب کی زندگی کاہرگوشہ سیاح انِادیہ کےدل ودماغ کو معطرکرتا ‘آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا اورذہنوں کوجلاعطا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ان کی پوری شاعری کوخواہ لب و لہجہ ‘ اسلوب اور زبان و بیان کے اعتبار سے پرکھیں یا موضوعاتِ شعری کی میزان میں تولیں، ہر لحاظ سے ان کے یہاں دریاؤں کی روانی‘ہواؤں کا شور‘تپتے ریگزاروں کی حدت‘ سمندروں کےسکوت کےساتھ حسن وجمال کی شگفتگی اورعشق ومحبت کی رعنائی‘روح کوچھوتی اور دلوں کو موہ لیتی محسوس ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ سیّد فخر الدین بلے صرف حیات و کائنات کے ترجمان ہی نہیں، اپنے عہد کی ایک پوری تہذیب‘ تمدن‘ سماج اور معاشرت کی منہ بولتی تصویرنظر آتے ہیں۔ بے شک کسی بھی عہد کا مورخ ان کی پہلودار شخصیت اور ان کے ادبی و شعری کارناموں کا ذکر کئے بغیر ادبی تاریخ مکمل نہیں کر سکتا۔
——
ڈاکٹر امام اعظم ، بھارت
——
سید فخر الدین بلّےادب و ثقافت کا قطب مینار ہیں ۔ ہاپوڑ دو چیزوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے؛ ایک پاپڑ اور دوسرے بابائے اردو مولوی عبدالحق لیکن بلّے صاحب کے لازوال کارناموں نے بھی ہاپوڑ کے دامنِ شہرت میں ایک تیسرا ستارہ ٹانک دیا۔موصوف کا تعلق خانوادہ صوفیا سے تصوف سے ہے ۔ اس لئے تصوف کا درک موروثی تھا۔ ان کا خانوادہ سرسید تحریک اور پھر آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش رہا۔ لہٰذا انہیں بچپن سے زعمائے ملت و قوم اور ادباؤ شعراءمثلاً مولانا ابولاکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا حسرت موہانی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر رشید احمد صدیقی، جگر مرادآبادی، تلوک چند محروم، علامہ نیاز فتح پوری، علامہ سیماب اکبرآبادی، سر شاہ نواز بھٹو ، مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور و قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سائنس کے طالب علم ہونے کے باوجود ان کے مطالعے کا دائرہ علم و ادب و فنون لطیفہ کے متعدد شعبوں میں محیط تھا اور ان کے تفنن طبع نے بھی شوقِ مطالعہ کو تنوع بخشا۔بیت بازی کے چسکے نے شعری شعور پیدا کیا تو 1944ءسے شاعری شروع کردی۔ شعری مقابلوں اور مشاعرہ میں پُرجوش شرکت کی مشق میں تخلیقی جوہر کھلے تو مروجہ تمام شعری اصناف پر مشقِ سخن کیا اور خوب کیا۔ ریاضت نے فنی ترفع عطا کیا تو سات سو سال بعد امیر خسروؒ کی مروجہ دو صنف”قول” اور “رنگ” کی تجدید کی اور عصری شاعری کو “نیاقول” اور “نیارنگ” دیا۔ صوفیانہ قوالی میں “قول ترانے”سے قوالی کا آغاز ہوتا ہے اور “رنگ” پر اختتام ہوتا ہے۔ بلّے صاحب اپنے عہد کے خاصے پرگو شاعر تھے۔ صوفیت کے خمیر نے ان سے خاصی قوالیاں ، قطعات، حمد، نعت اور مناقب بھی لکھوائیں۔ ان کے علاوہ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے “سوچ سفر”۔ اس مجموعہ میں خوشگوار،پرزور اور پردرد نظمیں ہیں۔ کلاسیکی اور نئے آہنگ و رنگ کی نظمیں ہیں تو آزاد نظمیں اور ہائیکو بھی ہیں۔ انہوںنے شاہکار نظمیں بھی دی ہیں ۔ان کی غزلوں میں عشق مجازی، عشق حقیقی ،ناز وغمزے، مسائل تصوف، مسائل روزگار، کشمکش حیات کی ترنگیں، عصری حسّیت کی لہریں، بدلتے اقدار اور تہذیبی تصادم کے عکس قدیم و جدید دونوں رنگوں میں جلوہ گر ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم وفات
——
انتظار حسین
——
جن کے اندر کوئی لگن ہوتی ہے، ان میں ایک یہ صفت بھی ہوتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں انہیں وہ اس طرح برتتے ہیں کہ ان کی لگن کی تسکین کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بلے صاحب میں یہ صفت بہرحال تھی۔ انہوں نے کس طرح ملازمت کی کہ ملازمت والے فرائض بھی پورے کئے اور جس کام کی انہیں چیٹک لگی ہوئی تھی، اسے بھی ملازمت کے ذریعہ پروان چڑھانے کا کام لیا۔ پھر ساتھ میں شاعری بھی کی، جتنی شاعری کی، اس کے ساتھ انصاف کیا۔ اس پر ان کا علمی کام مستزاد۔ اس ملک کو سب سے بڑھ کر ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے ،جو اپنے آپ کو کسی بھلے کام کے لئے وقف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں مگر پاکستان میں اس نام کی مخلوق عنقا ہے۔ بلے صاحب نے اس ملک کے تہذیبی فروغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا ،اپنی حد تک انہوں نے یہ کام جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا۔ ان کے اس جذبے اور اس کام کی ہمیں قدر کرنی چاہئے
——
ڈاکٹر اجمل نیازی
——
بڑا آدمی وہ ہوتا ہے ، جسے اس کے اپنے عہد کے لوگ بڑا مان لیں ۔ سید فخرالدین بلے اس اعتبارسے بھی ایک بڑے آدمی تھے۔اس لئے کہ انہیں ان کے عہد کی بڑے بڑے ہستیوں نے بڑا مانا اور بڑاجانا۔ ان کی بیٹھک میں دنیائے ادب و ثقافت کے بڑے بڑے لوگوں کو میں نے گھنٹوں بیٹھے اور اپنی گفتگو سے علم وعرفان کے دئیےروشن کرتے دیکھا۔اشفاق احمد بھی علم تصوف کےحوالے سے انہیں اتھارٹی کہتےتھے۔بانو آپا انہیں اپنی ذات میں ایک ادارہ ، ایک انجمن اور ایک قافلہ سمجھتی تھیں۔ ڈاکٹڑوزیرآغا ان کی خوبصورت شاعری کے گُن گاتے نظرآتے تھے۔ بلاشبہ سید فخرالدین بلے سراپا محبت و ایثار تھے۔ان کی شاعری میں جدید اور کلاسیکی رنگوں کا خوبصورت امتزاج سننے والوں کو بے ساختہ داد دینے پرمجبور کردیا کرتا تھا۔ وہ کیا گئے، ادبی محفلیں ہی اجڑ گئیں لیکن ان کی یادوں کے قافلے اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہیں ۔
——
خواجہ نصیرالدین نصیرآف گولڑہ شریف
——
سبحان اللہ ! سبحان اللہ۔ بَلّے بَلّے ۔ سیّد فخر الدین بَلّے کا یہ ”قول ترانہ“ موجب ِ تحسین و آفرین اور لائق ِصد ستائش تاریخی کارنامہ ہے اور سات صدیوں کے بعد دوسری بارقول کی نئی تصریحی تہذیب کا اعزاز ملتان کا مقدر بنا ہے۔
پریشان خٹک
سیّد فخر الدین بَلّے ادب کی دیو قامت شخصیت ہیں۔انہوں نے ادب اور فنون کی دنیا میں جو کام کئے‘ وہ بہت سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر بھاری ہیں۔ان کی شاعری بھی ہمیں امن اور محبت کاپیغام دیتی ہےاور ان کے اشعار دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔
——
استاد سبط ِ جعفر زیدی
——
فخرالدین بلے کواتنا جانتا ہوں میں
حُب ِاہل ِبیت کےآداب کامکتب ہیں وہ
——
ڈاکٹرسید حامد , سابق وی سی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
——
شاعر،ادیب، اسکالر،دانشور،اور محقق، یہ ہیں سیّد فخر الدین بَلّے علیگ۔بھارت کے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو ان کاقدردان پایا۔شکیل بدایونی انہیں فلمی گیت نگاری کی طرف لانا چاہتے تھے۔گوپی چند نارنگ اور ڈاکٹرجگن ناتھ آزاد سے بھی ان کی بہت سی باتیں سنتارہاہوں ۔پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی انہیں بڑی قدرو منزلت حاصل ہے۔سیّد فخر الدین بَلّے نے اپنے دل اوردماغ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کوبسا رکھا ہے ۔زبان کھولیں تو پاکستان کی محبت ان کے لب و لہجے میں بولتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ادبی تنظیم قافلہ کے بانی بھی ہیں اور اس قافلے کے ساتھ مجھے بھی پڑاؤ ڈالنے کا اعزازحاصل ہواہے۔مجھے سیّد فخرالدین بَلّے کی محبتیں یاد رہیں گی اور قافلے کی یادوں کا قافلہ میرے ساتھ بھارت جائے گا۔
——
سید اظہرامام زیدی، سابق ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ پنجاب
——
سید فخرالدین بلے کے کلام اور کام کا ایک زمانہ مداح ہے اور رہا ہے۔ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت وزیرخارجہ پاکستان سردار سورن سنگھ سابق وزیرخارجہ بھارت سے کشمیر پر مذاکرات کیلئے نئی دہلی گئے۔ اور انہوں نےسیدفخرالدین بلے کوبھی اپنے وفد میں شامل کرلیا۔ اسی دورےکے دوران ایک دن پاکستان کے ہائی کمشنر برائے بھارت آغا ہلالی بھٹو صاحب سے ملاقات کے لئے آئےتو اس وقت فخرالدین بلے بھی اس کمرے میں موجود تھے۔ دوران گفتگو آغا ہلالی نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ اگلے روز بھارت کے ایک قومی سطح کے روزنامے میں ان کے خلاف ایک نہایت زہریلا مضمون شائع ہو رہا ہے۔ یہ سن کر فخرالدین بلے صاحب چپکے سے کمرے سے باہر آگئے اور تقریبا دو گھنٹے بعد واپس پہنچ کر بھٹو صاحب کو مذکورہ مضمون کا مسودہ پیش کر دیا ۔جسے دیکھ کر بھٹو صاحب حیران رہ گئے اور تعجب سے بلے صاحب سے دریافت کیا کہ کیا اب یہ مضمون اخبار میں شائع نہیں ہوگا ۔بلے صاحب نے کہا کہ اس کی اشاعت اب کیسے ممکن ہے؟۔ کیونکہ مضمون کا اصل مسودہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے (یاد رہے کہ اس وقت تک فوٹوسٹیٹ مشین دریافت نہیں ہوئی تھی ) وطن واپس پہنچ کر ذوالفقار علی بھٹو نے بلے صاحب کی اس حیران کن اور فقیدالمثال کارکردگی سے متاثر ہو کر ان کی رپورٹ میں یہ درج ذیل ریمارکس لکھے ۔
The performance of Mr Fakhruddin Balley at New Delhi was Excellently Excellent
ایک غیر ملک میں ایسا محیر العقول کارنامہ سرانجام دینا یقیناً تعلقات عامہ کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا ۔بلے صاحب واقعی ہراعتبارسے ایک بڑے آدمی تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں :  چراغ ِ عشق جلا ہے ہمارے سینے میں
——
اصغرندیم سید
——
سید فخر الدین بلّے سے میری ملاقات اس زمانے میں ہوئی،جب وہ محکمہ اطلاعات کے افسر اعلیٰ بن کر ملتان میں تعینات ہوئے۔ میں کالج کا طالب علم تھا، میرے ساتھ کالج کے وہ دوست جو علم و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے اور شاعری، افسانہ نگاری اور کالم نگاری میں کچھ نام بنانا چاہتے تھے۔ہم اکثر ان کے دفتر حاضری دیا کرتے تھے۔حسن پروانہ روڈ پر ان کا دفتر ہوتا تھا۔ اسی سڑک پر روزنامہ ”امروز“ کا دفتر بھی تھا،جواس علاقے کا سب سے مقبول واحد اخبار تھا اور ترقی پسند نظریات کا حامل تھا۔اس اخبار کے ایڈیٹر مسعود اشعر تھے،جو اردو کے صف اول کے جدید افسانہ نگار ہیں۔ وہاں اکثر پروفیسرعرش صدیقی، پروفیسر نذیر احمد،پروفیسر فرخ درانی اور سید فخر الدین بلّے صاحب بھی آیاکرتےتھے۔اکثر ان صاحبان کی موجودگی میں ادبی نشست بن جاتی تھی۔ ہم ان کی باتیں سن کر اپنے ذوق کی تربیت کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ یہ سب ادیب اور شاعر کلاسیکی ادب کا گہرا شعور اور ذوق رکھتے تھے۔ ان سب میں سید فخر الدین بلّے صاحب کی شخصیت من موہنی تھی، چونکہ وہ ہمارے استاد نہیں تھے۔ اس لئے ہمیں ان سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ وہ دوستانہ انداز سے ہمیں اکثر اپنے دفتر لے جاتے تھے۔ ان کے دفتر کا ماحول عام سرکاری دفاتر سے قطعاً مختلف ہوتا تھا۔ وہ لگتا تھا ان کی لائبریری یا ان کے لکھنے کا کمرہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں بے شمار کتابیں اور لکھنے پڑھنے کا پورا ماحول ہوا کرتا تھا۔بلے صاحب کھانے پینے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ بے حد وسیع دل و دماغ کے مالک تھے اور ان کا دستر خوان ان کی آخری سانس تک بے حد وسیع رہا۔ دوستدار انسان تھے اور ہر طبقہ کے افراد سے ان کا گہرا تعلق تھا ۔ سیاست، تجارت، ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبوں کے افراد ان کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ان سب سے مروت و اپنائیت سے ملا کرتے تھے۔چونکہ میرا گھر ان کے دفتر سے زیادہ دور نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں اپنی سائیکل پر پہنچ جاتا تھا۔ وہ سرکاری کام بھی ساتھ ساتھ نمٹاتے جاتے تھے اور نوجوانوں کی تربیت ایک غیر محسوس طریقے سے کئے جاتے تھے۔ کبھی اپنے مطالعے کے حاصل سے ہماری رہنمائی کرتے تھے، کبھی اپنے ہم عصروں کی لکھی چیزوں پر رائے دیتے تھے۔ اس طرح وہ اپنے مطالعے میں ہمیں شامل کر لیتے تھے۔ جو کچھ ہم کالج میں نہیں سیکھ سکتے تھے، وہ سید فخر الدین بلے غیر رسمی طریقے سےسمجھا دیتے تھے۔ سید فخر الدین بلّے بے حد خوش لباس اور جاذب ِنظر شخصیت کے مالک تھے ، اوپر سے اللہ نے انہیں گداز سے بھری آواز عطا کی تھی۔ وہ بولتے تو لگتا کوئی محبت سے تھپکیاں دے رہا ہے۔ ان کے کام کا دائرہ بے حد وسیع ہے ۔مولاعلیؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم ،تفکر اور فلسفے کو سمجھنے کی انہوں نے بھر پور سعی کی۔ اگرچہ مولاعلی کرم اللہ وجہہ کے علم اور فکر کو سمجھنے کے لئے صدیوں کی ریاضت کم ٹھہرتی ہے۔ میں نے اور میرے دوستوں نے فخر الدین بلے کی صحبت میں ان تمام نشانیوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس لئے مجھے بہت روحانی سرور ملتا تھا۔
——
بلے بلے سبھی کی زبانوں پہ ہے، ڈاکٹر مقصود زاہدی
——
ملتان میں پچیس روزہ جشن ِتمثیل کااہتمام کرنے پر ایک شام سید فخرالدین بلے کے نام کردی گئی۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی نے جو مضمون پڑھا ،اس کاعنوان تھا، سید فخرالدین بلے۔محسن فن، آبروئے شعرو سخن۔اپنے مضمون کی تان انہوں نے اپنے ہی اس قطعے پر توڑی۔
——
فخرِ شعر و ادب، آبروئے سخن
محسنِ فن سمجھتے ہیں ارباب ِفن
بلے بلے سبھی کی زبانوں پہ ہے
ذات میں آ پ ہیں اپنی اِک انجمن
——
{اس محفل میں سید فخرالدین بلےکو مین آف دی اسٹیج اور محسن فن کا خطاب بھی دیا گیا تھا}۔۔
——
جلیل عالی ، اسلام آباد
——
ان کا کچھ منتخب کلام نظر سے گزرا تو مجموعی طور پر یہ تاثر بنا کہ اردو کی کلاسیکی شاعری پر ان کی گہری نظر ہے اور ان کے ہاں اپنی شعری روایت کا تخلیقی شعور نمایاں ہے۔ زیادہ مناسب الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی غزلوں میں روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج موجود ہے جو کہ گل و بلبل اور سطحی رومانویت کی بجائے سنجیدہ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان کے اشعار انسان ، زندگی اور کائنات کے بارے میں ان کے گہرے مشاہدے اور مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔
ان کے ہاں اس حقیقت کی نشاندہی بھی موجود ہے کہ بعض اوقات زندگی اور کائنات کے بارے میں مختلف فلسفے اور تصورات انسانی ذہن کو منتشر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ انسان متبائن و متضاد نظریات کی بھیڑ میں ذہنی کشمکش کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے کہ ان میں سے کس کو درست تسلیم کرے اور کس کو غلط گردانے۔ اس حوالے سے ان کا ایک شعر دیکھئے۔
——
ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک سوچ کو رستہ دکھائی دے
——
تاہم انہیں اس بات کا احساس ہے کہ انسانی وجود اور انسانی زندگی کی وسعتوں، گہرائیوں اور لطافتوں کا کسی عقیدے ، فلسفے اور نظریئے کی حدود میں سمانا محال ہے۔ یہ تنوعات، تضادات اور پیراڈاکسس کا ایسا سلسلہ ہے کہ عقلی پیمانوں کی محدودیت اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں
——
رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل
جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا
——
روایت کے گہرے شعور اور تخلیقی اُپج کے کامیاب امتزاج نے بَلّے صاحب کو بعض ایسے اشعار عطا کئے ہیں کہ جو نہ صرف ان کے تخلیقی جوہر کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں بلکہ حسن ِاظہار کے دلکش نمونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
——
رُتوں کی ریت یہی ہے ،یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
——
اب تو مرنا بھی ہو گیا مشکل
آپ کیوں آ گئے عیادت کو
——
اپنی کتاب ِزیست پہ تنقید کے لئے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاﺅں گا
——
یہ بھی پڑھیں : جلوۂ ماہ ِ نو ؟ نہیں ؟ سبزہ و گل ؟ نہیں نہیں
——
ڈاکٹر وفا یزدان منش، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف تہران
——
سید فخرالدین بلے کا مطالعہ مختلف میدانوں میں ہے ،جیسے علم نفسیات، علم الفلکیات، علم الاعداد ۔علم البشریات، علم المعدنیات وغیرہ وغیرہ اور ان تمام علوم و فنون کی چھاپ ان کے فن پاروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی نظمیں اور غزلیات جدت پسندی کی مظہرہیں اور ایک الگ راستے میں ان کا شعری سفر نظرآتاہے ،جسے انہوں نے خود اپنے لیے تراشا ہے ۔اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ آپ انہیں صاحبِ طرز شاعر قراردےسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہےکہ انہوں نے غزل کو وطن دوستی اور جمالیات سے ہم کنار کردیاہے۔ وہ عالمی واقعات سے بھی متاثر ہوکراپنے تاثرات کا شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے عہد کے بڑےبڑے لوگوں نے بھی ان کی ادبی عظمت کوتسلیم کیا ہے ۔بلے صاحب کو فارسی زبان پر اتنا عبور تھا کہ اس زبان میں روانی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ فارسی صرف ان کی زبان میں نہیں ،ان کی شاعری میں بھی روانی سے جاری ہے۔ و ہ انوکھی فارسی تراکیب و الفاظ جیسے رعنائی و شوخی ءگل ِتر، دامن برگ ،زندہ داران شب، کو برتتے ہوئے اردو شاعری کو موسیقی اور بحر سے جوڑدیتے ہیں۔ ان کی شاعری پر فارسی کے اثرات کا جائزہ بھی اہم نتائج مرتب کرسکتا ہے۔ سید فخرالدین بلےکی نعتیں،منقبت علی ،سلام بحضور امام عالی مقام کےساتھ ساتھ ان کی کچھ شاہکار نظمیں اور غزلیں بھی میری نظر سےگزری ہیں ، جواس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اوراپنے عہد کے استادان ِفن و سخن سے دادو تحسین ہی نہیں سمیٹی ، بلکہ اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہابھی منوایا ہے ۔
[ ڈاکٹروفا یزدان منش کی مندرجہ بالارائے خوبصورت تالیف “سید فخرالدین بلے ۔ ایک آدرش ۔ایک انجمن” کےمقدمے سےماخوذ ہے]
——
آل احمد سرور
——
سَیّد فخرالدین بَلّے نے ادب ،تصوف اورتاریخ کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔جس نے انہیں حقیقت کاعرفان بخشا اوربصیرت عطا کی ہے، جس کی جھلک ان کی غزلوں، نظموں اور نثرپاروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
انہوں نے دانشوری اور پُرسوزعقلیت کی جوشمعیں جلائیں،ان کی روشنی سرحدپاربھی پہنچی ہے۔
میری نظرسے ان کاجوکلام گزراہے،وہ بلندپایہ بھی ہے اورگراں مایہ بھی۔
——
سید تابش الوری
——
تعلیم و تربیت ، تہذیب و تمدن ، علم و فن ، تجربہ و مشاہدہ ،ذہانت و مہارت اور ریاضت نے سید فخرالدین بلے کے صفاتی خد وخال اور زندگی کے احوال کوایسے دھنک رنگ سانچے میں ڈھالاتھا ،جس کی تصویر سب کی جیسی بھی تھی اور سب سے الگبھی ۔۔ خوش اندامی،خوش اخلاقی ،خوش لباسی ،خوش دلی اور خوش فکری کاوہ ایک دلکش پیکر تھے ۔سراپا خود دار۔سراپا انکسار۔جرات و جسارت کے کوہسار ۔فراست و فطانت کی آبشار، رکیں تو لالہ زار اور چلیں تو باد ِ بہار۔میرے نزدیک بَلّے صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے مگر ان کی بیشتر تخلیقی توانائی تعلقاتِ عامہ اور ابلاغیات نے لوٹ لی۔ اس کے باوجود انہوں نے ایک قادرالکلام شاعر کے طور پرخود کومنوایا۔ ان کی شاعری روایت اور جدت کا دلکش اتّصال تھی۔ انہوں نے زندگی کو جس جس زاوئیے اور جہت سے دیکھا اور تہذیب و ثقافت اور معاشرت و انسانیت کاجو گہرا مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربہ کیا،اسے اپنی شاعری کے پیکر میں ڈھال دیا۔کہیں کہیں ان کے اشعار مشکل اور دقیق محسوس ہوتے ہیں ،اس کی وجہ ان کاعلم و فن اور تحقیق و تدقیق ہے،جس سے وہ اپنی نثرکے ساتھ اپنی شاعری کو بھی ثمرمند کرناچاہتے تھے۔ایک چیز جوان کی شعری تخلیق کوندرت اور انفرادیت عطا کرتی ہے،وہ ان کاعارفانہ اور متصوفانہ رنگ ہے، جوکہیں ظاہر اور کہیں بین السطور اپنی چھب دکھلاتا ہے ۔پھران کے ہاں رومانویت روایتی دل کشی کے ساتھ روحانی تجلی کاایک عجیب جگمگا رکھتی ہے، جو لطف بھی دیتی ہے اور سکون و طمانیت بھی۔
ان کی ابلاغی شخصیت کاتفصیلی مطالعہ تو نظر آتاہے لیکن ان کی شعری شخصیت کاتفصیلی مطالعہ ہم پرواجب ہے۔شاید ابھی ان کا پورا کلام بھی دستیاب نہیں ہوسکا ،تاہم ریزہ ریزہ جو کچھ جمع کیا جاسکا ،اس سے ان کے کمال ِ فن کی جہتوں ،زاویوں،وسعتوں اور جدتوں کا بآسانی اندازہ ہوسکتاہے۔حاصل ِ مطالعہ کے طور پر ان کے چند اشعار یہاں پیش کر رہاہوں ،جو ان کے شاعرانہ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں۔
——
خلا کی تسخیر ہو رہی ہے
زمیں پہ انسان مر رہا ہے
——
وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے
خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا
——
ازل سے عالم موجود تک سفر کرکے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
——
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
——
ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر
انساں خلا میں پہنچا تو پاسنگ رہ گیا
——
میں نے گردوں پہ خون دیکھا ہے
لوگ کہتے ہیں پو پھٹی چپ چاپ
——
میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئینہ لے کر
مجھے بتا کہ مِرا انتخاب کیسا ہے
——
کھڑا ہوں جادہ ء حیرت پہ آج بھی تنہا
کبھی تو کوئی مسافر اِدھر سے گزرے گا
——
ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
——
{مندرجہ بالا اقتباس سید تابش الوری کی خوبصورت تالیف سید فخرالدین بلے۔ ایک داستان ۔ایک دبستان کےمقدمے سے ماخوذ ہے}
——
جناب نور احمد میرٹھی ، مصنف تذکرہ شعرائے میرٹھ ”
——
سید فخرالدین بلے کو عمر کے ابتدائی اور تعلیمی ادوار میں انہیں مولانا ابوالکلام آزاد‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ مولانا حسرت موہانی‘ مولوی عبدالحق‘ رشید احمد صدیقی ‘ جگر مراد آبادی ‘ تلوک چند محروم‘ علامہ نیاز فتحپوری‘ سیماب اکبر آبادی‘ سر شاہنواز بھٹو اور مولانا عبدالسلام نیازی جیسے اکابرین کی محبتیں حاصل رہیں۔ ہم عصر صاحبانِ علم میں احمد ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو،فیض احمد فیض‘ میرزا دیب، ڈاکٹر سیّد عبداللہ، احسان دانش، قدرت اللہ شہاب، صہبا لکھنوی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ جگن ناتھ آزاد‘ عطاءالحق قاسمی‘ صادقین‘ حفیظ جالندھری اور مشکور حسین یاد وغیرہ سے خصوصی مراسم رہے ہیں۔سید فخرالدین بلےکی تہذیبی شخصیت مسلم یونیورسٹی میں پروان چڑھی ۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ عظمت کالوہا اپنے دورطالب علمی ہی میں منوالیاتھا ۔شاعری کی جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی،اس میں اپنا منفررنگ دکھایا اورہجرت کرکے پاکستان آنے کےبعد بھی اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اوربہت سی شاہکار غزلیں اور نظمیں تخلیق کرکے ارباب نقد و نظر سے خوب داد سمیٹی۔
——
دیباچہ : آسمانوں کا سفر
(دیباچہ نگار:فیصل عظیم)
——
از افق تا بہ افق سلسلہء کاہکشاں
میرے قدموں کے نشاں ہیں کہ تری راہگزر
——
یہ بھی پڑھیں :  خوشبوئے گُل نظر پڑے ، رقص ِ صبا دکھائی دے
——
اگر اس شعر کو سید فخرالدین بلّے صاحب کا نمائندہ شعر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہاں حیرت اور سوال کے ساتھ ساتھ خودکلامی کا سا انداز بھی ہے اور کہکشاں میں رہگزر اور نقشِ قدم کی تشبیہات سے جو معنویت پیدا کی گئی ہے، وہ صاحبِ شعر کی ندرتِ خیال، منظرنگاری اور فکری اُپچ کا بھرپور اظہار ہے۔ بات قدموں کے نشان اور راہگزر کی ہورہی ہے تو چلیے اسی راستے پر آگے بڑھتے ہیں! فنونِ لطیفہ کی طرح فکر و دانش، خیال اور احساس میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ اس زندہ کائنات کی طرح یہ عناصر بھی متحرک ہیں اور مستقل سفر میں ہیں۔ اب احساس کیسے سفر کرتا ہے؟ تو اس کا ایک جواب تو ہوگا، درد اور محبت کی صورت میں۔ درد چاہے دردِ مشترک ہو یا ذاتی ہو، یہ نئے قالب میں ڈھلتا اور نئے نئے رنگ دکھاتا رہتا ہے۔ اسی طرح محبت، جو احساس بھی ہے اور جذبہ بھی، ایک مستقل سفر ہے جو شاید ابد تک جاری رہے۔ یہ احساسات اور جذبات، سائنسی ترقی کی طرح انسانوں کا مشترکہ ترکہ اور اثاثہ ہیں۔ مگر ان جدلیات میں انسان کی حیثیت بڑی دلچسپ اور پیچیدہ ہے، جو مسافر بھی ہے اور سفر بھی۔ وہ قافلہ در قافلہ احساسات اور کمالات کی پونجی لیے، ان دیکھے راستوں پر رواں دواں رہتا ہے۔ انسانوں کے یہ قافلے جگہ جگہ پڑاؤ ڈالتے ہیں اور ہر پڑاؤ پہ اپنا کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ جاتے ہیں مگر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ جیسے خانہ بدوش کہیں سلگتی لکڑیاں، کہیں بجھے کوئلوں کی راکھ، کہیں خیمے گاڑنے کے نشان، کہیں کچھ اسباب، خوش نما تصویریں، آواز کا سحر، جسموں اور پیراہنوں کے رنگ اور خوشبو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہوں۔ یہ قافلے متوازی بھی چلتے ہیں اور ایک دوسرے کے راستے میں بھی آتے ہیں اور یوں اس مستقل سفر میں کئی قافلوں کے مسافر آپس میں ملتے ہیں بلکہ بعض اوقات کسی نئے پڑاؤ اور کسی نئے راستے پر بار بار ملتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی مشعلیں نئے ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں اور پرانے چہرے نئے چہروں میں جھلکنے لگتے ہیں۔ قافلے اور پڑاؤ کا سید فخرالدین بلّے سے گہرا تعلق ہے۔ یہ دراصل ان کی ادبی سرگرمیوں کا وہ عنوان تھا جس کے تحت بلّے صاحب نے محبانِ ادب کے ساتھ بہت سفر کیا اور بہت پڑااؤ ڈالے۔ مگر اُن کا یہ سفر ہمیں ایک ایسے اہم ادبی قافلے کا پتہ دیتا ہے ،جس کے سالار سید فخرالدین بلّے صاحب جیسے والد ہیں اور اس کی سب سے روشن مشعل آنس معین جیسے فرزند اور شاعر کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ وہ مشعل ہے جو راستے میں کسی مقام پر ایستادہ ہوئی اور وہیں کی ہو رہی مگر اس کی روشنی آج بھی مسافروں کو راستہ دکھا رہی ہے۔ اسی قافلے کی ایک اور مشعل ایسی بھی ہے جس کا نام ظفر معین بلّے ہے اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کے ذریعے اس ادبی خانوادے کی محبتوں سے فیض اٹھا رہا ہوں۔
سید فخرالدین بلّے صاحب نہایت وضعدار اور محبت کرنے والے انسان تھے اور وہ محبت کی یہ وراثت اپنے بعد آنے والوں کے حوالے کر گئے ہیں۔ وضعداری کا عالم دیکھیے کہ جن دنوں میرے والد شبنم رومانی صاحب علیل تھے، ان دنوں فخرالدین بلّے صاحب خود بھی بیمار تھے، مگر ان کا یہ حکم تھا کہ ان کے فرزندِ ارجمند فون پر شبنم صاحب کی خیریت دریافت کرنے کے بجائے ہر دفعہ خود ان سے مل کر ان کی خیریت معلوم کریں اور اس سے اپنے والد کو مطلع کریں۔ دراصل ان دونوں بزرگان کے درمیان دوستی، احترام اور محبت کا رشتہ تھا۔ ”تھا“ کا مطلب یہ کہ اس وقت تو تھا ہی جب وہ لوگ ان راستوں پر اپنے نقشِ قدم بنا رہے تھے، مگر وہ رشتہ آج بھی قائم ہے جب نئے لوگ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نئی منزلوں کے نشان پا رہے ہیں۔ محبت کے اس سفر میں ظفر معین بلے صاحب کے ساتھ شامل ہونا میرے لیے باعثِ فخر و انکسار ہے۔
زیرِ نظر کتاب دراصل فخرالدین بلے صاحب کے اشعار کا وہ انتخاب ہے جو شبنم رومانی صاحب نے برسوں پہلے ان کی بیاض سے کیا تھا۔ ایک جگہ انھوں نے بلّے صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات لکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ “عمر نے وفا کی تو میں انہیں اپنا موضوع ضروربناؤں گا“۔ شبنم صاحب کو یہ مہلت تو نہ مل سکی کہ وہ جناب فخرالدین بلے کے فن اور شخصیت پر نثر کی صورت میں اپنی خواہش کے مطابق کچھ باقاعدہ لکھتے، مگر گلشن کی تعریف میں کچھ کہنے کے بجائے اس کے خوش رنگ اور معطر پھولوں کا گلدستہ بنا کر پیش کردینا بجائے خود ایک جامع تعریف سے کم نہیں۔ چنانچہ اشعار کا یہ انتخاب بھی شبنم صاحب کی طرف سے اِس گلشن کے پھولوں کا انتخاب ہے اور یوں اسے اپنا موضوع بنانے کی ہی ایک صورت ہے۔ جب مجھے اس شعری انتخاب کا پتہ چلا اور معلوم ہوا کہ اس کی اشاعت کا کام ہو رہا ہے تو بے حد خوشی ہوئی اور زہے نصیب کہ ساتھ ہی اس حوالے سے بلّے صاحب کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں لکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ یعنی میری خوشی اور خوش نصیبی دوآتشہ ہوگئی۔ میں نے بلّے صاحب کے شعروں کا یہ انتخاب بار بار پڑھا اور اس سے ہر بار لطف اُٹھایا۔ قندِ مکرر کے طور پر یہ اشعار دہراتا ہوں ۔
——
ہائے بدلا نہ شب کو بھی رنگِ چمن
چاند جاگا تو تاروں کو نیند آگئی
——
از افق تا بہ افق سلسلہء کاہکشاں
میرے قدموں کے نشاں ہیں کہ تری راہگزر
——
ٹپکتی بوندوں سے ڈرتا ہوں ، جب سے دیکھا ہے
نشان ڈال دیے بارشوں نے پتھر میں
——
گفتگو شاعری کی ہے مگر کیا کریں “بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر”۔ جناب فخرالدین بلے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور یہ اوصاف فطری طور پر ان کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔ سچی شاعری وہی ہے جس میں شاعر خود جزوِ کلام ہوجائے لہٰذا بلے صاحب کا کلام بجا طور پر ان کی فکر و نظر اور شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ اس جہان سے سرسری گزرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ان کے ہاں ذرے میں پوشیدہ کائنات، کائنات میں جھلکتی ذات، ذات میں موجود سمندر اور قطرے میں بند دریا کو دیکھنے کا ایک بھرپور تاثر ملتا ہے۔ بلّے صاحب کے کلام میں جو چیز مجھے شدّت سے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، وہ ہے کائنات، فطرت کے مظاہر اور خلا میں بکھرے اجسام کو چھو کر دیکھنے کا احساس اور فکر کی گہرائیوں میں دانش کے موتیوں کی تلاش۔ خصوصاً جب وہ اس کرّہارض سے باہر دیکھتے ہیں تو آسمان پر جھلملاتے تاروں سے آگے بڑھ کر، جیسے باہر کی دنیاؤں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وہ کیفیت ہے جیسے کوئی نئے زمانے کا درویش، بیک وقت سائنس اور تصوف، دونوں جہانوں کی سیر کر رہا ہو۔
——
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھرنے کے باوجُود
طوُفاں میں ڈُوب کر یہ ہُوا مجھ پہ مُنکشف
پانی تھی صِرف، موج بِپھرنے کے باوجُود
زیرِ قدم ہے چاند، سِتارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اُترنے کے باوجُود
——
جناب فخرالدین بلے کا تعلق ادیبوں کے اس قبیلے سے ہے جو انسانی المیوں پر بے چین ہوجاتا ہے اور نسلِ انسانی کے ہر درد کو دردِ مشترک سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔ ان کے ہاں ایسی مثالیں جا بجا ملتی ہیں جن میں وہ انسانی اقدار کی زبوں حالی پر کڑھتے ہیں۔ انسانی نفسیات اور سماجیات پر فکری گرفت ان کے کلام میں نمایاں ہے، شعر دیکھیے
——
مہر بلب ہیں گاؤں کے گیانی، شہر کے دانشور
بچے سوکھے پیڑوں کی تصویر بناتے ہیں
——
آگ پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں
——
اتنا بڑھا بشر کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
——
نفسیات کے موضوع پر ایسے شعر کم کم پڑھنے کو ملتے ہیں اور مجھے اس شعر نے بہت لطف دیا
——
تن پر ردا ہے، من میں ہے تر دامنی کا شوق
شبنم کی طرح ہونے تو دے شب کو نم ذرا
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
بلّے صاحب کے کلام کا خمیر تاریخ، فلسفے اور مظاہرِ قدرت کے آمیزے سے اُٹھتا ہے مگر اپنے عہد میں سانس لیتا ہے۔ ان کا شعر سوچتا ہے، بولتا ہے اور دعوتِ فکر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسے دردمند انسان کی شاعری ہے جو اپنی ذات کی گہرائیوں میں گم نہیں ہو جاتا۔ ان کی شاعری میں گہرے سمندر کی موجوں کا زیر و بم ہے جس کی بلندی بھی دیدنی ہے اور گہرائی بھی۔ یہی لہریں بلند ہوں تو خیال کی جست بن جائیں اور یہی لہریں نیچے اتریں تو تصوف کی گہرائیوں میں لے جائیں۔ گویا آپ کی کیفیت اس جہاز کی سی ہے جو ان لہروں کے دوش پر گیرائی اور گہرائی بھی دیکھتا ہے اور بلندیاں بھی چھوتا ہے۔ تصوف پر ان کی دسترس کا اعتراف بہت لوگوں نے بجا طور پہ کیا ہے، کچھ مثالیں دیکھیے۔
——
سر ہی کو جھکانا ہے تو جب چاہے جھکا لو
پابندیٔ اوقات اذانوں کے لئے ہے
——
انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لیے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لیے
——
دائرے بنتے بگڑتے دیکھنے والوں نے بھی
کب سنا سے جھیل میں گرتے ہوئے کنکر کا شور
——
یہ الگ بات لوگ بہرے ہیں
دل کبھی بے صدا نہیں ہوتا
——
خدا ، رسولِ خدا اور آلِ رسول کی محبت فخرالدین بلے صاحب کا خاص موضوع ہے۔ انھوں نے جس طرح ان موضوعات کو شاعری میں ڈھال کر صفحہ قرطاس پر اتارا ہے، وہ بلا شبہ ان کی عقیدت کا مظہر تو ہے ہی، ان کی قادرالکلامی کے جوہر بھی اس کلامِ عقیدت میں خوب کھل کر سامنے آتے ہیں۔
——
شرحِ آیات حدیثِ نبوی ہوتی ہے
آپ کہتے ہیں وہی کچھ، جو وحی ہوتی ہے
——
واللہ! بے مثال تھی شادی بتول ؓ کی
بیٹا خدا کے گھر کا تھا، بیٹی رسول کی
——
اسی طرح نیچے لکھے یہ دو اشعار، جو میں تخیل کی پرواز اور ندرتِ خیال کے نمونوں کے طور پر درج کر رہا ہوں، نہ صرف قابلِ غور ہیں بلکہ انھیں پڑھ کرآپ داد دیے بغیر رہ نہیں سکیں گے
——
یوں لگی مجھ کو خنک تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لیے پر کھولے ہیں
——
اٹھائے پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ زمیں مجھ پہ کربلا کی طرح
——
اب یہاں جبریل کے پر کھولنے کی تمثیل تو خوب ہے ہی مگر دوسرے شعر میں تن کے نیزے کا استعارہ گویا لفظوں کی مصوری ہے۔ یہاں سر کو نیزے پر اُٹھانے کی تشبیہ کے ساتھ اپنی زندگی کے میدان کو میدانِ کربلا سے تشبیہ دے کر ایک مکمل تمثیل پیش کی گئی ہے۔ ایسی مصوری اور جاندار تشبیہات و استعارے مجھے ان کی نظموں میں بھی خوب نظر آتے ہیں۔ منظر نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی یہاں لفظوں کا جو برمحل اور چست استعمال ہے، وہ ان کے کلام میں روانی بھی پیدا کرتا ہے اور بلاغت بھی قائم رکھتا ہے۔ اسی لیے ان کے کلام میں غنائیت بھی ہوتی ہے اور پیغام بھی۔
ایک دردمند، باخبر اور بیدار ذہن شاعر جو اپنے ماحول کا صرف ادراک ہی نہ رکھتا ہو بلکہ امروز کی زلفیں سنوارنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہو، وہ سماجیات کی طرح سیاسیات سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ فخرالدین بلے صاحب کا کلام اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملکی حالات کی ابتری پر خاموش نہیں رہتے تھے۔ وہ محب وطن انسان تھے، اس لیے ملکی اداروں اور بیرونی سرحدوں، دونوں کے لیے یکساں فکرمند رہتے تھے جس کی کئی مثالیں ان کے کلام میں ملیں گی۔ وہ جمہوریت کے زبردست حامی تھے اور نظام کے تسلسل پر یقین رکھتے تھے، چنانچہ غزل کے کئی اشعار کی طرح ان کی نظمیں بھی ان کے نظریات کی بھرپور ترجمان ہیں۔ وہ جب ملک میں جاری تماشوں پر مداریوں کو آئینہ دکھاتے یا ملک و ملت کے زخموں پر صدائے بغاوت بلند کرتے تو ان کا لہجہ بڑا کاٹ دار ہوتا تھا۔ سرحدی جارحیت پر یہ کہنا کہ
”آئے تھے وہ پاک بھارت کو ملانے کے لیے“
امن کے دعویداروں کی جانب سے کی گئی جارحیت پر گہرا طنز بھی ہے اور حب الوطنی کا اظہار بھی۔ مگر بات چونکہ اشعار کے انتخاب کی ہے اس لیے نظموں پر بات فی الحال ملتوی کرتا ہوں۔
——
یہ بھی پڑھیں :  پروفیسر سید وقار عظیم کا یوم پیدائش
——
اصل میں بات فخرالدین بلّے صاحب جیسی قدآور اور متحرک شخصیت کی ہو تو آخری بات کرنا بہت کٹھن ہوتا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ایسے میں کوئی بات آخری ہوتی نہیں ہے۔ لہٰذا میں اس موقع پر اپنی بات کو سمیٹنے کے لیے بلّے صاحب ہی کے ایک خوبصورت شعر کا سہارا لوں گا ، جس میں انھوں نے زندگی کا تکملہ نہ ہونے کی حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ کیا “میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے” کے مصداق، یہ ہم سب کی کہانی نہیں! سو یہ شعر آپ کے ذوق کی نذر کر کے اجازت چاہوں گا
——
اپنی کتابِ زیست پہ تنقید کے لیے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاؤں گا
( سید فخرالدین بلّے)
——
سیّد فخرالدین بَلّے کی بیاض کے ساتھ سات دن
انتخاب ِ کلام : شبنم رومانی
——
کر کے نادم تمہیں ہم کو ہی ندامت ہو گی
یہ سمجھ کر نہ کیا تم کو پشیماں ہم نے
——
اُفق سے نکلا ہے سورج ، اُفق میں ڈوبے گا
جہاں بھی دھوپ ہے، سایہ ضرور پھیلے گا
——
رُتوں کی رِیت یہی ہے ، یہی ہوا کی روش
تپش بڑھے گی تو بادل ضرور برسے گا
——
چمن میں فصلِ بہاراں سہی ، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا
——
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتۂ دیوار کون دیکھے گا
——
کھڑا ہوں جادئہ حیرت پہ آج بھی تنہا
کبھی تو کوئی مسافر اِدھر سے گزرے گا
——
دائرے بنتے بگڑتے دیکھنے والوں نے بھی
کب سنا ہے جھیل میں گرتے ہوئے کنکر کا شور
——
ہے فلسفوں کی گرد نگاہوں کے سامنے
ایسے میں خاک سوچ کو رستہ دکھائی دے
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنچوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
——
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے؟
——
شہر یاروں کی جبینیں دیکھو
ان کہی میں نے کہی ہو جیسے
ہے فضا صبح کی بھیگی بھیگی
رات بھر اوس پڑی ہو جیسے
——
دیکھی چمک جو سر پہ مرے آفتاب کی
پرچھائیں تک مری مرے قدموں میں آگری
——
انساں ہی اس زمین پہ تنہا نہیں حریص
پھیلا ہوا ہے دیکھئے ہر برگ کا بھی ہاتھ
——
ہم شب میں رند بن کے رہے ، دن میں متقی
دنیا میں اِس چلن سے بڑی آبرو رہی
——
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
پیڑ نعمت بدست و سرخم ہیں
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ
——
اتنا بڑھا بشر کہ ستارے ہیں گردِ راہ
اتنا گھٹا کہ خاک پہ سایہ سا رہ گیا
ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا کہ میں تنہا سا رہ گیا
——
نہ آئینے کا بھروسہ نہ اعتبارِ نظر
جو روبرو ہے مرے کوئی دوسرا ہی نہ ہو
——
اپنی کتابِ زِیست پہ تنقید کے لئے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاوں گا
——
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
——
مہر بلب ہیں گاوں کے گیانی ، شہر کے دانشور
بچے سوکھے پیڑوں کی تصویر بناتے ہیں
——
ہے ایک قطرئہ خود ناشناس کی طرح
یہ کائنات مری ذات کے سمندر میں
نفس کی آندھیاں چلتی رہیں مگر میں نے
تمام عمر گزاری ہے ریت کے گھر میں
ٹپکتی بوندوں سے ڈرتا ہوں جب سے دیکھا ہے
نشان ڈال دیئے بارشوں نے پتھر میں
ازل کے روز میں نکلا تھا ڈھونڈنے خود کو
ملا ہے آج مجھے آئینے کے پیکر میں
——
چار آنکھیں چاہئیں اس کی حفاظت کے لئے
آنے جانے کے لئے جس گھر کے ہوں رستے کئی
خود ارادی اور آزادی کی برکت دیکھئے
گھر کے آنگن میں نظر آتے ہیں اب چولہے کئی
——
جنت میں جانا کیسے گوارا کرے کوئی
رسوا وہاں سے ہو کے نکالے ہوئے ہیں ہم
——
یہ الگ بات لوگ بہرے ہیں
دل کبھی بے صدا نہیں ہوتا
——
سر اُٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چُھپانے کو گھر نہیں ، نہ سہی
پیڑ پودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں ، نہ سہی
——
اٹھائے پھرتا ہوں سر اپنے تن کے نیزے پر
ہوئی ہے تنگ زمیں مجھ پہ کربلا کی طرح
——
کیا چاہتا تھا اور یہ کیا دے گیا مجھے
قاتل بھی زندگی کی دُعا دے گیا مجھے
مٹیِ اُڑی تو اپنی حقیقت ہوئی عیاں
جھونکا ہوا کا میرا پتہ دے گیا مجھے
——
اب تو مرنا بھی ہو گیا مُشکل
آپ کیوں آ گئے عیادت کو
——
سر ہی کو جُھکانا ہے تو جب چاہے جُھکا لو
پابندیء اوقات اذانوں کے لئے ہے
——
یہی ہے گردشِ لیل و نہار کی تعبیر
کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا
——
اگلی صف میں جو لوگ بیٹھے ہیں
تن کے اُجلے ہیں ، من کے کالے ہیں
——
ہم نے اے دوست خود کشی کیلئے
آسینوں میں سانپ پالے ہیں
——
لوحِ تاریخ نے پوچھا ہے قلم سے اکثر
کیا سرِ دار پہنچنے میں بھی سرداری ہے؟
——
شہر کے مُحتسب مجھے بھی دِکھا
ایسا دامن جو داغ دار نہیں
——
آگ پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں ، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں
——
ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھرئی ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ
یوں صاف بیانی کی جسارت نہیں ہوتی
ممکن ہے مری بات گوارا نہ کریں آپ
——
کر دیا دفن مجھے زیرِ زمیں یاروں نے
میں نے جب گردشِ دوراں سے نکلنا چاہا
——
وہ ایک شخص جو حالات کی پناہ میں ہے
یہ جان لے کہ ہر اِک فرد کی نگاہ میں ہے
——
عجائبات کی دنیا میں کچھ کمی تو نہیں
یہ ہو بھی سکتا ہے مجھ سا کوئی ہوا ہی نہ ہو
——
یوں لگی مجھ کو خنکُ تاب سحر کی تنویر
جیسے جبریل نے میرے لئے پر کھولے ہیں
میں تو لے آیا ہوں ایمان فرشتوں پہ مگر
ان کا کیا ہو گا بھلا ، مجھ سے جو کم بھولے ہیں
ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
——
انا کا علم ضروری ہے بندگی کے لئے
خود آگہی کی ضرورت ہے بے خودی کے لئے
کسی نے توڑ دیا دل کو دل لگی کے لئے
کوئی تڑپتا رہا عمر بھی کسی کے لئے
زمیں پہ اہل نظر ، آسمان پر تارے
تمام رات تڑپتے ہیں روشنی کے لئے
میں کس سے پوچھوں کہ پھولوں نے کس لئے آخر
بسنت رُت کو چُنا چاک دامنی کے لئے
——
چشمِ تر! تشنہ لبوں تک تو نہ پہنچا پانی
یہ الگ بات رہا خود بھی پیاسا پانی
کبھی سر سے ، کبھی آنکھوں سے ، کبھی بادل سے
عجب انداز سے ہر رنگ میں برسا پانی
——
عکسِ باطن بھی ہیں ، ناظر بھی ہیں ، آئینہ بھی
پر جہاں بینی میں خود بینی کو ترسیں آنکھیں
——
پسِ دیوار ہوئی تھی جو بات
کس طرح آ گئی چوپالوں تک
یہی حالات رہے جو کل بھی
ہاتھ پہنچیں گے گریبانوں تک
——
اپنی پاک دھرتی کا اب خدا ہی حافظ ہے
مسندوں پہ آ بیٹھے سرحدوں کے رکھوالے
——
ہائے بدلہ نہ شب کو بھی رنگِ چمن
چاند جاگا تو تاروں کو نیند آ گئی
——
شدتِ غم سے غنچوں کے دل پھٹ گئے
ہم یہ سمجھے کہ شاید بہار آگئی
——
نہ دستِ شوق سے جب ساغرِ شراب اُٹھا
مرے شعور نے ہنس کر کہا ، کتاب اُٹھا
ہے خوں چکیدہ سحر اور شام خوں آشام
الٰہی ! اب تو مرے شہر سے عذاب اُٹھا
——
ہم یوں نہ ہو سکے کبھی جمہوریت شعار
ہوتی رہی ہے فوج مشرف بہ اقتدار
——
تیرے کارن ہی تو بے کل ہے مِرا من اب تک
دیکھ لے آ کے، ہے سونا مِرا آنگن اب تک
وقت کی آنکھ مچولی سے تو پوچھا ہوتا
کیوں مِرے ساتھ رہا ہے مرا بچپن اب تک
اب ہنومان ہے ، لچھمن ہے نہ سیتاہے نہ رام
دکھ مگر یہ ہے کہ لنکا میں ہے راون اب تک
——
تن پر ردا ہے من میں ہے تر دامنی کا شوق
شبنم کی طرح ہونے تو دے شب کو نم ذرا
——
جب پَو پھٹی تو ساتھ ہی کلیوں کے دل پھٹے
ہے کب جدا گگن سے چمن کا معاملہ
——
کسے بُلا کے دکھائیں کہ صبح ہونے تک
نہیں ہے ایک بھی سِلوٹ ہمارے بستر میں
پون چلی ہے نہ پتھر کسی نے پھینکا ہے
مگر عجیب سی ہلچل ہے سوچ ساگر میں
——
حبس تھا جب تو ہواوں کی دعا مانگی تھی
چل پڑی ہیں، جو ہوائیں تو گھٹن سی کیوں ہے؟
——
پیش آئی ہے نمی آج جو پیشانی پر
آئینہ دیکھئے تحریرِ ندامت ہو گی
——
شرح ِ آیات حدیث ِ نبوی ہوتی ہے
آپ کہتے ہیں وہی کچھ جو وحی ہوتی ہے
——
واللہ ! بے مثال تھی شادی بتول کی
بیٹا خداکے گھر کاتھا،بیٹی رسول کی
——
از اُفق تابہ اُفق سلسلہء کاہکشاں
میرے قدموں کے نشاں ہیں کہ تِری راہگزر
——
خیام صدیاں ہوئیں جلے تھے
فضا ابھی تک دھواں دھواں ہے
——
ہے عشق ِ نبی میرا ایماں ، ہے حُب ِ علی میرا مسلک
میں ایک قلندر زادہ ہوں ، دم مست دما دم آج بھی ہے
——
مِرا سفینہ ایماں بھی ناخدا بھی علی
مِری نماز علی ہے،مری دعا بھی علی
——
مباہلہ و مواخات و ذوالعشیر کی بات
یہ ابتدا ہے تو پھرانتہا غدیر کی بات
——
کر لئے ہیں بند میں نے گھر کے روشن دان تک
جگ ہنسائی کیلئے باہر نہ جائے گھر کا شور
——
یہ ہے وہ انتخاب کلام جو شبنم رومانی نے سید فخرالدین بلے کی بیاض کے ساتھ سات دن گزارنے کے بعد ترتیب دیا تھا ، جسے کتابی صورت میں منظرعام پر آنے کے بعد قارئین کرام کی نذرکیا گیا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات