اردوئے معلیٰ

آج حسرتؔ موہانی کے استاد نسیمؔ دہلوی کے شاگرد ممتاز شاعر امیر اللہ تسلیم لکھنوی کی برسی ہے۔

امیر اللہ تسلیم لکھنوی(پیدائش: 1819ء — وفات: 28 مئی 1911ء)
——
تسلیم لکھنوی کا نام ان کے بزرگوں نے احمد حسین رکھا تھا ۔ عرشؔ گیاوی نے ایک روایت بیان کی ہے کہ امیر اللہ نام تسلیمؔ کے والد کے پیر و مولوی عماد اللہ صاحب کا عطیہ ہے اور اس نام سے وہ اتنے مشہور ہوۓ کی احمد حسین کو کوئی جانتا ہی نہیں ۔ دراصل تسلیم لکھنوی کا پورا نام محمد امیر اللہ ہے کیونکہ وہ خود اپنے ذکر میں امیر اللہ کے ساتھ محمد کا سابقہ استعمال کرتے تھے۔
نسب: قوم کے شیخ انصاری تھے ، لیکن صادقؔ دہلوی نے حالاتِ تسلیمؔ میں قوم رافعی لکھا ہے۔
سن پیدائش : سن پیدائش کے بارے میں خود تسلیم لکھنوی کی روایت ہے کہ مجھے سن پیدائش یاد نہیں ۔ والدہ مرحومہ سے سنا ہے کہ جس سال نواب غازی الدین حیدر کو فرنگیوں کی جانب سے بادشاہ اودھ کا خطاب ملا ، اسی سال پیدا ہوا ۔ صاحبِ تذکرہ کاملان رام پور 1819 ، صاحبِ گل رعنا اور شیخ محمد اسماعیل پانی پتی اور صاحب افتخار خمخانہ جاوید 1820ء بتلاتے ہیں لیکن نواب غازی الدین حیدر کی مسند نشینی شاہی کے متعلق مولوی نجم الغنی بالتصریح یوں رقمطراز ہیں:
"1234ھ 09 اکتوبر 1819ء سے مطابق شنبہ کے دن نوابی کی صورت سلطنت سے مبدل ہوئی اور بادشاہ کا لقب ابو المظفر معز الدین شاہ غازی الدین حیدر ہوا اور بزمِ جشن جلوس منعقد ہوا”
چنانچہ مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں صاحبِ تاریخ اودھ کی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے یعنی 1234ھ بمطابق 1819ء تسلیمؔ کا سن پیدائش ہے۔ امیرؔ مینائی نے انتخاب یادگار میں 1290ھ میں تسلیمؔ کی عمر 52 سال بتائی ہے ۔ اس اعتبار سے ان کا سن ولادت 1238ھ قرار پاتا ہے لیکن یہ قطعی درست نہیں ہے۔
تعلیم و تربیت: تسلیم لکھنوی نے لکھنوی ماحول میں آنکھیں کھولیں ۔ ہر طرف شعر و ادب کا چرچا تھا ۔ ادنٰی سے اعلٰی تک دادِ سخن کا رسیا تھا ۔ لٰہذا اس زمانہ کی مشرقی تعلیم کے مطابق عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد اور اپنے بڑے بھائی مولوی عبدالطیف سے پڑھیں ۔ مولوی شہاب الدین شاگرد مکرانی سے عربی کتب کا درس لیا ۔ لیکن تشنگی علم بای رہی ، قیامِ رام پور کے دوران مولوی جلیل سلامت اللہ سے عربی کی تکمیل کی ۔ منشی عبدالحئی صاحب سندیلوی سے فن خوشنویسی سیکھا اور اس میں کمال حاصل کیا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے
——
نسیمؔ دہلوی کی شاگردی: جس دور میں تسلیم لکھنوی نے شعر و شاعری کی طرف توجہ کی اس وقت مہاجرین شعراۓ دہلی میں نسیمؔ دہلوی کا طوطی بول رہا تھا ۔ لکھنؤ کے مطبع مصطفائی میں نسیمؔ ملازم تھے ۔ یہیں تسلیمؔ بھی کاپی نویس کر کے کچھ پیدا کر لیتے تھے ۔ لٰہذا اسی مطبع مصطفٰے خاں کی بدولت ان کی نسیمؔ سے ملاقات ہوئی اور شاگردی اختیار کی اور لائق استاد نے ہمیشہ خلوت و جلوت میں ساتھ تکھ کر فیوض علمی و ادبی و نیز رموزِ شاعری سے خوب نوازا۔
حلیہ اور وضع قطع: تسلیم لکھنوی بہت ہی باوضع زندگی بسر کرتے تھے ۔ قدیم رکھ رکھاؤ کو ہر حال میں باقی رکھتے تھے۔ سر پر دو پلڑی ٹوپی، کبھی کبھی چکردار بھی ہوتی تھی اور بعد میں عمامہ استعمال کرنے لگے تھے، اچکن اور عبا کے ساتھ ڈھیلا ڈھالا پائجامہ زیب جسم رہتا تھا ، داڑھی شرعی تھی ۔ قدوقامت اور صورت و شباہت سے شان سپہ گری آ شکارا تھی۔
وفات: ماہِ اپریل 1911ء وسط میں آنکھ بنوانے کی غرض سے لکھنؤ تشریف لے گۓ لیکن آپریشن کے دوران میں نشتر گہرا لگ گیا جس سے زخم بڑھ گیا ، غذا بھی بند ہو گئی ، بہ مشکل پانی کے چند قطرے حلق میں اتار دیۓ جاتے تھے ۔ آخر کار 28 مئی 1911ء کو بوقت چار بجے شام اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہو گۓ۔
قبر: چونکہ تسلیم لکھنوی کے استاد نواب اصغر علی خاں نسیمؔ دہلوی بھی لکھنؤ ہی کی خاک میں پوشیدہ تھے اور تسلیمؔ نے آخری زمانہ کے ایک مخمس میں یہ اشارہ بھی کیا تھا جسے بطور وصیت جان کر لوگوں نے پہلوۓ نسیمؔ دہلوی محلہ تال کٹورہ،کٹرہ خدیار خاں کے باغ میں دفن کیا ۔مخمس تسلیمؔ جسے وصیت سمجھا گیا، حسب ذیل ہے:
——
شوق پابوسیِ استاد اگر ہے تسلیمؔ
چل سوۓ گُل وہیں ہوں گے کسی عالم میں مقیم
کہہ گۓ ہیں دمِ رخصت جاں وقت مقیم
طوف ہر نخل کریں گے صفتِ گرد نسیمؔ
ہم پسِ مرگ بھی قربان گلستاں ہوں گے
——
تسلیمؔ کی وفات کی خبریں قریب قریب اردو کے سبھی موقر جریدوں میں قطعہ ارتحال کے ساتھ شائع ہوئیں جن میں ایک حسبِ ذیل ہے:
29 مئی 1911ء کو روزنامہ دبدبہ سکندری میں سب سے پہلے شائع ہوئی
——
یہ بھی پڑھیں : درودوں کا وظیفہ لمحہ لمحہ دم بدم رکھیں
——
قطعہ تاریخ انتقال، عرشؔ گیاوی
——
ہوا انتقال آج تسلیم کا
زمانہ میں تھی منعتم ان کی ذات
ہر اک علم میں خوش نویسی میں بھی
تھے استاد فن اور عالی صفات
گۓ آنکھ بنوانے جو لکھنؤ
یہی بات تھی ایک وجہ ممات
ہوۓ عمر کے ایک سو تین سال
زمانہ نظر میں ہوا بے ثبات
غجب بست و ہشتم(28) مئی کی تھی شام
بنی گور کی ان کی وہ پہلی رات
سن عیسوی میں کہا عرشؔ نے
"چراغِ بہشت” ان کا سالِ وفات
——
"چراغِ بہشت” سے 1911ء برآمد ہوتا ہے۔
——
تصانیف
——
تسلیمؔ کا پہلا دیوان غدر کے ہنگامہ میں تلف ہو گیا لیکن اس کے منتشر اوراق اور پھر جدید کاوش سے پہلا مطبوعہ دیوان ” نظم ارجمند” ہے ۔ یہ مطبع نو لکشور لکھنؤ سے 1289ھ میں طبع ہوا ہے ۔ اس کی کتابت خود تسلیمؔ نے کی ۔
"نظم دل افروز” یہ تسلیمؔ کا دوسرا مطبوعہ دیوان ہے ۔ نامی پریس لکھنؤ سے صفر 1321ھ بمطابق اپریل 1903ء شائع ہوا۔ اس کی کتابت بھی خود تسلیمؔ نے ہی کی ہے ۔
"دفتر خیال” یہ ان کا تیسرا مطبوعہ دیوان ہے جو مطبع سعیدی، ریاست رام پور میں صفر 1327ھ بمطابق 1910ء میں طبع ہوا اس کی ابتدا میں تسلیمؔ کی تصویر بھی ہے۔
مطبوعہ دوادین کے علاوہ ، تسلیمؔ کی مطبوعہ مثنویاں نالہ تسلیمؔ ، شامِ غریباں، دل و جان، صبحِ خنداں ، نغمہ بلبل ، شوکت شاہجہانی ، گوہر انتخاب قابل ذکر ہیں ۔
——
منتخب کلام
——
عشق میں لذتِ حسرت کوئی مجھ سے پوچھے
نامرادی بھی نہ ہوتی تو مزا کیا ہوتا
——
عاشقی میں بھی ہمیشہ رہے معشوق مزاج
ناز بے جا نہ کبھی ہم سے کسی کا اُٹھا
——
کرتا ہوں تصور میں سدا یار سے باتیں
قاصد کی نہ پرواہ ہے نہ پیغام کی امید
——
مرنے کے بعد گور میں حرص طلب محال
پھیلا کے پاؤں ہاتھ بڑھایا نہ جائے گا
——
اللہ رے ہمدردیٔ یارانِ خرابات
خالی جو ہوا شیشۂ دل جام بھر آیا
——
تڑپتی دیکھتا ہوں جب کوئی شے
اٹھا لیتا ہوں اپنا دل سمجھ کر
——
اٹھنے کو ادھر بھی نگہِ ناز تھی لیکن
کیا جانیے کیا کہہ دیا آنکھوں سے حیا نے
——
نالہ کھنچا ہے ، دل ہے خفا ، شوق ہے اداس
تو کیا بدل گیا کہ زمانہ بدل گیا
——
دو ہیں رفیق راہِ طلب ضعف یا صبا
کوئی بٹھا گیا کوئی مجھ کو اٹھا گیا
——
اللہ رے اضطراب تمنائے دیدِ یار
فرصت میں اک نگاہ کی سو بار دیکھنا
——
تھمتا ہی نہیں دیکھنے والوں کا تحیر
جو آنکھ سے ٹپکا وہ مرا دل تو نہیں ہے
——
وصل کی شب بھی ادائے رسم حرماں میں رہا
صبح تک میں التماس شوق پنہاں میں رہا
مر گئے لاکھوں شہید ناز کچھ پروا نہیں
وہ تماشائے ہلال عید قرباں میں رہا
کام اپنا کر چکی بیماریٔ عشق بتاں
میں فریب نسخۂ و تاثیر درماں میں رہا
واہ رے پاس وفا اللہ ری شرم آرزو
ہر نفس ہم راہیٔ عمر گریزاں میں رہا
کیا پڑھے اشعار تسلیمؔ جگر افگار نے
شور تحسیں ہر طرف بزم سخنداں میں رہا
——
غیب سے سحرا نوردوں کا مداوا ہو گیا
دامن دشت جنوں زخموں کا پھاہا ہو گیا
موت آئی جی گئے چھٹ کر غم و اندوہ سے
یہ نیا مرنا ہے جس کا نام جینا ہو گیا
خود کو بھی دیکھا نہ آنکھیں کھول کر مثل حباب
بحر ہستی میں فقط دم کا دمامہ ہو گیا
یہ زمانہ وہ نہیں منہ سے نکالے حق کوئی
یاد کر منصور پر کیا حشر برپا ہو گیا
صورتیں کیا کیا نہ بدلیں میرے سوز عشق نے
اشک آنکھوں میں بنا ہونٹوں پہ چھالا ہو گیا
ناز سے چھاتی پر اس نے پاؤں جس دم رکھ دیا
دل ہوا ٹھنڈا کلیجہ ہاتھ بھر کا ہو گیا
ہم نے پالا مدتوں پہلو میں ہم کوئی نہیں
تم نے دیکھا اک نظر سے دل تمہارا ہو گیا
کہنے کو مجذوب ہم ہیں دل میں گویا اور ہے
نیک و بد جو کچھ ہمارے منہ سے نکلا ہو گیا
جب سے اے تسلیمؔ کی ہے بیعت دست سبو
دین ساغر ہو گیا ایمان مینا ہو گیا
——
بھولے سے بھی نہ جانب اغیار دیکھنا
شرط وفا یہی ہے خبردار دیکھنا
مانند شمع بیٹھ کے طے کی رہ عدم
یارو معجزہ ہے کہ رفتار دیکھنا
کہتی ہے روح دل سے دم نزع ہوشیار
ہم تو عدم کو جاتے ہیں گھر بار دیکھنا
اللہ رے اضطراب تمنائے دید یار
فرصت میں اک نگاہ کی سو بار دیکھنا
تسلیمؔ روئے یار کو حسرت کی آنکھ سے
اچھا نہیں ہے شوق میں ہر بار دیکھنا
——
چارہ ساز زخم دل وقت رفو رونے لگا
جی بھر آیا دیدۂ سوزن لہو رونے لگا
بس کہ تھی رونے کی عادت وصل میں بھی یار سے
کہہ کے اپنا آپ حال آرزو رونے لگا
خندۂ زخم جگر نے دل دکھایا اور بھی
جس گھڑی ٹوٹا کوئی تار رفو رونے لگا
صدمۂ بے رحمی ساقی نہ اٹھا بزم میں
جی بھر آیا دیکھ کر خالی سبو رونے لگا
تھا عدم میں کھینچ لایا آب و دانہ جب یہاں
دیکھ کر بیچارگی سے چار سو رونے لگا
آ گیا کعبہ میں جب محراب ابرو کا خیال
بیٹھ کر تسلیمؔ خستہ قبلہ رو رونے لگا
——
حوالہ جات
اقتباس : حیات و شاعری ،امیر اللہ تسلیم از ڈاکٹر فضل امام
شائع شدہ : 1974 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ