اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر آسی غازی پوری کا یوم وفات ہے

آسی غازی پوری(پیدائش: 21 دسمبر، 1834ء- وفات: 24 فروری، 1917ء)
(نوٹ : تاریخِ وفات عین المعارف کے صفحہ نمبر 54 کے مطابق 2 جمادی الاول 1335 ہے جو کہ 24 فروری 1917 بنتی ہے)
——
نام محمد عبد العلیم ۔ تاریخی نام دو ہیں ۔ ظہور الحق اور خلیل اشرف ، تخلص آسیؔ ، پہلا تخلص آسیؔ تھا ۔ آپ 21 دسمبر 1834 کو اپنے آبائی قصبے سکندر پور ، ضلع بلیا ، ضلع یوپی میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم سیوان میں اپنے نانا سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے لیے کم عمری میں جون پور کا سفر کیا ۔ بعد ازاں مولانا عبد الحلیلم فرنگی محلی سے معقول کی تمام کتابیں پڑھیں ۔ طب کسی سے نہیں پڑھی مگر خداداد ذہانت کے سہارے مطالعے سے حاصل کیا ۔ طالب علمی کے ہی زمانے میں شعر و سخن سے دلچسپی ہو گئی تھی ۔
حضرت افضل الہ آبادی جو ناسخؔ کے شاگرد تھے ان سے مشورہ سخن کرتے تھے ۔ مجنوں گورکھپوریؔ نے کلام آسیؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں خواجہ میر دردؔ کے بعد تصوف کا دوسرا بڑا شاعر تسلیم کیا ہے ۔
24 فروری 1917 ء کو غازی پور میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ۔
آپ کا دیوان موسوم بہ ” عین المعارف ” چھپ گیا ہے ۔
——
آسی غازی پوری : حیات اور شاعری از امتیاز سرمد
——
چودھویں صدی ہجری کے مشہور عالم، بزرگ اور ممتاز صوفی شاعر حضرت شاہ عبدالعلیم آسی غازی پوری کے اشعار روحانی کیفیات اورقلبی واردات سے لبریز ہیں، جس کا اعتراف اہل فکر و نظر نے جی کھول کر کیا ہے۔آپ نے فکرو فن کے جو جواہر پارے بہ طور یادگار چھوڑے ہیں، انھیں رہتی دنیا تک بہ نظر استحسان دیکھا جائے گا۔ آپ نے مختلف اصناف سخن میں بڑے پُر کیف اور دل پذیر اشعار کہے ہیں۔
——
ولادتِ با سعادت
——
حضرتِ آسی سکندر پوری/غازی پوری کی ولادت 19 شعبان 1250 ہجری/1832 عیسوی کو سکندر پور، بلیا میں ہوئی تھی۔ آپ کا نام عبدالعلیم اور تخلّص آسی تھا۔آپ کا تاریخی نام ظہور الحق تھا۔ ابتدائے شاعری میں ’عاصی‘ تخلص کا استعمال کرتے تھے، بعد میں پیر و مرشد کے حکم سے ’آسی‘ کر دیا۔
——
سلسلۂ نسب
——
حضرتِ آسی غازی پوری کا خاندان اپنی روحانی اور علمی عظمتوں کی وجہ سے شہرت و مقبولیت کا حامل رہا ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت شیخ قنبر حسین رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے بزرگ کامل تھے۔ آپ کا پدری نسب نامہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے اور مادری نسب نامہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے ملتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خوابوں کو حقیقت کی تعبیر دکھا دینا
——
درس و تدریس
——
آپ نے فارسی اور عربی کی کچھ کتابیں اپنے نانا مفتی احسان علی سے پڑھیں، پھر اعلا تعلیم کے لیے عہدِ عالم گیری کی مشہور شخصیت حضرت دیوان شیخ محمد رشید جون پوری(صاحب مناظرہ رشیدیہ) کی قائم کردہ خانقاہ، خانقاہ رشیدیہ، جون پور پہنچے۔ وہاں آپ نے مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی، مفتی یوسف فرنگی محلی وغیرہ سے اکتساب فیض کیا۔
علوم و فنون کی تحصیل کے بعد خانقاہ رشیدیہ، جون پور میں ہی زیر تعلیم طلبا کو چشمۂ علم سے سیراب کرتے رہے۔
——
ازدواجی زندگی
——
آسی غازی پوری کی شادی محلہ نورالدین پورہ، غازی پور(یوپی) کے منشی راحت علی کی بڑی صاحب زادی علین بی بی کے ساتھ ہوئی تھی۔ آپ کی کئی اولادیں ہوئیں، لیکن بڑی بیٹی جنّت بی بی کو چھوڑ کر باقی سب کم عمری میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
——
بیعت و خلافت
——
خانقاہ رشیدیہ، جون پور کے چھٹے سجادہ نشین حضرت قطب الہند غلام معین الدین سے آپ سلسلۂ قادریہ احمدیہ میں بیعت ہوئے، پھر انھی سے اجازت و خلافت کی دولت بھی حاصل کی۔ آپ اپنے اخلاص و وفا، تقویٰ وطہارت اور ذاتی کمالات کی وجہ سے خانقاہ رشیدیہ کے آٹھویں سجادہ نشین منتخب ہوئے۔ آپ کا عہد خانقاہ کے لیے عہدِ زرّیں کی حیثیت رکھتا ہے۔
——
وصال
——
آپ 2 جمادی الاولیٰ 1335 ہجری/1917 عیسوی کو پچاسی سال کی عمر میں واصل بحق ہوئے۔ آپ کا مزار اقدس محلہ نور الدین پورہ، غازی پور (یو پی) میں مرجعِ خلائق ہے۔
——
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
ہے شبِ گور بھی اس گل سے ملاقات کی رات
——
شعروسخن
——
حضرتِ آسی غازی پوری جید عالم، با کمال فقیہ اور عظیم عارف و زاہد ہونے کے ساتھ رمز شناس صوفی شاعر بھی تھے۔شاعری میں شاہ افضل الٰہ آبادی، دائرہ شاہ اجمل، الٰہ آباد (تلمیذ ارشد:شیخ امام بخش ناسخ) سے شرف تلمّذ حاصل تھا۔ آپ کا دیوان ’عین المعارف‘ آپ کے شعری کمالات کا واضح ثبوت ہے۔
آپ کے کلام میں جذباتِ عشق کی پاکیزگی اور سوز و گداز کی طہارت ملتی ہے۔ آپ کی شاعری میں تصوف کی چاشنی بھی ہے اور تغزل کا سوز و گداز بھی؛ ان دونوں نے مل کر آپ کی غزلوں کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ میرؔ کا رنگ و آہنگ اور حافظؔ شیرازی کا صوفیانہ مذاق حضرتِ آسی کا طرّۂ امتیاز ہے۔ بقول مجنوں گورکھپوری:
”آسی کے یہاں تصوف اور تغزل، حقیقت اور مجاز دونوں یک مزاج ہو کر نمایاں ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حقیقت والے اس کو حقیقت سمجھتے ہیں اور مجاز والے مجاز۔“_(عین المعارف)
حضرت آسی غازی پوری قادر الکلام شاعر ہیں۔ اسلوب و زبان کے لحاظ سے ان کا بڑا مرتبہ ہے۔ ان کی شاعری عشق و محبت کی شاعری ہے۔ انھوں نے خیال بندی کا سہارا لے کر عشقِ حقیقی کو عشقِ مجازی کا جامہ پہنایا ہے۔ انھوں نے تصوف کے تمام اہم مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے؛ اسی لیے تو آپ کا کلام مجاز کے پردے میں حقیقت کا جلوہ دکھاتا ہے۔ تصوف کے مسائل کو سادگی کے ساتھ بہت سے شعرا نے برتا ہے، لیکن آسی نے صوفیانہ اقدار کی پاس داری جس انداز سے کی ہے، وہ انھی کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں معروف ناقد شمس الرحمٰن فاروقی نے دو ٹوک کہا ہے:
——
یہ بھی پڑھیں : تجھ کو اپنا کے بھی اپنا نہیں ہونے دینا
——
”حضرتِ آسی غازی پوری سکندر پوری کے کلام میں خواہ وہ غزل ہو خواہ رباعی، اردو زبان کی سلاست، شگفتگی اور برجستگی کے وہی انداز نظر آتے ہیں، جو ہمارے تمام بڑے شعرا کا خاصّہ ہیں۔ چوں کہ خیال بندی کے رنگ میں تجریدی، پیچیدہ لیکن غیر حقیقی مضامین بیش از بیش بندھتے ہیں، اس لیے متصوفانہ مضامین اور تصوف کی سرمستی اور ربودیت کے انداز خیال بندی سے بہت بعید ہیں۔ آسی سکندر پوری صاحب کا کمال یہ نہیں کہ وہ دبستانِ ناسخ کے میر ہیں، ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا، یعنی خیال بندی کے رنگ میں تصوف بھر دیا-“(بوستانِ آسی، جلد دوم)
حضرتِ آسی کی شاعری اخلاقیات کی شاعری ہے، جس میں تصوف کے اسرار و رموز ایسے پوشیدہ ہیں کہ قاری سرسری طور پر اسے پڑھ ہی نہیں سکتا، بل کہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے والی یہ شاعری ہے۔ آپ کی شاعری زبان و بیان کے لحاظ سے اہلِ نظر کو دعوتِ فکر دیتی ہے، یارانِ نکتہ داں کو صلائے عام دیتی ہے اور سالکانِ راہ طریقت کو منزلِ مقصود تک پہنچنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ آسی کا یہ دعویٰ بھی ان کی سخن فہمی کی راہیں ہم وار کرتا ہے ؏
——
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ میرا کام ہے یہ
قالبِ شعر میں آسیؔ فقط الہام ہے یہ
——
غالب کا مشہور شعر ہے ؏
——
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
——
مذکورہ شعر کو ذہن میں رکھ کرآسی کا درج ذیل شعر ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ؏
——
قطرہ وہی کہ رْو کشِ دریا کہیں جسے
یعنی وہ میں ہی کیوں نہ ہوں تجھ سا کہیں جسے
——
آسی کی شاعری کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ اس میں بھرتی کے اشعار نہیں پائے جاتے ہیں، یہ شاعری کیف واثر سے پُر ہے اور قاری کے دل و دماغ پر دیر پا اثرات مرتسم کرتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اس قدر رنگ چھپائے تو نہیں جا سکتے
——
منتخب کلام
——
اگر بیان حقیقت نہ ہو مجاز کے ساتھ
تو شعر لغو ہے آسی، کلام ناکارہ
——
تابِ دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
——
اصل فتنہ ہے قیامت میں بہارِ فردوس
جز ترے کچھ بھی نہ چاہے مجھے وہ دل دینا
——
وہاں بھی وعدۂ دیدار اس طرح ٹالا
کہ خاص لوگ طلب ہوں گے بارِ عام کے بعد
——
تمھارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے
نظر ٹھہرتی نہیں عارضِ منور پر
——
ہم نے مانا کہ وہ آنکھیں نہیں جادو آسیؔ
رات بھر وصل میں پھر ان کو جگاتے کیوں ہو
——
دل جو تھا خاص گھر اس کا نہ بنایا افسوس
مسجد و دَیر بنایا کرو، کیا ہوتا ہے
——
گھر چھُٹا، شہر چھٹا، کوچۂ دل دار چھٹا
کوہ و صحرا میں لیے پھرتی ہے وحشت دل کی
——
حُسن کی کم نہ ہوئی گرمیِ بازار ہنوز
نقدِ جاں تک لیے پھرتے ہیں خریدار ہنوز
طائرِ جاں قفسِ تن سے تو چھوٹا لیکن
دامِ گیسو میں کسی کے ہے گرفتار ہنوز
ساتھ چھوڑا سفرِ ملکِ عدم میں سب نے
ساتھ لپٹی ہی رہی حسرتِ دیدار ہنوز
اپنی عیسیٰ نفسی کی بھی تو کچھ شرم کرو
چشمِ بیمار کے بیمار ہیں، بیمار ہنوز
ہم بھی تھے روزِ ازل صحبتیِ بزمِ الست
بھولتی ہی نہیں وہ لذّتِ گفتار ہنوز
کیا خراباتیوں کو حضرتِ آسیؔ نہ ملے
کہ سلامت ہے وہی جبّہ و دستار ہنوز
——
اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی
پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی
مر کے بھی جذب دل قیس میں تاثیر یہ تھی
خاک اڑاتی ہوئی لیلیٰ سر تربت آئی
مسجدیں شہر کی اے پیر مغاں خالی ہیں
مے کدے میں تو جماعت کی جماعت آئی
وہ ہے کھڑکی میں ادھر بھیڑ نظر بازوں کی
آج اس کوچہ میں سنتے ہیں قیامت آئی
کبھی جی بھر کے وطن میں نہ رہے ہم آسیؔ
روز میلاد سے تقدیر میں غربت آئی
——
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
نا توانوں کے سہارے کو ہے یہ بھی کافی
دامن لطف غبار پس محمل دینا
ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں
کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا
ہائے رے ہائے تری عقدہ کشائی کے مزے
تو ہی کھولے جسے وہ عقدۂ مشکل دینا
ایک فتنہ ہے قیامت میں بہار فردوس
جز ترے کچھ بھی نہ چاہے مجھے وہ دل دینا
درد کا کوئی محل ہی نہیں جب دل کے سوا
مجھ کو ہر عضو کے بدلے ہمہ تن دل دینا
——
زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے
وہ یہاں تک جو آ نہیں سکتے
کیا مجھے بھی بلا نہیں سکتے
وعدہ بھی ہے تو ہے قیامت کا
جس کو ہم آزما نہیں سکتے
آپ بھی بحر اشک ہیں گویا
آگ دل کی بجھا نہیں سکتے
ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے
ان کو گھونگھٹ اٹھانے میں کیا عذر
ہوش میں ہم جو آ نہیں سکتے
مانگتے موت کی دعا لیکن
ہاتھ دل سے اٹھا نہیں سکتے
ان کو دعوائے یوسفی آسیؔ
خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے
——
وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے
نہ دیکھے تجھے کوئی اندھا نہیں ہے
کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا
گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے
کیا ہے وہاں اس نے پیمان فردا
یہاں ہے وہ شب جس کو فردا نہیں ہے
وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری
یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے
مری زیست کیوں کر نہ ہو جاودانی
جو مرتا ہے اس پر وہ مرتا نہیں ہے
وہی خاک اڑانا وہی گردشیں ہیں
یہ مانا کہ عاشق بگولا نہیں ہے
گلو گیر ہے ان بھوؤں کا تصور
گریبان میں اپنے کنٹھا نہیں ہے
ان آنکھوں کو جب سے بصارت ملی ہے
سوا تیرے کچھ میں نے دیکھا نہیں ہے
مری حسرتیں اس قدر بھر گئی ہیں
کہ اب تیرے کوچے میں رستا نہیں ہے
وہ دل کیا جو دلبر کی صورت نہ پکڑے
وہ مجنوں نہیں ہے جو لیلیٰ نہیں ہے
کمال ظہور تجلی سے جانا
جو پنہاں نہیں ہے وہ پیدا نہیں ہے
——
اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا
کوئی جہان میں کیا اور طرح دار نہ تھا
تری طرح مجھے دل پر تو اختیار نہ تھا
خرام جلوہ کے نقش قدم تھے لالہ و گل
کچھ اور اس کے سوا موسم بہار نہ تھا
وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیاد
کہ مثل تیر نظر آسماں شکار نہ تھا
غلط ہے حکم جہنم کسے ہوا ہوگا
کہ مجھ سے بڑھ کے تو کوئی گناہ گار نہ تھا
وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگہ یار ہوشیار نہ تھا
لحد کو کھول کے دیکھو تو اب کفن بھی نہیں
کوئی لباس نہ تھا جو کہ مستعار نہ تھا
تو محو گل بن و گلزار ہو گیا آسیؔ
تری نظر میں جمال خیال یار نہ تھا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ