اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف پاکستانی شاعر، افسانہ نگار اور صحافی وقار انبالوی کا یومِ وفات ہے

وقار انبالوی(پیدائش: 22 جون، 1896ء – وفات: 26 جون، 1988ء)
——
وقار انبالوی 22 جون، 1896ء کو موضع چنار تھل، ضلع انبالہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ناظم علی تھا۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور لاہور کے متعدد اخبارات سے وابستہ رہے۔ ان اخبارات میں 1939ء سے 1946ء تک روزنامہ احسان لاہور کے ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ سفینہ لاہور کے مدیر 1947ء سے 1949ء تک جبکہ روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر 1952ء سے 1956ء تک رہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں قطعہ نگاری اور فکاہیہ کالم نگاری 1956ء سے 1988ء تک جاری رکھی۔
وقار انبالوی کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی تصانیف میں شاعری مجموعے آہنگ رزم، زبان حال اور افسانوی مجموعہ دیہاتی افسانے شامل ہیں۔
وقار انبالوی کی تصانیف میں آہنگ رزم (رزمیہ نظمیں) ، زبان حال (نظمیں) اور دیہاتی افسانے (افسانے) شامل ہیں۔
وقار انبالوی 26 جون، 1988ء کو وفات پاگئے اور سہجووال، شرقپور شریف، ضلع شیخوپورہ، پاکستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
وقار انبالوی از شوکت علی شاہ
——
وقار انبالوی ایک طویل عرصہ تک ’’نوائے وقت‘‘ سے منسلک رہے۔ بابا جی کا ادبی اور صحافتی قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ کئی اخباروں نے بھاری رقوم پیش کیں لیکن انہوں نے حرص واَز کے سمندر میں ڈوبنا گوارا نہ کیا۔ کہتے ’’نوائے وقت محض ایک اخبار نہیں ہے‘ یہ ایک نظریہ ہے جو دراصل نظریہ پاکستان سے جُڑا ہوا ہے۔ نظامی برادران کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے۔ حمید نظامی مرحوم نے قیامِ پاکستان کیلئے جدوجہد کی تو مجید نظامی ساری عمر استحکام پاکستان کیلئے کوشاں رہے‘ کئی انقلاب آئے۔ آمریت کی آندھیاں چلیں۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے اُنکی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنکے پائے استقامت متزلزل نہ ہوئے۔ مجید نظامی درویش منش انسان تھے۔ قلندرانہ طریق تھا۔ چاہتے تو دیگرانکی طرح ایک کمرشل ایمپائر کھڑی کرسکتے تھے۔ لیکن ساری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ بسر کی‘‘۔
وقار انبالوی محض صحافی نہ تھے۔ایک منجھے ہوئے ادیب‘کہنہ مشق شاعر اور اُردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ عمروں میں نمایاں تفاوت کے باوصف وہ میرے دوست تھے۔ استاد بھی تھے۔ نوائے وقت میں ’’سر راہے‘‘ لکھتے۔ ادارتی بورڈ میں بھی شامل تھے۔ نوے سال کی عمر میں بھی ’چال جیسے کڑی کمان کا تیر‘16میل ہر روز پیدل چلتے۔ اپنے گاؤں سہجووال سے ویگن پر بادامی باغ اڈے پر آتے۔ وہاں سے نوائے وقت کے دفتر تک پیدل آنا اور جانا۔ اسی میں اُنکی صحت کا راز مضمر تھا۔ دفتر سے واپسی پر میرے پاس آجاتے اور پھر لمبی گپ شپ ہوتی۔
——
یہ بھی پڑھیں : وقار عظیم کا یوم وفات
——
وقار انبالوی بڑے صاف گو انسان تھے۔ حاسد اسی صاف گوئی کو ان کی تلخ مزاجی گردانتے تھے۔ ویسے بابا جی کی حق گوئی کا عالم یہ تھا کہ زہرہلاہل کو زہر ہلاہل تو کہتے ہی تھے۔ قند کو بھی قند نہیں رہنے دیتے تھے۔ کیسی ہی شیریں رسیلی چیز ہوتی بابا جی کی نوک زبان سے لگ کر کڑوی کسیلی بن جاتی لیکن اس تلخ نوائی کے پیچھے کوئی کدورت نہ ہوتی۔ یہ تو ان کا انداز تکلم تھا وہ دبنگ انسان تھا۔طریق قلندرانہ تھا۔ جہاں جرأت رندانہ اور روشِ فقیرانہ یکجا ہوجائیں تو انسان اندیشہ ہائے سود و زیاں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بابا جی کی فطرت کا خمیر انہی عناصر سے اٹھا تھا۔ انکی ساری زندگی اسی اکھڑ پن سے عبارت تھی۔ شاید وہ ’’انانیت‘‘ کے اس موڑ پر پہنچ چکے تھے جہاں سے لوٹنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی بس میں نہیں رہتا۔
بابا جی مشق انانیت میں اپنی ذات کو بھی معاف نہ کرتے تھے۔دوسروں کو چھوڑ دینا تو بہت دور کی بات تھی۔ ایک بار مجھے چندمجرموں کی سرکوبی مطلوب تھی۔ بابا جی سے ذکرہوا تو بولے جنرل کے ایم عارف سے بات کرتے ہیں۔ تمہاری طرح وہ بھی میرا شاگرد رہا ہے۔ مارشل لاء کا دور تھا۔ جنرل عارف‘ ضیاء الحق مرحوم کے بعد سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے۔ بابا جی نے انہیں فون کیا تو انکے پی اے نے چند منٹ انتظار کرایا۔ شاید جنرل صاحب دوسرے فون پرکسی سے بات کررہے تھے۔ جنرل صاحب نے جیسے ہی ’’ہیلو‘‘ کہا بابا جی برس پڑے ’’میں اس عارف سے بات کرنا چاہتاہوں جو کبھی علم دوست تھا‘ شاعر تھا‘ خلیق اور ملنسار تھا۔ جس نے میرے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔ آپریٹر نے مجھے کسی جنرل سے ملادیا ہے جس کی روش حاکمانہ ہے۔ طور طریق شاہانہ ہیں۔ اب جنرل صاحب ہیں کہ بار بار معذرت کررہے ہیں۔ آپریٹر کی سرزنش کرنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ ’’حکم‘ ارشاد‘‘ کی گردان کر رہے ہیں لیکن بابا جی کا پارہ جو ایک سو ڈگری پر پہنچا ہوا تھا نیچے نہ آیا اور طیش میں فون بند کردیا۔ غیظ کے اس عالم میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ فون کرنے کا مدعا کیا تھا۔
وقار انبالوی کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور مشاہدہ نہایت عمیق‘ ہر چند کہ انگریزی زبان سے ان کی رسمی علیک سلیک تھی۔ اردو‘ ہندی‘ سنسکرت‘ عربی‘ فارسی پر انہیں بڑا عبور حاصل تھا۔ پنجابی ہوتے ہوئے بھی ایسی شستہ اردو بولتے کہ اہل زبان عش عش کر اٹھتے۔ صرف صاحب علم ہی نہ تھے‘ عالموں کی قدر بھی کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑا بے لاگ تبصرہ بھی کرتے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید وقار عظیم کا یوم پیدائش
——
توکل اور قناعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سادہ لباس پہنتے‘ سادہ غذا کھاتے۔ ایک لمبا کھدر کا کرتا یا پاجامہ نما شلوار اور دیسی چپل اور صدری پان کے شوقین تھے۔ اپنا پاندان رکھتے اور لکھنوی انداز میں چھوٹی چھوٹی گلوریاں بنا کر وقفے وقفے سے کلے میں دباتے رہتے۔
’’ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی سطح اور قابلیت کے مطابق بات کرتے۔ علمی اور ادبی محفلوں میں بڑے بڑوں کو چپ کرا دیتے۔ اس اعتماد اور وثوق سے تقریر کرتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے اور انہیں یہ کہنا پڑتا کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ عام آدمی سے اس کے لب و لہجے میں گفتگو کرتے۔ جوانوں کی محفل میں جوان نظر آتے۔ ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ ساتھ ساتھ ڈالڈا اور پاؤڈر ملک کی زد میں آئے ہوئے نوجوانوں کو چند نسخے اور راز کی باتیں بھی بتاتے جاتے۔‘‘
آخری عمر میں انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر کھجوریں‘ تسبیح اور آبِ زم زم خاص طور پر میرے لئے لے کر آئے۔ کھجور کے دانے کو چکھ کر میں نے کہا مجھے تو یہ مکران کی بیگم جنگل (کھجور کی ایک قسم) لگتی ہے۔ آخر آپ کا یہ بیگمات کا شوق نہیں گیا۔
بابا جی نہایت عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ برجستہ اور برمحل شعر کہنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ خود بھی بہت اچھے شعر کہتے۔ ہر چند کہ انہوں نے زیادہ شعر نہیں کہے لیکن ان کے فن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اس شعر کو …؏
——
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللّٰہی، اک سجدۂ شبیری
——
لوگ علامہ اقبال کا شعر سمجھ کر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ اخبار کیلئے لکھے جانے والے قطعات نے البتہ ان کی شاعری کو ضرور متاثر کیا۔ ایک دن خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بولے۔ قطعات میں ہر روز اچھا شعر نہیں لکھا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو موضوع کا خشک پن ہے اور دوسرے فرمائش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر قطعہ فوراً موزوں کر دیجئے۔ اب ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشعار پڑھ کر وجدان پر گھنٹیاں ہی بجیں گی شہنائی کی آواز نہیں آئے گی۔
——
یہ بھی پڑھیں : آپ آئے ہیں تو محفل پہ شباب آیا ہے
——
منتخب کلام
——
یہ تلواریں نہیں افسانۂ خاموشِ عظمت ہیں
یہ شمشیریں نہیں انگشت ہائے دستِ قدرت ہیں
——
بلند ہے مرے نقشِ جہاد کا پایہ
قلم کی نوک پہ ہے ذوالفقار کا سایہ
——
وظیفہ ہے یہاں ہر دم وطن کی خیر خواہی کا
ادب اے شوقِ نظارہ یہ معبد ہے سپاہی کا
——
نوجوان سپاہی گھر سے رخصت ہوتا ہے
——
دشمن ازل سے گردشِ چرخِ کُہن کا ہوں
تلوار کا دھنی ہوں تو میں شیر رَن کا ہوں
ہوں روح خاندان کی ، پھول اِس چمن کا ہوں
بھائی بہن کا پیارا عزیز انجمن کا ہوں
مجبور ہوں مگر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
اے بوڑھے باپ رُخصتِ میدانِ جنگ دے
چہرے کو میرے سُرخیٔ غیرت سے رنگ دے
کر یہ دعا ، خدا مجھے لڑنے کا ڈھنگ دے
تاب کمان و تیغ و سنان و تفنگ دے
ہو ہم عناں ظفر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
اے ماں! یہ تیری آنکھیں ہیں نمناک کس لیے ؟
ڈالی ہے تو نے چہرے پہ ہاں خاک کس لیے ؟
ہوتی ہے ایسے وقت میں غمناک کس لیے ؟
رو رو کے کر رہی ہے جگر چاک کس لیے ؟
دل میں نہ لا خطر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
تجھ جیسی لاکھ مائیں وطن میں ہیں سوگوار
دل اُن کے چاک چاک ، گریباں ہیں تار تار
کر مادرِ وطن کے غموں کا ذرا شمار
عزت پہ ملک و قوم کی کر دے مجھے نثار
سر ہے وطن کا سر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
چُپ لگ گئی ہے تجھ کو شریکِ حیات کیوں ؟
فرطِ الم سے کرتی نہیں آج بات کیوں ؟
خالی ہیں چوڑیوں سے ترے دونوں ہات کیوں ؟
افسردہ ہو گئی ہے تری کائنات کیوں ؟
تجھ کو بھی ہے خبر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
تُجھ کو مرا فراق جو تڑپائے بھی تو کیا
سیندور تیری مانگ کا دُھل جائے بھی تو کیا
میدانِ جنگ میں مجھے موت آئے بھی تو کیا
اس زندگی میں رانڈ تُو کہلائے بھی تو کیا
اس پر بھی رکھ نظر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
لاکھوں سُہاگنیں ہیں وطن کی ملول آج
لاکھوں سروں میں دیکھ رنڈاپے کی دُھول آج
دُکھ اِن کا اپنے دُکھ میں سہاگن کی نہ بھول آج
کر فتح کی دعا کہ ہو شاید قبول آج
ہو جائے کچھ اثر کہ سپاہی وطن کا ہوں
 
اس سرفروش شیرِ ژیاں کا سلام لے
آنکھوں کا لے سلام ، زباں کا سلام لے
بازو کا ، سر کا ، تاب و تواں کا سلام لے
اے خاندان اپنے جواں کا سلام لے
رخصت خوشی سے کر کہ سپاہی وطن کا ہوں
(آہنگِ رزم ، صفحہ نمبر 46 تا 50 )
——
طُوفانی رات کے چند شعر
——
رفتہ رفتہ رات آئی بڑھ گیا پُروا کا شور
بادلوں کی فوج نے مل کر مچایا اک شور
پھر ذرا سی دیر میں جھکڑ چلا اک زور کا
پیش خیمہ بن کے اِک طوفان کا آئی ہوا
دُور اُفق پر چھا گئی گھنگھور اور کالی گھٹا
مست ہاتھی کی طرح جھومی وہ متوالی گھٹا
کس قدر کالی ، بھیانک بد رنگ اور خوفناک
رات ، جنگل ، تیرگی ، وحشت ، خموشی اور خاک
مِل رہے تھے پٹ زمین و آسماں کے اُس طرف
بج رہا تھا ساحرِ شب کا ہراس انگیز دَف
چیختی تھی اور گھبرائی سی پھرتی تھی ہوا
چور جیسے پیچھا کرنے والوں سے سہما ہوا
زور کا کڑکا ہوا چھاتی زمیں کی ہِل گئی
بادلوں کی فوج کو گویا اجازت مل گئی
ابر کے گھوڑے بنائے ساکنانِ چرخ نے
آگ کے کوڑے اٹھائے ساکنانِ چرخ نے
آسماں پر ہو رہا تھا آگ اور پانی کا کھیل
آج میں نے صاف دیکھا آگ اور پانی کا میل
آگ ، پانی اور ہوا تینوں میں سازش دیکھ کر
خاک کو برباد کر دینے کی کوشش دیکھ کر
اہلِ دل نے ہاتھ اُٹھائے ” خیر ہو پروردگار!
ہم گنہگاروں کی آنکھیں ہو چلی تھیں اشکبار ”
زور کا آیا تریڑا ، بہہ چلی پانی کی دھار
مست تھے بادل فلک پر اور ہوا بے اختیار
آگ پانی اور ہوا کا دل شکن طوفان تھا
خاک سے لڑنے کی خاطر کس قدر سامان تھا
( آہنگِ رزم ، صفحہ نمبر 88 تا 90 )
——
ایثارِ حُسن ​
——
1931 میں فرانس کے ایک مشہور مقتدر رکن حکومت قوت بینائی سے محروم ہو گئے۔ اُنہوں نے اپنی منگیتر سے کہا کہ میں اب اندھا ہو گیا ہوں اور اس قابل نہیں رہا کہ محبت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکوں لیکن غیرت مند منگیتر نے جواب دیا کہ یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا میں اپنی محبت میں‌ثابت قدم ہوں ، چنانچہ دونوں کی شادی ہو گئی۔
مجبورِ مشیّت

​بہت گہرا ہے گرچہ دل پر الفت کا اثر پیاری​
مگر قدرت نے مجھ سے چھین لی حسن بصر پیاری​
​مری دنیائے عشرت پر اندھیرا چھا گیا یکسر​
اب ان آنکھوں سے کچھ آتا نہیں مجھکو نظر پیاری​
​میں اب بھٹکونگا مستقبل کی اُن تاریک راہوں میں​
جہاں کام آ نہیں ‌سکتا ہے کوئی راہبر پیاری​
​محبت کا تری معترف ہوں ۔ کیا کروں لیکن؟​
نبھانے کی کوئی صورت نہیں آتی نظر پیاری​
​بن آئے کیا ۔ مشیت ہی جو محرومِ نظر کر دے !​
بھُلا دے اپنے دل سے مجھکو قصہ مختصر کر دے​
​​-
مُختارِ محبت​
​-
یہ مانا ! آدمی بے شک ہے مجبورِ مشیت بھی​
مگر تم ساتھ بینائی کے کھو بیٹھے بصیرت بھی​
​تعجب ہے ہوئے جاتے ہو تم مایُوس کیوں آخر؟​
بھُلا دی تم نے اپنے دل سے کیا میری محبت بھی​
محبت امتیازِ کور و دیدہ ور سے بالا ہے​
سمجھتے ہو مجھے تم۔ آہ ! کیا ننگِ محبت بھی​
رہونگی میں شریکِ حال پیارے رنج و راحت میں​
مصیبت آپڑے تو میں اٹھاؤنگی مصیبت بھی​
تمہاری شکل میرے واسطے جیسی ہے اچھی ہے!​
تم اندھے ہو تو کیا غم ہے محبت خود بھی اندھی ہے
( بحوالہ اردو محفل فورم ) ​
——
حوالہ جات
——
اقتباسات نوائے وقت کے 23 اور 30 اگست 2016 ء کے کالم ” حرمتِ حرف ” سے لیے گئے ہیں جو کہ شوکت علی شاہ لکھتے ہیں ۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ