اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی مولانا چراغ حسن حسرت کی برسی ہے۔

چراغ حسن حسرت
(پیدائش: 1904ء – وفات: 26 جون 1955ء)
——
مولانا چراغ حسن حسرت از ابو الحسن علی بھٹکلی
——
چراغ حسن حسرت کے بارے میں بہت کم معلومات ایف بی وغیرہ پہ ملتی ہیں۔ گو تحریر تھوڑی لمبی ہے مگر اس سے آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہو گا۔
چراغ حسن حسرت کے آباؤ اجداد آریاؤں کے چند ریاستی سلسلے کے کپور تھے ، جو کپور کتھری دوکڑے کہلاتے تھے ۔ ایک زمانے میں تلاش معاش کو نکلے تو بھیرہ،خوشاب تک چلے آۓ،یہاں کے ماحول و منظر کو خوش گوار پا کر یہیں بس گئے۔
جس زمانے میں پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی،اس دور میں دو بھائی وزیر چند اور فقیر چند کپور اس علاقے سے قسمت آزمائی کے لئے نکلے اور رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل ہو گئے۔ وزیر چند کا مزاج تجارت کی طرف مائل تھا، اس نے رنجیت کے دربار سے وابستگی بھی اسی حیثیت سے اختیار کی،جب کہ فقیر چند سپاہیانہ مزاج رکھتا تھا اس نے سپہ گری کا پیشہ اختیار کیا ۔ اس میں فقیر چند نے مہارت و صلاحیت کا ثبوت دے کر پنج ہزاری کا منصب حاصل کیا ۔ اس طرح ان کو گلاب سنگھ کا قرب حاصل ہوا اور یہ اس کے ساتھ کشمیر کے علاقے کی طرف ہجرت کر گئے۔
فقیر چند کے سات بیٹے تھے ۔ جے دیال، کانشی رام ، بانشی رام ، مول راج ، شیام سندر، سوہن لال اور کشمیری چند۔ جے دیال جو سب سے بڑے تھے اس کے تین بیٹے تھے موہنا رام ، روپ چند ، مدن لال۔ اس خاندان میں کوئی بیٹی نہیں تھی اور عقیدہ یہ تھا کہ جو شخص بیٹی نہیں بیاہتا، یعنی دان نہیں کرتا وہ سورگ باسی یعنی جنتی نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ فقیر چند نے ایک لڑکی کرم دیوی گود لے لی،اس کو پال پوس کر بڑا کیا ۔جب کرم دیوی کا بیاہ ہوا تو فقیر چند نے اسے اس کے حصے اور رواج کے مطابق زمین دی ۔قرین قیاس بات یہ ہے کہ فقیر چند نے موسم سرما کی سکونت کے لیے اس علاقے کا انتخاب کیا تھا ۔ موسم گرما میں یہ خاندان سری نگر منتقل ہو جاتا تھا، کچھ عرصے کے بعد اثاث البیت کو سمیٹ کر ہر سال لے جانے اور لانے سے تنگ آ کر فقیر چند کی اولاد نے کھوئی رٹہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت جے پوری کا یومِ پیدائش
——
لالہ فقیر چند کے سب سے چھوٹے بیٹے کشمیری چند تھے ۔ ان کا قد درمیانہ اور صورت شکل میں سب بھائیوں سے بڑھ کر تھے ۔ ان کی والدہ کا انتقال اوائل عمری میں ہو گیا تھا ،اور پرورش بھاوج (جے دیال کی بیوی) نے کی ۔ عمر میں سب سے چھوٹا ہونے کی بنا پر قدرتی طور پر سب سے لاڈ پیار بھی زیادہ حاصل کیا ۔باپ نے اس پیار کی وجہ سے اس کے لیے الگ سے ایک ملازم مقرر کر دیا تھا جس کا نام رمضانی تھا ۔ رمضانہ صوم و صلٰوۃ کا پابند اور اسلامی احکام سے کافی حد تک آشنا تھا ۔ یہ کشمیری چند کا خلوت و جلوت کا ساتھی اور ہمدم بنا ۔ رمضانی کی قربت اور گاہے گاہے مذہبی گفتگو نے کشمیری چند کو اسلام کی بنیادی صفات، اخلاق و عادات اور دوسری روایات سے بتدریج روشناس کرا دیا ۔یوں کشمیری چند میں راہ ہدایت کو پانے کی خواہش پیدا ہوئی۔
اسلام کی حقانیت کا جو بیج رمضانی کی صحبت نے کشمیری چند کے دل میں کاشت کیا تھا ، اب وہ مناسب موقع، موزوں آب و ہوا اور کسی ساعت سعید کا منتظر تھا ۔ کشمیری چند اردگرد کے دیہات کرجھائی ، مجھوال اور گیہائیں جانے اور مسلمان درویشوں اور خدا رسیدہ بزرگوں کی مجلسوں میں بیٹھنے لگا ۔ ان ملاقاتوں سے اس کے دل میں پہلے سے پڑے ہوۓ بیج کو سازگار آب و باد میسر آئی تو اسلام قبول کرنے کی امنگ خاموشی سے رنگ بھرنے لگی ۔
کشمیری چند کا گھرانہ کٹر مذہبی تھا ۔ انھیں وید شاستر کی تعلیم بڑے منظم انداز میں دلائی گئی تھی۔ اپنے خاندان اور کھوئی رٹہ کے ہندوؤں کے مذہبی عقائد کو مستحکم اور زندہ رکھنے کے لیے لالہ فقیر چند نے سیری میں اپنی زمین پر ایک مندر تعمیر کروایا اور اردگرد کی کئی زرعی زمین مندر کو دان کر دی اس طرح فقیر چند کے گھرانے کو اس علاقے میں مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ان حالات میں اس مذہبی گھرانے کے کسی فرد کا اسلام قبول کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔اس زمانے میں بزرگان اسلام کے طفیل کشمیر میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا، ہندو نوجوان بڑھ چڑھ کر راہ ہدایت اختیار کر رہے تھے۔ اس صورت حال سے پریشان ہو کر راجہ نے یہ قانون نافذ کر دیا تھا کہ جو ہندو اپنا دھرم ترک کرے گا وہ نہ صرف حق وراثت سے محروم ہو جاۓ گا بلکہ اسے سزا بھی دی جاۓ گی۔
اسی زمانے میں سوات کی ایک دینی و مذہبی شخصیت ” اخوند صاحب” جو کہ مذہبی مناظروں کی وجہ سے ایک محترم مقام حاصل کر چکی تھی اور ایک اسلامی مدرس بھی ان کی نگرانی میں چل رہا تھا، کے ہاتھ پر کشمیری چند نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا ۔ کشمیر میں رہ کر کشمیری چند اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تھا ، چنانچہ وہ اس سرزمین سے نکلنے اور کسی مناسب وقت کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
انھی دنوں کشمیری چند کی شادی کی بات چل نکلی۔ فقیر چند کی نظر انتخاب پونچھ کی ایک بیوہ ” ساہنی” کی بیٹی پر جاٹھہری۔ ساہنی فقیر چند کی طرح آسودہ حال امیر زادی تھی۔ رشتے کے سلسلے میں ابتدائی سلام و پیام کے بعد ،انھیں بردکھوۓ کی غرض سے پونچھ روانہ کیا گیا ۔ کشمیری چند بمشکل ایک رات ساہنی کے گھر قیام کر سکا اور صبح واپسی کے لیے جب روانہ ہوۓ تو کھوئی رٹہ واپس آنے کے بجاۓ، بغیر کسی کو بتاۓ، رمضانی کے ہمراہ راولپنڈی کے راستے سیدھا سوات جا پہنچا ۔ وہاں جا کر اخوند صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : علیم اختر کا یومِ وفات
——
ایک عرصے سے کشمیری چند کے دل و دماغ میں خیر و شر کا معرکہ برپا تھا ، کلمہ پڑھ لینے کے بعد اس کو سکون مل گیا ۔ اس وقت کشمیری چند کی عمر سولہ سترہ سال کے لگ بھگ تھی ۔ اخوند صاحب نے کشمیری چند کا اسلامی نام بدرالدین تجویز کیا یہی بدرالدین چراغ حسن اختر کے والد ہیں ۔
میرٹھ کی رہنے والی فضل بی بی سے شادی کی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد بیوی کا عالم زچگی میں انتقال ہو گیا ۔( بمیار میں فضل بی بی کے بطن سے بدرالدین کے ہاں 1904ء میں جو بچہ ہوا اس کا نام ” چراغ حسن حسرت” رکھا گیا) بدرالدین ننھے بچے کو نانا نانی کی کفالت میں چھوڑ ،دل برداشتہ ہو کر کشمیر ویلی روڈ کے مشہور پڑاؤ رام پور میں جا کر مقیم ہو گئے۔
——
چراغ حسن حسرت کو ان کے نانا حسن علی نے گود لے لیا تھا ۔ جو اس وقت سلطان کٹھائی کے ہاں ملازمت کر رہے تھے۔ حالات و واقعات کے پیش نظر حسن علی نے بمیار و بجھامہ سے پونچھ کی جانب ہجرت کی۔بجھامہ کے ماحول سے ان کا جی اچاٹ ہو گیا تھا۔خود کہا کرتے تھے”بجھامہ کے ویرانہ میں میرا دل نہیں لگتا” پونچھ جا کر پرانی پونچھ کے مشہور خواجہ عبیداللہ سپریٹنڈنٹ کسٹم و ایکسائز کے ہاں مسل خواں کے عہدے پر کام کرنے لگے۔دوسری دفعہ دو اڑھائی سال پونچھ میں گزارنے کے بعد جب واپس بجھامہ آۓ تو کٹھائی کے سلطان محمد خان کا انتقال ہو گیا تو حسن علی اپنی اسامی پر منشی فضل دین (حسرت کے ماموں) کو تعینات کرا کے پونچھ آ گئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
——
پونچھ شہر کے مشرق میں محلہ کامسر اور ڈونگس کے درمیان ایک چھوٹے سے ٹیلے پر حسرتؔ کا گھر تھا۔ اس سے پہلے حسرت محلہ سراں میں رہتے تھے۔
چراغ حسن حسرت کو نانا حسن علی نے گود لیا تھا ۔ ان ہی کے دامن شفقت میں ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کا آغاز فارسی سے ہوا۔اپنے والد بدرالدین جو اپنے تبحر علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کی بنا پر پونچھ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، سے بھی اکتساب فیض کیا۔(حسرتؔ کے والد بھی پونچھ آ گئے تھے)۔نانا حسن علی سے گلستان پڑھی، پھر زلیخا اور سکندر نامہ کا بھی درس لیا ۔ گھر میں فارسی تعلیم کے ساتھ عربی زبان کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔پھر سکول میں داخل ہوۓ جہاں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
حسرت کے نانا حسن علی ایک خوش گوار شاعر تھے اور ادب سے گہرا مس رکھتے تھے۔ حسن تخلص کرتے تھے ۔ حسرت ان کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں: "میرے نانا حسن علی خان اردو کے شاعر تھے اور زیادہ نعت گوئی کا شوق تھا” اسی خط میں حسرت اپنے والد شیخ بدرالدین کے بارے میں رقمطراز ہیں :ذوق شعر ابتدا سے ہی، میرے والد شیخ بدالدین فارسی اور کشمیری دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے”
سکول جانے سے پہلے ہی حسرتؔ علم و ادب کی دنیا سے آشنا ہو چکے تھے۔ پونچھ میں مڈل تک اسلامیہ سکول تھا اور مڈل سے میٹرک تک وکٹوریہ جوبلی اسٹیٹ ہائی سکول، دونوں سکولوں میں حسرتؔ نے تعلیم حاصل کی۔
میٹرک پاس کرنے سے پہلے ہی حسرت نے تدریس شروع کر دی تھی۔ ان ہی ایام میں حسرتؔ کے والد بدالدین تقریباً اڑتیس سال کی عمر میں وفات پا گۓ۔اگرچہ حسرت نانا کے پاس تھے پھر بھی والد کی وفات سے ان کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ والد کی وفات سے ٹھیک دو سال بعد نانا حسن علی بھی چل بسے۔ ان حالات میں پورے کنبے کا بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑا۔
والد اور نانا کی وفات کے بعد باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے رہنا ایک مشکل امر تھا ۔ میٹرک کے بعد خانگی طور پر منشی فاضل کے امتحان میں شریک ہوۓ۔ پھر پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کے امتحان کی تیاری کر چکے تھے اور اسی سلسلے میں 1924ء میں لاہور بھی آۓ ،لیکن نامساعد حالات کے باعث شمولیت نہ کر سکے ۔یقینی طور پر یہ حالات معاشی تھے، جن کی وجہ سے ان کو کم عمری ہی میں ملازمت کا بوجھ اٹھانا پڑا۔
حسرتؔ نے اپنے والد بدرالدین کی پیروی اور ان کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے اس سب سے بڑھ کر معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تدریس کے شعبے کو اپنا لیا تھا۔ کچھ عرصہ مقامی سکولوں میں بھی پڑھاتے رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت موہانی کا یوم پیدائش
——
طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کے تعلیمی ذوق و شوق، مطالعہ،شعر و شاعری سے رغبت اور خاندانی علمی پس منظر کو دیکھ کر پونچھ کے لوگ اپنے بچوں کو حسرتؔ کے پاس پڑھنے کے لیے بھیج دیتے۔ حسرتؔ ابھی میٹرک میں زیرتعلیم تھے کہ پونچھ ریاست کے سیاسی لیڈر، پیر اور جاگیردار پیر حسام الدین نے حسرتؔ سے کہا کہ ہمارے ہاں آ جایا کرو ، خود بھی پڑھو اور ہمارے بچے کو بھی پڑھایا کرو۔ حسرتؔ ان کے اکلوتے فرزند کو پڑھانے لگے۔کچھ عرصے کے بعد پیر صاحب کو بطور حق الخدمت شالی دھان ارسال کی ، ستم ظریفی کہیے یا غلط فہمی، حسرتؔ کو پرانی شالی جس میں پلالی (شالی کے چھلکے) ملی ہوئی تھی اور دانوں میں سوراخ بھی تھے بھیج دی گئی۔ تحفہ لانے والے کو حسرتؔ نے فی البدیہہ منظوم رسید لکھ کر دی۔ جس سے ان کی بچپن کی ذہانت و ذکاوت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
——
ہمیں آج پیروں سے شالی ملی ہے
زمانے سے لیکن نرالی ملی ہے
نہیں دھان میں ایک چاول کا دانہ
صرحی ملی ہے یہ خالی ملی ہے
"ہتھو کتھ و تھرن زمستان چھوا یوں”
کہ شالی میں آدھی پلالی ملی ہے
لگائیں گے حسرتؔ ہم آنکھوں سے اس کو
نقاب حسیناں کی جالی ملی ہے
——
اشعار چونکہ عام فہم اور عوامی دلچسپی کے تھے، اس لیے اکثر لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہو گئے اور زبان زدعام بھی ہو گئے۔ ( حسرتؔ نے بچپن سے ہی شاعری شروع کر دی تھی)
حسرتّ کے ایک دوست کی اپنی بیوی سے اکثر لڑائی رہتی تھی، ایک روز اس لڑائی جھگڑے میں حسرتؔ بھی پٹ گئے۔ گھر جا کر اپنے دوست کے نام درج ذیل اشعار لکھ بھیجے:
——
ہیں مرے دوست اک غلام رسول
زشت رو، زشت خع، و نامعقول
ان کے گھر کا سناتا ہوں احوال
روز بٹتی ہے جوتیوں میں دال
روز جروا سے مار کھاتے ہیں
مار کھاتے ہیں ، گیت گاتے ہیں۔
——
حسرتؔ کی طالب علمی کے زمانے میں ہی راجہ دیو سنگھ والئی پونچھ کی گدی نشینی کی تقریب ہوئی۔ کئی شعرا نے قصیدے لکھے ۔ حسرتؔ نے بھی ایک طویل قصیدہ لکھا اس کا ایک شعر یہ ہے
——
دریا کے تلاطم سے آواز یہ پیدا ہے
سکھ دیو ہو اورنگ جہاں بانی
——
اس قصیدے پر حسرتؔ کو ایک سو روپنے انعام ملا۔ یہ قصیدہ ان کی ناپختہ عمری کے زمانے کی یادگار ہے ، بعد میں انھوں نے زندگی بھر قصیدہ نہیں لکھا۔
——
1924ء میں حسرت شملہ جانے سے پہلے لاہور آۓ کچھ دن یہاں رکے اور پھر شملہ چلے گئے، وہاں بشپ کاٹن سکول میں فارسی اور اردو کے استاد مقرر ہوگئے، شملہ بیوروکریسی کا گڑھ، اعلٰی سوسائٹی کا مرکز، راجوں مہاروجوں کی آمجگاہ اور موسم گرما میں حکومتی دفاتر کی جگہ تھا ۔ یہاں انگریزی اخبارات و رسائل دیکھنے اور اصحاب علم سے ملنے کے مواقع میسر آۓ جس سے ان کی سوچ اور فکر میں ایک پختگی بھی آئی اور ایک واضح تبدیلی بھی۔ جس نے ان کے مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت نکل رہی ہے سرکار کے نگر میں
——
اپنے زمانے کے بڑے لوگوں ، معروف شخصیتوں ، علمی و ادبی اصحاب سے ملنے کا شوق حسرتؔ کو ابتدائی ایام سے تھا ، جب کہ وہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ شملہ میں قیام کے دوران جہاں کہیں کوئی جلسہ ہوتا ، حسرتؔ وہاں ضرور جاتے۔ اس طرح مختلف لوگوں کو دیکھنے، سننے اور ملنے کا موقع ملتا ۔ مولانا آزاد سے پہلی ملاقات بھی شملہ میں ہوئی۔
شملے کا دور حسرتؔ کی جدوجہد اور معاشی تگ و دو کا دور رہا۔ حسرتؔ کی قسمت مین صحافی بننا لکھا جا چکا تھا لٰہذا درس و تدریس کی دنیا سے ان کا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ۔ 1925ء میں کلکتہ جا کر اخبار نویسی کا آغاز کیا۔
——
حسرتؔ کے بارے میں باقی احوال مختصراً ملاحظہ فرمائیں
——
مولانا آزاد کے ایک اخبار ” پیغام” میں مضامین وغیرہ لکھے اور انگریزی مضامین کا ترجمہ کیا ۔ اختلافات کے باعث اس سے الگ ہو گئے (یہ اخبار کوئی مہینہ بھر چلا تھا)
——
کلکتہ میں حسرتؔ نے ایک مقامی اخبار ” نئی دنیا” میں شمولیت اختیار کی جہاں انھوں نے ” کولمبس کے قلمی نام سے "کلکتہ کی باتیں” لکھنا شروع کیں۔یہ باتیں اتنی دلسچپ اور پرلطف ہوتی تھیں کہ اس زمانے کے صف اول کے صحافیوں کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں ۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں ، مولانا ابو کلام آزاد جیسے اخبار نویسوں نے حسرت کے کالموں کی دل کھول کر تعریف کی۔
——
” نئی دنیا” میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد حسرتؔ کو اپنی خواہش اور ذوق کے مطابق ہفتہ وار جریدہ ” عصر جاوید” میں نائب مدیر کی جگہ مل گئی۔اس وقت حسرتؔ کی عمر بائیس سال کے لگ بھگ تھی۔اور پھر ڈیڑھ ماہ بعد اخبار کے مدیر بن گئے۔ اسی اخبار سے باقاعدہ طور پر حسرت کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔
حسرتؔ نے ” عصر جاوید” میں تھوڑا عرصہ ہی کام کیا تھا کہ بقول شیخ محمد اسماعیل پانی پتی” نہ معلوم کیا اسباب ہوۓ کہ حسرت کو جلد ہی ” عصر جاوید” سے علیحدہ ہونا پڑا” گمان غالب یہی ہے کہ ” عصر جاوید” چونکہ مسلم لیگ کے خیرا خواہوں میں معروف تھا اور حسرتؔ کانگریس کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے تھے۔ اس لیے اخبار سے علیحدہ ہو گئے۔
——
1926ء میں حسرتؔ نے اپنا رسالہ ” آفتاب ” کے نام سے نکالا۔ پہلے پرچے کے تقریباً سارے مضامین خود لکھے ، ایک دو افسانے ، دو تین غزلیں ، تین چار سنجیدہ قسم کے مضامین۔ پہلا پرچہ تو خیر جوں توں کر کے نکل گیا لیکن ہر مہینے سارے مضامین خود لکھنا ذرا ٹیڑھا کام تھا ۔ اس لیے اچھے اچھے مضمون نگاروں کی جستجو ہوئیِ
” آفتاب آمد دلیل آفتاب” ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں مالی مشکلات کی وجہ سے غروب ہو گیا۔
——
چراغ حسن حسرت کلکتہ میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے۔ ایک اخبار کو چھوڑا تو دوسرے میں مضامین نویسی شروع کر دی ، دوسرے کو خیرآباد کہا تو تیسرے میں فکاہات لکھنے لگے۔ ” عصر جاوید” سے علیحدہ ہونے کے بعد تھوڑا عرصہ ” جمہور” اور استقلال میں بھی کام کیا۔
——
نہرو رپورٹ کا فتنہ اور حسرتؔ کا عزم لاہور
——
ہندوستان میں فتنہ و فساد کی جڑ نہرو رپورٹ تھی ۔ 1928ء مین مسلمانوں نے جو مطالبات پیش کیۓ تھے وہ رد کر دیے گئے۔
چراغ حسن حسرت چونکہ اخبار نویس تھے، وہ ان حالات و واقعات سے جو سیاسی افق پر پے بہ پے رونما ہو رہے تھے علیحدہ ہو کر نہیں رہ سکتے تھے۔ انھوں نے نہرو رپورٹ کی حمایت میں کئی مضامین لکھے ، جیسا کہ مسلمانوں کے کچھ اور گروہ بھی کر رہے تھے۔ مولانا آزاد کی شخصیت کے زیر اثر، حسرت کا رحجان کانگریس کی طرف ضرور تھا اور تھوڑا بہت خلافت کمیٹی کے ساتھ بھی تھا۔ جیسا کہ انھوں نے خود بیان کیا ہے: ” نہرو رپورٹ کے خلاف کلکتہ میں جو طوفان اٹھا تھا ہندوستان میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس موقع پر بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے اور مسلمان قومی کارکنوں میں تو صرف انے گنے آدمی ایسے رہ گئے تھے جو ابھی تک کانگریس سے وابستہ تھے۔ میں اگرچہ نہ کانگریس کا پرانا رکن، نہ خلافت کمیٹی سے میرا زیادہ تعلق رہا تھا ۔ لیکن میری طبیعت کا رحجان ہمیشہ کانگریس کی طرف تھا ، اس لیے میں نے نہرو رپورٹ کی حمایت میں کئی مضمون لکھے اور اس طرح بہت سے دوستوں کو اپنا دشمن بنا لیا”
نہرو رپورٹ کی حمایت کے نتیجے میں حسرتؔ کے خلاف جو فضا بنی اس سے گھبرا کر انھوں نے پنجاب آنے کا ارادہ کیا۔
نہرو رپورٹ کے ہنگاموں نے جب طول کھینچا تو حسرتؔ 1928ء کے اوائل میں لاہور چلے آۓ۔ لاہور روانگی سے پہلے مولانا آزاد سے ملے۔ مولانا نے کہا ” میرے بھائی میں تمھارے حالات سن چکا ہوں ۔ میرے عندیہ میں تمھارے لیے لاہور جانا ہی مناسب ہے ۔ سیاسی زندگی میں ایسے واقعات پیش آیا ہی کرتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت موہانی کا یوم وفات
——
حسرتؔ کی ادبی سرگرمیوں، سیاسی چٹکلوں ، صحافتی مناقشوں اور علمی سرگرمیوں پر گفتگو کے لیے عرب ہوٹل ( لاہور میں) خاص اہمیت رکھتا ہے۔ عرب ہوٹل اور حسرتؔ لازم و ملزوم تھے ۔ عرب ہوٹل گویا یارانِ شہر کا مرکز تھا ۔ حسرتؔ صدر نشین ہوتے اور ان کے گرد چاہنے والوں کا ہجوم ، زیادہ تعداد طلبہ کی ہوتی یا شہر کے نو آموز اخبار نویس ۔ نکتہ آفرینیاں ، لطائف و ظرافت، شعری تبصرے ، سیاسی جائزے، علمی و ادبی محاکے ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ اور بقول حفیظ ہوشیار پوری ” بے گھروں کا ملجا و ماویٰ عرب ہوٹل ” حسرت کی زندگی کا بہترین حصہ اسی ہوٹل میں گزرا۔
عرب ہوٹل کے عروج کا زمانہ 1930ء سے 1941ء تک کا ہے ۔ 1940ء میں حسرتؔ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے سلسلے میں دلی چلے گئے۔ جب کبھی لاہور آتے تو عرب ہوٹل میں ضرور جاتے۔ دلی کے قیام کے دوران لاہور کا شاندار ادبی ماحول انھیں بار بار اپنی طرف بلاتا رہا ۔
——
چراغ حسن حسرت واقعی حقیقی انسان تھے۔ وہ تمام عمر محنت و مشقت کی سنگلاخ وادی سے گزرتے رہے اور آخری دم تک مشکل حالات سے دو چار رہے ۔ دو وقت کی روٹی کے لیے خون پسینہ ایک کرنا ،اور زندگی کی حقیقتوں کا شعور ان کو زندگی کے ابتدائی ایام سے ہو گیا تھا ، جب ان کے والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور ایک بڑے کنبے کی کفالت ان کے کندھوں پر آن پڑی۔
جب وہ ” زمیندار” اخبار میں کام کرتے تھے ( جو کہ کانگریس اور نہرو کا حامی اخبار تھا) 1934ء کا آغاز تھا دو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی ۔ عید سر پہ تھی۔ عملہ ادارت اور دوسرے کارکنوں نے میکش کی قیادت میں مولانا ظفر علی خاں سے تنخواہ کا مطالبہ کیا۔ اس دوران مولانا ظفر علی خاں اور حسرتؔ کے درمیاں باتوں باتوں میں تلخی پیدا ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عملہ کتابت و ادارت نے ہڑتال کر دی ۔ کچھ لوگوں نے جن میں کیپٹن ممتاز ملک اور ایک آدھ کاتب نے ساتھیوں سے دغا کی اور زمیندار میں واپس چلے گئے۔ اس ہنگامے کے نتیجے میں میکش کی صدارت میں جرنلسٹوں کی پہلی یونین کا قیام عمل میں آیا۔ یونین کے ارکان نے فیصلہ کیا کہ حسرتؔ اور اشرف عطا کی قیادت میں زمیندار میں کام کرنے والے عملہ کو اغوا کر لیا جاۓ۔ حسرتؔ صاحب ان دنوں عرب ہوٹل کی بالائی منزل میں رہتے تھے۔ اشرف عطا نے رات حسرتؔ کو ساتھ لیا اور بیرون دروازہ جہازی بلڈنگ کے نیچے جا پہنچے تو ان کو پکڑ کر عرب ہوٹل کے اوپر حسرت کی جاۓ قیام پر لایا گیا ۔ ان سے ایک حلف نامے پر دستخط کراۓ گے کہ وہ اس وقت تک زمیندار میں کام نہیں کریں گے جب تک ہڑتالی عملے کو واجبات ادا نہیں ہو جاتے۔ یہ تو سب کچھ ہوا لیکن معاملہ ختم ہونے کی بجاۓ طویل ہو گیا ۔ ناشار ہڑتالیوں نے زمیندار کے سامنے پکٹنگ شروع کر دی ۔ ان ہی دنوں ( 06 مارچ 1934ء) مولانا ظفر علی خاں کی تازہ نظم ” روٹی! روٹی” شائع ہوئی۔ نظم پندرہ اشعار پر مشتمل تھی۔
——
ہاتھ میں لے کر سرخ نشان
بچے بڈھے اور جوان
کرتے پھرتے ہیں اعلان
پیٹ کے بھوکے آ پہنچے
آ پہنچے بھئی آ پہنچے
پیٹ کے بھوکے آ پہنچے
آ پہنچا لاہور میں روس
شملہ کی چھاتی کا کابوس
ہیں یہی لینن کے دربان
پیٹ کے بھوکے آ پہنچے
آ پہنچے بھئی آ پہنچے
پیٹ کے بھوکے آ پہنچے
——
یہ نظم قطار میں کھڑے ہو کر دفتر زمیندار کے سامنے گائی جاتی۔ ہڑتالیوں میں نمایا نام میکش ، حسرت، باری علیگ، حاجی لق لق تھے۔ ایک ہفتہ تک یہ لوگ دفتر زمیندار کے سامنے پڑے رہے۔ مولانا نے صاف کہہ دیا ” اگر 20 سال بھی بیٹھے رہو تو تمھیں ایک دمڑی تک نہ دی جاۓ گی” اب فیصلہ ہوا کہ مولانا سیر کو نکلیں تو ان کے سامنے لیٹ جائیں ۔ سب ہڑتالی” زمیندار” کی سیڑھیوں پر لیٹ گۓ۔ مولانا نے پوچھا آپ مجھے گزرنے نہیں دیں گے ۔ میکش نے جواب دیا ہمیں پامال کرنے کے بعد۔مولانا ظفر علی خاں واپس لوٹ گۓ اور سیدھے علامہ اقبالؒ کے ہاں پہنچے اور ان سے حسرتؔ، میکش اور اشرف عطا کی شکایت کی ۔ علامہ صاحب نے قصہ سن کر فرمیا، بہتر ہے آپ ان کے واجبات ادا کر دیں،مولانا ،علامہ صاحب کے ہاں سے مایوس اٹھے تو سیدھا نولکھا تھانہ جا کر میکش اور اشرف عطا کے خلاف مداخلت بے جا کی رپورٹ درج کرا دی۔پولیس ان حجرات کو گرفتار کر کے لے گئی۔اس دوران کچھ دوستوں نے درمیان میں پڑ کر مولانا ظفر علی خاں کے ساتھ ہڑتالیوں کی مصالحت کرا دی۔ یہ سب لوگ ” زمیندار میں واپس آ گۓ۔ لیکن آدھ بار دوبارہ ہڑتال کرنا پڑی اور معاملہ یوں ختم ہوا کہ اس ہڑتال کے سرکردہ اصحاب نے ایک نیا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔
——
حسرتؔ نے مالی پریشانیوں کے باعث کچھ عرصہ انگریز فوج میں بطور میجر ملازمت بھی کہ۔ سنگا پور بھی گۓ اور وہاں سنگا پور کی تاریخ میں پہلا اردو اخبار” جوان” نکالا۔
کراچی بھی گۓ وہاں ریڈیو میں ملازمت کی مگر تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی۔ پھر لاہور آگۓ۔ شراب اور سگریٹ نوشی بے تحاشہ کی۔
——
چراغ حسن حسرت کو مدت العمر ناؤ نوش سے واسطہ رہا ۔ سگریٹ بھی دن میں سو سو پی جاتے تھے۔ فوجی ملازمت کی ، احتیاط اور پابندی قائم نہ رہ سکی۔ دوران ملازمت مے نوشی میں غیر معمولی کثرت کی تھی۔ کراچی کے قیام میں بے اعتدالیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے۔ شورش کاشمیری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ” صحت خراب ہے ، معدہ اور جگر نے قلب کے خلاف سازش کر رکھی ہے، جو دم گزر جاۓ غنیمت ہے”
بیماری کے ساتھ ایک پریشان کن صورت یہ پیدا ہو گئی کہ حسرتؔ نے تھوڑا بہت روپیہ جو پس انداز کیا تھا وہ سب بیماری کی نذر ہو گیا ۔ عزیزوں اور مہمانوں کی آؤ بھگت کے مصارف الگ ، کراۓ کا مکان ، روپے پیسے کی کمی نے مسائل و مصائب میں اضافہ کر دیا تھا۔
دوست احباب کو وفات سے ایک دو ماہ پہلے جو خطوط لکھے گۓ ہیں ان مین خفی و جلی اشارے اپنے حالات کی سنگینی کی طرف ہیں ، وگرنہ حسرت تمام عمر اپنے دکھوں کو دکھانے سے پرہیز کرتے رہے۔دوسروں کی پریشانیاں وہ نہیں دیکھ سکتے تھے ان کا مداوا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اس کے برعکس اپنے مسائل کا ذکر کر کے بھی کسی کو پریشان نہیں کیا ۔ اب بیماری کی حالت میں جب معاشی معاملات دگرگوں ہو گۓ تھے ۔ دوستوں کو خط لکھے صرف اپنے واجبات کی خاطر جو دوسروں کے ذمے تھے۔ 15 اپریل 1955ء کو شورش کاشمیری کے نام اس نوعیت کے ایک خط میں لکھتے ہیں ” میں آنے والوں میں نہیں جانے والوں میں ہوں۔ گور کنارے بیٹھا ہوں” پھر اس کے بعد ” مردم دیدہ” کے جملہ حقوق کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عشرت کے زمانے میں وہ کتاب دار الاشاعت کو دو اڑھائی سو میں دے دی تھی ۔ حمید علی ( امتیاز علی تاج کے بڑے بھائی) سے ان حقوق کی واپسی کا ذکر کرتے ہیں تا کہ چھاپ کر مشکلات کا سدباب کیا جا سکے۔
——
یہ بھی پڑھیں :  پروفیسر عبد الغفور احمد کا یوم وفات
——
تاج کمپنی کے پاس بھی چراغ حسن حسرت کی کتابیں رائلٹی پر تھیں۔ شروع میں تو کمپنی نے رائلٹی دے دی اس کے بعد کئی ایڈیشن شائع کیے لیکن حسرتؔ کو کچھ نہیں ملا۔ مجید لاہوری کو 20 اپریل 1955ء کے ایک تفصیلی خط میں یہی گزارش کی ہے کہ میرے دگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر متعلقہ اصحاب سے مل کر رائلٹی کی رقم کا بندوبست کر دیا جاۓ۔ 28 اپریل 1955ء کو مجید لاہوری ہی کے نام حسرتؔ پھر ایک خط میں لکھتے ہیں ” میں مجبور محض ہوں ۔ درماندہ اور بے برگ و نوا، میرا کام نہ کیا تو کون سا تیر مار لیا۔ بستر پر پڑا ہوں ، نہ اٹھ کر کھڑا ہو سکتا ہوں ، نہ چلنے پھرنے کی اجازت ہے ۔ اس حالت میں آپ کام نہ آۓ تو پھر کب کام آئیے گا۔ دوستوں کی دل سوزی سے بھی کیا ہوتا ہے ، صرف موت کی ٰ تلخی کسی قدر کم ہو جاتی ہے’
ان سطور سے حسرت کے گھریلو حالات ، ذہنی پریشانی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ وہ شخص جس نے تمام عمر سخت محنت کر کے قلم سے روزی کمائی ، کبھی کسی کا احسان نہ لیا ۔ صف اول کے صحافی اور ادیب ہونے کے ناتے کیا کچھ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
وہ اتنا مجبور ہو گیا ہے کہ دوستوں کو خط لکھ کر اپنا حق مانگ رہا ہے۔ وہ بھی نہیں ملتا۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہیں ہو گا کہ چراغ حسن حسرت نے تنگ دستی کے اس زمانے میں محکمہ تعلیم پنجاب کی مڈل جماعتوں کے لیے معاشرتی علوم کی نصابی کتب لکھیں جن کو عاقبت نا اندیشی کے باعث کچھ جاہل لوگوں نے نامنظور کر دیا۔تو پیسے کی قلت اور نہ مٹنے والی بیماری حسرتؔ کو چاٹ رہی تھی۔گھر کے مخدوش مالی حالات کا اندازہ حسرت کے خطوط اور آثار و قرائن سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ جہاں سے روپے کی یافت کی توقع تھی ادھر سے لیت و لعل اور تاخیری حربوں سے ٹالا جا رہا تھا۔ اس صورت حال میں بھی حسرتؔ ” نواۓ وقت” میں کالم لکھ رہے تھے۔ ڈیلی جرنلزم سے ان کا وہ بھرپور تعلق تو نہیں تھا ۔ اب ان کے قلم سے جو کچھ نکل رہا تھا صرف اور صرف معاشی ضرورت کے تحت تھا۔ شوکت تھانوی نے لکھا ہے کہ ” قریب سے حسرت صاحب کو دیکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ یہ کالم کیوں لکھتے تھے اور کون سی مجبوری تھی جو قبر میں پیر لٹکاۓ ہوۓ اس مریض سے بھی روزانہ یہ کالم لکھواتی تھی۔ مگر اس کالم کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ اس شخص کا لکھا ہوا ہے ۔ جس کے دروازے پر موت دستک دے رہی ہے ۔ اس کا چل چلاؤ ہے ، جو زندگی سے مایوس ہو چکا ہے اور جس کے حالات خود ایک جیتی جاگتی موت بنے ہوۓ ہیں”
26 جون بعد دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب جب حسرتؔ کھانا کھانے کے بعد اپنے فرزند ظہیر الحسن کے ساتھ ہی قیلولہ کر رہے تھے کہ سخت بے چین ہو کر اٹھے، ایک لمبا سانس لیا، معلوم ہوا کہ دل کا دورہ پڑ چکا ہے ۔ حسرتؔ نے سوڈے کی بوتل منگوائی لیکن سوڈا پہنچنے سے پہلے ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
26 جون 1955ء کو اتوار کے دن حسرت کا انتقال ہوا۔ 27 جون کو ان کا جنازہ اٹھا۔ تا نواۓ وقت میں ان کا آخری کالم ” حرف و حکایت” کے زیعنوان گاندھی ٹوپی کے موضوع پر شائع ہوا۔
چراغ حسن حسرت کی وفات پر ” نواۓ وقت” 28 جون 1955ء کی اشاعت میں خبر کی سرخی یوں جمائی گئی” اردو کے صاحب طرز ادیب اور صحافی مولانا چراغ حسن حسرت وفات پا گئے”
محشر بدایونی نے ” تاریخ وفات حسرت” کے زیر عنوان ساتھ اشعارکی ایک خوب صورت اور پر مغز نظم لکھی، جس میں حسرت کی شوخ شخصیت کے چند توانا گوشوں کی جھلک دکھائی ہے:
——
منتخب کلام
——
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
——
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
——
اندازِ حسنِ یار بھی کیا تازہ کار ہے
ہے جان ستاں کبھی ، تو کبھی جاں سپار ہے
——
مجھے پینے کا سلیقہ نہ سہی ، یہ کہیے
پاؤں پر ساقیٔ مے خانہ کے سر ، ہے کہ نہیں
——
جوانی مٹ گئی لیکن خلش دردِ محبت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
——
حسرتؔ کو لے تو آئیں تری بزمِ ناز میں
کم بخت رو نہ دے کہیں محفل کے سامنے
——
تعلق ہجومِ بلا ہو گیا
طبیعت تجھے ہائے کیا ہو گیا
——
دل پہ مانا کہ اختیار نہیں
اور اگر اختیار ہو جائے
زندگی چارہ ساز غم نہ سہی
موت ہی غم گسار ہو جائے
——
پھر وہی میں ، وہی نظر اُن کی
دیدہ و دل کی یاریاں نہ گئیں
——
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑئیے ، رات گئی بات گئی
——
حسرتؔ یہ بے خودی ہے کہ اتنی خبر نہیں
اُن کی نظر ہے یا ستمِ روزگار ہے
——
شعری انتخاب از چراغ حسن حسرت ، احوال و آثار
مصنف : ڈاکٹر طیب منیر ، شائع شدہ 2003 ء
——
یہ مایوسی کہیں وجہ سکون دل نہ بن جائے
غم بے حاصلی ہی عشق کا حاصل نہ بن جائے
مدد اے جذب دل راہ محبت سخت مشکل ہے
خیال دورئ منزل کہیں منزل نہ بن جائے
نہیں ہے دل تو کیا پہلو میں ہلکی سی خلش تو ہے
یہ ہلکی سی خلش ہی رفتہ رفتہ دل نہ بن جائے
ہجوم شوق اور راہ محبت کی بلا خیزی
کہیں پہلا قدم ہی آخری منزل نہ بن جائے
——
یارب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت ، اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا ، یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے ، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا ، کچھ ہم سے سنا ہوتا
——
آؤ حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں
زلف عنبر بار کے قصے سنائیں
طرۂ طرار کی باتیں کریں
پھول برسائیں بساط عیش پر
روز وصل یار کی باتیں کریں
نقد جاں لے کر چلیں اس بزم میں
مصر کے بازار کی باتیں کریں
ان کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں
سایۂ دیوار کی باتیں کریں
آخری ساعت شب رخصت کی ہے
آؤ اب تو پیار کی باتیں کریں
——
دل بلا سے نثار ہو جائے
آپ کو اعتبار ہو جائے
قہر تو بار بار ہوتا ہے
لطف بھی ایک بار ہو جائے
زندگی چارہ ساز غم نہ سہی
موت ہی غم گسار ہو جائے
یا خزاں جائے اور بہار آئے
یا خزاں ہی بہار ہو جائے
دل پہ مانا کہ اختیار نہیں
اور اگر اختیار ہو جائے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ