اردوئے معلیٰ

Search

آج کلاسیکل غزل کے مشہور شاعر طالب باغپتی کا یوم وفات ہے

طالب باغپتی(پیدائش: 27 نومبر 1903ء – وفات: 26 جولائی 1984ء)
——
کلاسیکی غزل کے مشہور شاعر طالب باغپتی کا نام لطافت علی خان اور تخلص طالبؔ تھا۔ وہ 27 نومبر 1903ء کو
باغپت ضلع (میرٹھ) بھارت میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے ایف ۔ اے کی تعلیم حاصل کیں اور تقریباً 1936ء سے شاعری کا آغاز کیا۔
طالب باغپتی نے جگرؔ مراد آبادی اور ندرتؔ میرٹھی سے اپنے کلام کی اصلاح لی۔ عشق کے سوز و گداز میں ڈوبی غزلیں اور نظمیں کہیں۔
طالبؔ باغپتی 26 جولائی 1984ء کو وفات پا گئے۔
——
جگر مراد آبادی از شاخِ نبات
——
جنابِ طالب باغپتی سلیم الفطرت ، وسیع المشرب ، لطیف الخیال ، انسان واقع ہوئے ہیں ۔ متاثر ہونے والا دل و دماغ رکھتے ہیں ، رنگینیٔ و رعنائی کے ساتھ ساتھ بہت سادہ مزاج ، تکلفات و تصنعات سے بڑی حد تک کنارہ کش شخصیت رکھتے ہیں ۔
جنابِ طالب باغپتی کے تمام تر کلام میں ان کی یہ تمام صفاتی خصوصیاتِ زندگی بدرجۂ اُتم پائی جاتی ہیں ۔ اور ان کے بیشتر رشخاتِ فکریہ سے یہ صداقتیں بالکل واضح و نمایاں نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے شعر و ادب کو حسن و عشق کی نازک نازک واردات ، لطیف لطید جذبات و محاکات ، نفسیات و خیالات تک محدود رکھا ہے ان کے کلام میں حکیمانہ حقائق و معارف بھی ہیں لیکن بیش از بیش چاشنیٔ حسن و عشق اور رنگین پیرایۂ بیان کے ساتھ ، خشک مسائل کی صورت میں اگر ہیں تو برائے نام۔
——
یہ بھی پڑھیں : محبت ان کی، دل میرا، ثنا ان کی، زباں میری
——
یہ بھی جنابِ طالب باغپتی کی قادر الکلامی اور خوش مذاقی کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو قومی لیڈر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا ، اور نہ کبھی ناصح مشفق کی صورت میں سامنے آئے ، کہ ایک سچے شاعر کی دنیا اس دنیا سے کہیں زیادہ وسیع و بلند ہے ۔
اخلاقی مضامین ہوں یا حکیمانہ غواص ، معاملاتِ حسن و عشق ہوں یا محاکات و جذبات غرض انہوں نے صرف امکانات و قیاسات یا تقلید و تائید کی بناء پر کچھ نہیں کہا بلکہ سوچ سمجھ کر ، محسوس کر کے ، بصیرت و فراست کے ماتحت ، ان کے کلام میں لفظی و معنوی نغمگی بھی ہے ، زورِ بیان بھی ، اختراع و تنوع بھی ، جدت و ندرت بھی ۔ اسی لیے ان کی انفرادیت و شخصیت کا اعتراف کرنا ہر صاحبِ انصاف کا فرض ہے ۔ ان کے شعر و ادب میں ان کی زندگی محسوس طور پر پائی جاتی ہے ، اور زندگی ہی ہوا کرتی ہے جو شاعر کے کلام کو زندہ و جاوید بنا دیتی ہے
——
منتخب کلام
——
جب کبھی یاد دلایا ہے تخیل نے تمہیں
اس طرح یاد دلایا ہے کہ جی جانتا ہے
——
عرصۂ حشر میں جو عشق کا عنواں ہوں گے
میری ہی خاک کے اجزائے پریشاں ہوں گے
——
لفظ تو ملتے نہیں اظہارِ محسوسات کو
اب وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے دل کی بات کو
——
آرزو رکھنا محبت میں بڑا مذموم ہے
سن کہ ترکِ آرزو ہی عشق کا مفہوم ہے
——
خاموش اندھیری راتوں میں جب ساری دنیا سوتی ہے
اک ہجر کا مارا روتا ہے اور شبنم آنسو دھوتی ہے
——
ظرفِ نگاہ چاہیے دیدار کے لئے
رخ کو پسِ نقاب چھپایا نہ کیجیے
——
کثرتِ دیدار سے ان کی نگاہیں جھک گئیں
عکسِ مژگاں کا نقاب روئے زیبا ہو گیا
——
میری امید میں ہے یاس کی صورت مضمر
میری ہستی ہے فنا مثل خطِ آب مجھے
——
ساقی پلا شراب زکوٰۃ شباب دے
ہاں پھر کوئی مذاق دل پر محن کے ساتھ
——
اک یادگار چاہیے کوئی نشاں رہے
تربت مری رہے نہ رہے آسماں رہے
——
غرورِ حسن سے کوشش متانت اختیاری کی
تمہاری شوخیوں میں رائیگاں معلوم ہوتی ہے
——
خود ترکِ مدعا پر مجبور ہو گیا ہوں
تقدیر کے لکھے سے معذور ہو گیا ہوں
——
یہ بھی پڑھیں : ماورائے عقلِ انساں شان و عظمت آپ کی
——
عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
پردہ اٹھا رہا ہے کوئی امتیاز کا
——
ہاتھ ملتا ہے پشیمانِ جفا میرے بعد
خیر یوں بڑھ گئی توقیرِ وفا میرے بعد
——
تقدیر کے آگے کبھی تدبیر کسی کی
چلتی ہو تو سمجھے کوئی تقصیر کسی کی
——
میں آرزوئے موت کس امید پر کروں
وہ جانتا ہے رشکِ مسیحا کہیں جسے
——
لب خموش مجھے آہ آہ کرنے دے
گناہ عشق سہی یہ گناہ کرنے دے
——
مری تقدیر شکوۂ سنجِ دور آسماں کیوں ہو
ملے جب درد میں لذت تلاشِ مہرباں کیوں ہو
——
یہ عمر ہجر اگر صرف انتظار نہ ہو
تو واقعی مجھے ہستی پہ اعتبار نہ ہو
——
اپنی قسمت کا ستارا سرِ مژگاں دیکھا
آج ہم نے اثر جذبۂ پنہاں دیکھا
——
زندگی میرے لئے طالبؔ سزائے عشق ہے
میری ہستی ہے مجسم داستان آرزو
——
لاکھ آزاد سہی حضرتِ طالبؔ لیکن
آپ بھی قائل مجبورئ انساں ہوں گے
——
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ
تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ
عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ
طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ
——
ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
اک نقش تخیل ہے مٹایا نہیں جاتا
میں نے جو کہا درد بڑھایا نہیں جاتا
کہنے لگے نادان جتایا نہیں جاتا
امید کی کشتی کو سہارا تو لگا دو
مانا کہ تمہیں ساتھ بٹھایا نہیں جاتا
وہ داغ محبت کا نشاں پوچھ رہے ہیں
حالانکہ سمجھتے ہیں دکھایا نہیں جاتا
اب ان کا تقاضہ ہے کہانی نہیں کہتے
جب قصۂ غم ہم سے سنایا نہیں جاتا
ایذا طلبی کی کوئی حد ہو تو جفا ہو
اب وہ بھی ہیں مجبور ستایا نہیں جاتا
تم آؤ گے اور شب کو ذرا سوچ کے کہتے
تم سے تو تصور میں بھی آیا نہیں جاتا
طالبؔ مری باتیں انہیں باور نہیں آتیں
دل چیر کے پہلو کو دکھایا نہیں جاتا
——
یہ بھی پڑھیں : ہجر کا رنج گھٹے ، ایسی دعا جانتا ہے ؟
——
جی بھی کچھ ایسا جلایا ہے کہ جی جانتا ہے
آپ نے اتنا رلایا ہے کہ جی جانتا ہے
یاد بن کر تری معصوم وفا نے ظالم
دل پہ وہ نقش بٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
شوق گستاخ نے اکثر تمہیں برہم کر کے
ہائے وہ لطف اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
جب کبھی یاد دلایا ہے تخیل نے تمہیں
اس طرح یاد دلایا ہے کہ جی جانتا ہے
اتنا افسانۂ فرقت کو کیا عشق نے ضبط
صرف یہ درس پڑھایا ہے کہ جی جانتا ہے
درس عبرت ہے مرے دل کی تباہی طالبؔ
خاک میں ایسا ملایا ہے کہ جی جانتا ہے
——
بیمار غم کا کوئی مداوا نہ کیجیے
یعنی ستم گری بھی گوارا نہ کیجیے
رسوائی ہے تو یہ بھی گوارا نہ کیجیے
یعنی پس خیال بھی آیا نہ کیجیے
ظرف نگاہ چاہیے دیدار کے لئے
رخ کو پس نقاب چھپایا نہ کیجیے
دل شوق سے جلائیے انکار ہے کسے
لیکن جلا جلا کے بجھایا نہ کیجیے
پردہ نگاہ کا ہے تو کیسی خصوصیت
اپنی نگاہ ناز سے پردا نہ کیجیے
کل غیر کی گلی میں قیامت کا ذکر تھا
شرمائیے حضور بہانا نہ کیجیے
بس آپ کا ستم ہی کرم ہے مرے لیے
للہ غیر سے مجھے پوچھا نہ کیجیے
پابندۂ وفا ہے تو پھر مدعا سے کام
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے
طالبؔ حدیث عشق توجہ طلب سہی
یوں داستاں بنا کے سنایا نہ کیجیے
——
تقدیر کے آگے کبھی تدبیر کسی کی
چلتی ہو تو سمجھے کوئی تقصیر کسی کی
اب ایک تمنا ہو تو پوری کوئی کر دے
یوں کون بدل سکتا ہے تقدیر کسی کی
دل میں اتر آئی ہے نگاہوں سے سمٹ کر
کس درجہ حیا کوش ہے تصویر کسی کی
وہ آئیں نہ آئیں مجھے نیند آ نہیں سکتی
سنتا ہی نہیں نالۂ شبگیر کسی کی
برسات کا اک خواب ہے مستقبل تاریک
بکھری ہوئی سی زلف گرہ گیر کسی کی
اللہ یہ تاریک فضائیں یہ گھٹائیں
یہ برق خیالات میں تصویر کسی کی
آنکھیں مری آنکھیں ہیں زہے جوشش گریہ
دھل دھل کے نکھر آئی ہے تصویر کسی کی
طالبؔ ترے جذبات کی تشریح تو کر دوں
ڈر ہے کبھی ہو جائے نہ تشہیر کسی کی
——
حوالہ جات
——
تحریر: جگر مراد آبادی از شاخِ نبات ، مصنف : طالب باغپتی
شائع شدہ 1936 ء ، شعری انتخاب از شاخِ نبات ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ