اردوئے معلیٰ

Search

آج بزرگ دانشور، فلسفی شاعر اور طرح دار نثر نگار ظفر نیازی کا یوم وفات ہے۔

ظفر نیازی(پیدائش: 25 اگست 1946ء – وفات: 25 نومبر 2017ء)
——
بزرگ دانشور اور گوشہ نشین فلسفی شاعر اور طرح دار نثر نگار ظفر نیازی اسلام آباد چھوڑ کر عدم آباد جا بسے۔ زمانہ قدیم کے داستان گوؤں کا شکوہ ان کے لہجے میں جھلکتا تھا وہ من پسند احباب کی محفل میں جلوہ گر ہوتے تو سحر طاری کر دیتے تھے۔ سماں باندھ دیا کرتے تھے میڈیا ٹاؤن بنیادی طور پر اخبار نویسوں کی بستی ہے جہاں کئی کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے جانے پہچانے چہرے اب ہمسائیگی کے رشتے میں بندھ چکے ہیں۔
نیازی صاحب بنیادی طور پر اعلیٰ پائے کے براڈکاسٹر تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی والے نجانے کیوں پریس کلب کے رکن نہیں بنائے جاتے تھے کہ یہ سرکاری ملازم ہوتے تھے لیکن یہ فارمولا سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی پر لاگو نہیں کیا جاتا تھا جو سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی مکمل اور مستند اخبار نویس ہوتے ہیں مرحوم سیاست کی نذر ہونے والے شاندار اینکر آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس اور فاروق فیصل خان کو دعائیں دیا کرتے تھے کہ ان کی کوششوں سے قلم کاروں کو چھت میسر آئی درویش صفت ظفر نیازی کو پلاٹ اس کی مہمان نوازی کی وجہ سے ملا ‘مزے مزے لیکر بتایا کرتے تھے کہ سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات اشفاق گوندل نے کسی وقت ان سے پوچھا ہو گا کہ یہ مجلس آرائیاں’ مہمان نوازیاں’ گزارا کیسے کرتے ہو اور ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے حال مست ظفر نیازی نے کہا بستر باندھیںگے اور میانوالی جا بسرام کریں گے یہ بات جناب گوندل کے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں رہ گئی مدتوں بعد جب پرویز الٰہی کی پنجاب سرکار نے اس بستی کی نیو ڈالی تو گوندل صاحب کو بھولا بسرا شاعر یاد آ گیا اس طرح اس کالم نگار کو نیازی صاحب جیسے عالم بے بدل سے شرف ملاقات اور ہمسائیگی کا اعزاز مل گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یوم وفات
——
ظفر میانوالی اور نیازیوں کی زندہ تاریخ تھے جب انہیں پتہ چلا کہ حفیظ بھائی سے اس کالم نگار کو خصوصی تعلق خاطر ہے تو ہمارے درمیاں تکلفات کا رہا سہا حجاب بھی جاتا رہا۔ ماضی کے طالب علم رہنما قائداعظم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین صدر حفیظ اللہ کا نیازی جو صنعت کار ہیں کالم نگار ہیں اور سب سے بڑھ کر ممتاز تجزیہ نگار بھی ہیں کئی دہائیوں سے میرے مربّی و محترم ہیں۔
گذشتہ مہینے شہر پْرآشوب کوئٹہ گیا تو نیازی صاحب کو دور ِجوانی کے دوست یاد آگئے پروفیسر رضوان بیگ نے زحمت کی سرینا تشریف لائے کتب عنایت کیں دم رخصت سے چند دن پہلے گھنٹوں دھوپ میں بیٹھے رہے میرے کالم کے لئے موضوعات تلاش کرتے چیدہ چیدہ نکات بتاتے رہنمائی فرماتے سچی بات تو یہ ہے میرے لئے مشفق اتالیق تھے چین سے واپسی پر بے چینی سے گپ شپ کرنا چاہتے تھے وہاں پیش آنے والے واقعات پر ہاتھ ملتے ہو ئے اظہار افسوس کرتے رہے کہ ترقی پسند تو ماں دھرتی کا وفادار ہوتا ہے یہ کیسے لوگ ہیں پاک چین تعلقات بگاڑنا چاہتے تھے ہمہ صفت’ ہمہ جہت نیازی صاحب نے بڑھاپا بڑے وقار سے گزارا جس کیلئے book Face کے جدید ذریعہ ابلاغ میں ایسی مہارت تامہ حاصل کی کہ علم وادب اورتاریخ کا بیش قیمت ذخیرہ آنے والی نسلوں کے چھوڑ گئے جس سے شائقین اور طالبانِ عشق استفادہ کیا کریں گے آخری ملاقات میں فرمانے لگے دل ڈوب رہا ہے چونکہ بذات خود چوٹی کے ہومیوپیتھ تھے‘ اپنا علاج بالمثل کرتے رہے ڈاکٹر مجاہد منور اور ناصر میر کے ہم جولی بن گئے تھے طرح دار شاعر تھے لیکن انجمن ہائے ستائشِ باہمی سے کوسوں دور رہے اس لئے مطلع ادب پر اس طرح جلوہ گر نہ ہو سکے۔ آج کل اختصاریہ کا رواج عام ہو رہا ہے سو لفظوں کی کہانی اور اناپ شناپ شائع کیا جا رہا ہے۔ جناب ظفر نیازی نے اردو ادب اور فلسفے کی دنیا میں ‘اختصار نویسی’ اور فلسفیانہ دانش کی معجونِ مرکب سے "چوکور پہیے” کا ایسا مزے دار آمیزہ تیار کیا کہ دھوم مچ گئی اس سب کے باوجود ریاست نے ان کی پذیرائی نہ کی کہ وہ خود دار اور باوقار انسان تھے۔ صدارتی ایوارڈ کیسے ملتے ہیں اس کالم نگار سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ لمحوں خاکسار کو نشان امتیاز سے نواز دیا گیا تھا۔
گذشتہ دنوں مرحوم نے معرکے کی الوداعی غزل کہی اور لکھا” آپ کا شاعر اب ستر برس کا ہو گیا ہے اور خوش ہے کہ اس پْرآشوب زمانے میں ابھی زندہ تو ہے۔70 ویں جنم دن پر چند اشعار خاص طور پر کہے ہیں دیکھئے، اس عمر کی شاعری اور وہ بھی غزل جیسی تنک مزاج صنف، آپ کی سماعتوں پر کیا دستک دیتی ہے۔
——
مثالِ ریگ مٹھی سے پھسلتا جا رہا ہوں
ظفر لوگوں کے جیون سے نکلتا جا رہا ہوں
بہت آساں بہت جلدی سفر ڈھلوان کا ہے
سو پتھر کی طرح پگ پگ اچھلتا جا رہا ہوں
کھنچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاو کی کشش میں
تھکن سے چور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں
ہنر اس کھوکھلی دنیا میں جینے کا یہی ہے
برنگ آب ہر سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں
کبھی محفل سے اٹھ آتا تھا اک ترچھی نظر پر
اور اب نفرت کی ہر پڑیا نگلتا جا رہا ہوں
ادا کرنے لگا ہوں روشنی کرنے کی قیمت
برابر جل رہا ہوں اور پگھلتا جا رہا ہوں
پرانے ذائقوں میں فرق سا کچھ آ گیا ہے
میں اپنا ذوق بھی کچھ کچھ بدلتا جا رہا ہوں
میں کس معیار سے اپنا مآل کار پرکھوں
بگڑ کر رہ گیا ہوں یا سنبھلتا جا رہا ہوں
ظفر بار ثمر سے جھک گیا ہوں میں زمین پر
جہاں والے سمجھتے ہیں سپھلتا جا رہا ہوں
——
اس غزل نے چاروں اور ہاہاکار مچا دی۔ اس پذیرائی پسندیدگی پر شاداں فرحان تھے کہ بلاوا آگیا اور لمحوں میں ہاتھ جھاڑ سفر عدم پر روانہ ہو گئے ان کے دوست منور علی ملک لکھتے ہیں "سچی بات یہ ہے کہ مجھے فیس بک بچگانہ سی چیز لگتی تھی لیکن جب میں نے دیکھا کہ ظفرخان نیازی جیسا بڑا شاعر اور ادیب بھی فیس بک پہ پوسٹس لکھ رہا ہے، تو میں نے بھی باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔ اگر ظفر خان مسلسل حوصلہ افزائی نہ کرتا تو میں اس میدان میں چند دن سے زیادہ نہ ٹھہر سکتا۔
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کی سالگرہ
——
ظفرخان نیازی بیمثال شاعر اور بے مثل افسانہ نگار تھے۔ ان کی شاعری اور افسانوں کے تقریباً نصف درجن مجموعے شائع ہوئے۔ بہت خوددار تھے۔ ادبی وڈیروں کی خوشامد کر کے شہرت حاصل کرنا اپنے فن کی توہین سمجھتے تھے۔ اس لئے گمنام ہی رہے حالانکہ آج کے کئی مشہور و معروف شاعروں افسانہ نگاروں سے بہت بہتر لکھتے تھے۔ ان کی کتابوں کے نام بھی ان کی تحریروں کی طرح بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ ‘‘خوابشار‘‘ ‘‘چوکور پہیے‘‘ ان کی آخری کتاب ان کی شاعری کا مجموعہ ‘‘برف پوش چمنی‘‘ تھی۔ ظفر خان کی شاعری اور افسانہ نگاری کا کینوس بہت وسیع تھا۔
ہجرت کے دکھ، اپنی شناخت کی تلاش، غربت، غیرت، سچ کی جستجو، خدا کی تلاش ظفر خان کی شاعری اور افسانوں کے موضوعات تھے۔ ظفر خان کی ذاتی زندگی، ان کی شخصیت، ان کے کچھ دکھوں اور محرومیوں کا ذکر کروں گا۔ ظفر خان ایک بڑا شاعر اور ادیب ہی نہیں، بڑا انسان بھی تھا۔ چلتے چلتے ظفر خان کا ایک شعر سن لیجیے۔ وفا کی آس اسی یار بے وفا سے ہے بدن ہے راکھ، مگر دوستی ہوا سے ہے۔ ان کے ایک اور دوست نے آخری لمحات کی کچھ ایسی منظر کشی کی ہے کہ سبحان اللہ شاندار… زندگی… خوبصورت موت… ظفر نیازی نے ہر لحاظ سے ایک شاندار زندگی گزاری اور اس کی موت …سبحان اللہ
سبحان اللہ… پچیس نومبر ہفتے کے دن عصر کی نماز کے لیے وضو کیا باہر سے مچھلی بیچنے والی کی آواز آئی گھر والوں کو مچھلی بہت پسند ہے مچھلی خریدی اور گھر والوں کو نوید سنائی کہ بہت سی خریدی ہے کھاتے رہنا۔ نماز کے لئے مصلیٰ بچھایا گھر والوں کو کمرے سے آواز آئی آ کے دیکھا مصلے پر ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے سبحان اللہ نماز بھی اللہ کے حضور حاضری اور موت بھی حاضری اور وہ بھی لمحات نماز میں ظفر نیازی کی زندگی بھی یادگار اور موت.بھی یاد گار رہی۔
——
منتخب کلام
——
ظفر خان نیازی کی ایک نظم جو ان بہادر خواتین کے نام ہے، جن کے جسم تو تیزاب سے جل گئے لیکن حوصلے کو تیزاب نہ جلا سکا –
——
دیکھتی ہے آئینہ کس دیدۂ پر آب سے
وہ جو اک حوا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے
جل گئی ہے وہ کلی جس کو مہکنا تھا ابھی
چابد وہ گہنا گیا جس کو دمکنا تھا ابھی
سل گئے وہ غنچہ لب جن کو چٹکنا تھا ابھی
بے نوا بلبل ہوئی جس کو چہکنا تھا ابھی
مست آنکھیں مند گئیں جن کو بہکنا تھا ابھی
چوڑیاں کرچی ہوئیں جن کو چھنکنا تھا ابھی
کان سے جھمکے گرے جن کو کھنکنا تھا ابھی
آرزوئے وصل کو دل میں دھڑکنا تھا ابھی
رنگ مدھم پڑگئے جن کو بھڑکنا تھا ابھی
مانگ میں جس کی ستاروں کو چمکنا تھا ابھی
ہاں وہی حوا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے
دن میں بھی اب دیکھتی ہے ھو بھیانک خواب سے
کون سمجھے گا کہ کیا ہے اس کے دل اضطراب
کعن بانٹے گا جہاں میں اس کے جیون کا عذاب
کون لے گا ظالموں سے اس کے اشکوں کا حساب
اس روایت کو کوئی تو آج کر دے بے نقاب
کیوں ازل سے بنت حوا ہی رہی زیر عتاب
یہ نہ کہہ دینا کہ ہے عورت کی قسمت ہی خراب
اس کے آنگن میں بھی کھل سکتے ہیں خوشیوں کے گلاب
درس دیتی ہے یہی انسانیت کا الکتاب
جس مبارک ہاتھ سے ہونا ہے یہ کار ثواب
وہ جہاں میں سرخرو ہے آخرت میں کامیاب
یہ صدائیں گونجتی ہیں منبر و محراب سے
ہم سبھی مل کر نکالیں گے اسے گرداب سے
وہ جو اک حوا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے
دیکھتی ہے آئینہ کس دیدہ پر آب سے
——
وفا کی آس اسی یارِ بے وفا سے ہے
بدن ہے راکھ مگر دوستی ہوا سے ہے
——
میں لوٹا تو مرے آگے وہی منظر پرانا تھا
کئی لوگوں سے ملنا تھا کئی قبروں پہ جانا تھا
وہی مایوسیاں بستی میں اب تک راج کرتی تھیں
انہیں سانپوں کا ہر چوپال پر حجرہ ٹھکانا تھا
——
یہ بھی پڑھیں : یا صاحب الجمال و یا سید البشر
——
زندگی کٹ گئی جہنم میں
کیا یقیں اب نجات میں رکھنا
——
اسے خبر نہیں میں کس خزاں کی زد میں ہوں
وہ میرے ہاتھوں میں کچھ پھول دیکھتا ہے ابھی
——
سنہری دھوپ کھلے آنگنوں کے خواب نہ بھیج
قفس میں خوش ہیں جو ان پر نئے عذاب نہ بھیج
——
کٹ سکا شو کیس کا شیشہ نہ شیشے سے کبھی
باپ کو بچے کا دل آخر مسلنا ہی پڑا
——
خدا کرے کہ مرا عجزِ فن رہے قائم
کھلے نہ حال مرے آنسوؤں کے بہنے کا
——
موسمِ گل کی خبر پہنچی نہ ویرانوں تک
صحنِ گلشن میں ہی نغماتِ عنادل ڈوبے
——
جانے کب تک ہم تم ساتھ نبھا سکتے ہیں
چلیے لیکن ساتھ جہاں تک جا سکتے ہیں
——
کوئی اُس جیسا نہیں ہے ان دنوں
وہ خود بھی ویسا نہیں ہے ان دنوں
ہر ستم چپ چاپ سہہ لیتے ہیں لوگ
جیسے کو تیسا نہیں ہے ان دنوں
——
تیرے جانے کی صورت دیکھتا ہوں
ابھی سے اپنی حالت دیکھتا ہوں
میں تجھ سے بے وفا کو بھول جاؤں
مگر اپنی ضرورت دیکھتا ہوں
——
کون کہتا ہے کہ وہ مجھ سے بچھڑ کر خوش ہے
سامنے اُس کے میرا نام تو لے کر دیکھو
——
بچھڑتے وقت کل شب دل مرا کچھ اتنا بوجھل تھا
حریمِ ناز کی دیوار بھی چھو کر نہیں گزرا
——
سستا خرید لو کبھی مہنگا خرید لو
میلہ لگا ہے ، مرضی کا سودا خرید لو
رستہ تمہیں نہ دے گی یہ تنہائیوں کی بھیڑ
اک ہم سفر خرید لو ، سایا خرید لو
اک پھول ، اک ڈھلکتے ہوئے اشک کے عوض
چاہو تو میرے پیار کی دنیا خرید لو
بھاؤ بتا رہی ہے یہی بانسری کی تان
جاں دے سکو تو ہیر جی ، رانجھا خرید لو
دو بول بھی پڑھا کے ملے کب دلوں کے مِیت
بولی لگا کے اچھا سا دھوکہ خرید لو
انساں تو پیار کر کے بھی رکھتے ہیں اختلاف
بہتر یہی ہے تم کوئی کُتا خرید لو
اپنے ہر اک حریف کو دوزخ میں جھونک دو
سستا لگا ہے کُفر کا فتویٰ خرید لو
اک نوکری میں گھر کہاں چلتا ہے آج کل
دفتر کے بعد وقت ہے رکشا خرید لو
پڑھ لکھ گیا تو جینے کا مانگے گا حق ضرور
مہنگا ہے پھر بھی بچے کا بستہ خرید لو
آنکھوں کی پیاس کیسے بجھا پاؤ گے ظفرؔ
دشتِ بلا میں صبر کا دریا خرید لو
——
یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے
کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے
مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں
یارو درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے
اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو
اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے
اس بار بہاروں میں کمی تو نہ تھی لیکن
گلشن کے مہک اٹھنے کا ارمان وہی ہے
اے بلبلِ شوریدہ ، بہاروں پہ نہ خوش ہو
تو سمجھی جسے فائدہ ، نقصان وہی ہے
——
تشکیک کی چھلنی میں مجھے چھان رہا ہے
اک شخص بڑی دیر سے پہچان رہا ہے
کیا جانیے کس شے نے اسے کر دیا محتاط
دل عقل پہ اس بار نگہبان رہا ہے
کیا جانیے ، ہے عشق میں کون سی منزل
اس بار بچھڑنا بہت آسان رہا ہے
خوشبو ہے کہ اب تک نہیں جاتی مرے گھر سے
اِک رات مرے گھر کوئی مہمان رہا ہے
——
شعری انتخاب از خواب کنارے ، مصنف : ظفر خان نیازی
شائع شدہ : 1992 ، متفرق ٓفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ