آج ممتاز شاعر شوکت علی خاں فانی بدایونی کا یوم وفات ہے۔

(پیدائش: 13 ستمبر 1879ء – وفات: 27 اگست 1961ء)
——
شوکت علی فانی 1879ء میں بدایون میں پیدا ہوئے۔ فانی کے والد محمد شجاعت علی خان محکمہ پولیس میں انسپکٹر تھے۔ روش زمانہ کے مطابق پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انگریزی پڑھی اور 1901ء میں بریلی سے بی اے کیا۔
کالج چھوڑنے کے بعد کچھ عرصہ پریشانی کے عالم میں گزارا۔ لیکن شعر و سخن کی دلچسپیاں ان کی تسلی کا ذریعہ بنی رہیں۔ 1908ء میں علی گڑھ سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ لیکن وکالت کے پیشے سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ صرف والد کے مجبور کرنے پر وکالت شروع کی اور کچھ عرصہ بریلی اور لکھنؤ میں پریکٹس کرتے رہے۔ لیکن قانون سے لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے بحیثیت وکیل کامیاب وکیل ثابت نہ ہوئے۔
مجموعی طور سے فانی بدایونی کی زندگی پریشانی میں گذری۔ لیکن جس وقار اور فراخ دلی کے ساتھ انہوں نے مصائب کو برداشت کیا وہ انہی کا کام تھا۔ ان کی اس پریشان حالی سے متاثر ہو کر مہاراجا حیدرآباد نے انہیں اپنے پاس بلا لیا اور اسٹیٹ سے تنخواہ مقرر کر دی۔ پھر وہ محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے اور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اسی اثناء میں رفیقہ حیات فوت ہوگئیں۔ 1933ء میں جواں سال بیٹی کا انتقال ہو گیا۔ جس سے فانی بدایونی کے دل کو ٹھیس لگی۔
——
یہ بھی پڑھیں : فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے
——
آخر کار ساری زندگی ناکامیوں اور مایوسیوں میں بسر کی اور 82 سال کی عمر 1961ء میں وفات پائی۔
——
فانی بدایونی کی شاعری
——
فانی و ہ بلا کش ہوں غم بھی مجھے راحت ہے
میں نے غم ِ راحت کی صورت بھی نہ پہچانی
——
فانی بدایونی یاسیت کے امام مانے جاتے ہیں۔ حزن و یاس اُن کے کلام کاجزو اعظم ہے۔ سوز و گداز جو غزل کی روح ہے اس کی جلوہ فرمائی یا تو میر کے یہاں ہے یا فانی کے یہاں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرکے غم میں ایک گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔ اور فانی کا غم لذت بخش ہے۔ میر کے یہاں نشاط ِ غم کا عنصر نمایاں ہے۔ فانی کو مرگھٹ کا شاعر یا قبرستان کا منجاور کہنا حد درجہ ناانصافی ہے۔ ہاں وہ موت کا شاعر ضرور تھا۔ مگر موت ہی اُس کے نزدیک سرچشمہ حیات بن گئی تھی۔ غم نے نشاط کا روپ اختیار کر لیا تھا۔ لذت ِ غم سے اُس کا سے نہ معمور نظر آتا ہے۔ یہ اُس کے فن کا کما ل ہے کہ انسان غم سے فرار نہیں چاہتا بلکہ غم میں ایک ابدی سکون اور سرور پاتا ہے۔ زندگی کی نامرادیوں میں وہ درد اور میر کے ہمنوا ہیں۔
میر: ع ہم نے مر مر کے زندگانی کی
درد ع ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
فانی ع زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
بقول مجنوں گورکھپوری ،
” فانی بدایونی کی شاعری کو ”موت“ کی انجیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔“ بقول خواجہ احمد فاروقی،
”غم عشق اور غم روزگار نے مل کر دل کو آتش کدہ بنا دیا تھا یہی آگ کے شعلے زبان ِشعر سے نکلے ہیں اُن کی شاعر ی کا عنصر غالب غم و اندوہ ہے لیکن یہ غم روایت نہیں صداقت ہے۔“
——
یہ بھی پڑھیں : چند لمحے ہی سہی لیکن ملی ہے زندگی
——
فانی بدایونی نے 12 اگست 1941ءکو حیدرآباد میں وفات پائی۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر 62 بر س تھی اگر اُ ن کی شاعر ی پر نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی موت بہت پہلے واقع ہو چکی تھی۔ یا واقع ہونا شروع ہو چکی تھی۔ اور یہ باسٹھ سال ایک مرگ مسلسل کی طرح گزرے ہر لمحے انہیں موت کا انتظار تھا۔
——
فانی کی زندگی بھی کیا زندگی تھی یا رب
موت اور زندگی میں کچھ فرق چاہیے تھا
——
فانی بدایونی کا اصل نام شوکت علی خان تھا۔ شوکت تخلص ہو سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے فانی تخلص رکھ کر اس خواہش کی تسکین کا سامان کیا۔ جب کبھی ہم کو دامن بہار سے عالم ِیاس میں بوئے کفن آتی ہے تو فانی کی یاد آتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے موت ہی کو ”زندگی جانا تھا اور غم کو موضوع بنایا۔ بقول آمدی،
فانی ایک زندہ جنازہ ہیں جن کو یاس و الم اپنے ماتمی کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔“
ڈاکٹر سلا م سندیلوی”اپنی کتاب”مزاج اور ماحول‘ ‘ میں فانی کی غم و یاسیت کے متعلق لکھتے ہیں،
” فانی زندگی بھر گلشن ہستی کو مغموم نگاہوں سے دیکھتے رہے او رنسترن کو کافور و کفن سمجھتے رہے۔ اُن کی شاعری کی تخلیق اشک شبنم اور خون ِحنا سے ہوئی ہے۔ وہ زندگی بھر آہیں بھر تے رہے۔ اور مرتے دم تک سسکیاں لیتے رہے۔ فانی کو محض غم و یاس کی بدولت رفعت و عظمت حاصل ہوئی ہے اسی وجہ سے اُن کو یاسیت کا امام کہاجاتاہے۔“
——
چمن سے رخصت فانی قریب ہے شائد
کچھ آج بوئے کفن دامن ِ بہار میں ہے
——
فانی بدایونی غم ہی کو زندگی تصور کرتے تھے۔ اور فانی اس طرح زندگی گزارنے پر مجبو رتھے۔ جو اُن کی تمناؤں سے ہم آہنگ نہ تھی ان کی شخصیت چیختی تھی، دماغ احتجاج کرتا تھا۔ دل بغاوت کرتا تھا۔ ہڈیاں چٹختی تھی لیکن زمانے کی گرفت ڈھیلی نہ ہوتی تھی۔ کون جانتا ہے کہ فانی کو اپنی حالات نے جبر کا قائل بنا دیا ہے۔ اسزندگی سے صرف موت ہی نجات دلا سکتی تھی۔
——
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
——
آج روز وصال ِ فانی ہے
موت سے ہو رہے ہیں راز و نیاز
——
یہ بھی پڑھیں : فانی بدایونی کا یوم پیدائش
——
جب دیکھیے جی رہا ہے فانی
اللہ رے اس کی سخت جانی
——
اور اس کے سینکڑوں اشعار زندگی کو موت میں تبدیل کر لینا زندگی کو موت سمجھنا، مرنے سے پہلے مر جانا۔ یہ سب اُس خواہش مرگ کے پہلو ہیں اس وجہ سے فانی کا غم گہرا اور فلسفیانہ ہے۔
——
منتخب کلام
——
دیکھ فانیؔ وہ تری تدبیر کی میت نہ ہو
اک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے
——
چلے بھی آؤ وہ ہے قبرِ فانیؔ دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
——
شب فرقت کٹی یا عمر فانیؔ
اجل کے ساتھ آمد ہے سحر کی
——
مختصر قصہ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا
——
ہر شام شا م گور ہے ہر صبح صبح حشر
کیا دن دکھائے گردش لیل و نہار نے
——
ہر گھڑی انقلاب میں گزری
زندگی کس عذاب میں گزری
——
دیار مہر میں آپ کہتے مہر ہے فانیؔ
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا
——
غم اصل کائنات ہے دل جوہر حیات
دل غم سے غم ہے دل سے مقابل جگہ جگہ
——
جتنے غم چاہیے دے جا مجھے یا رب لیکن
ہر نئے غم کے لیے تازہ جگر پیدا کر
——
خاک فانی کی قسم ہے تجھے اے دشت جنوں
کس سے سیکھا تیرے ذروں نے بیاباں ہونا
——
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
عبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا
ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا
چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا
لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں
کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا
ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا
کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں
دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
——
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
خود جو نہ ہونے کا ہو عدم کیا اسے ہونا کہتے ہیں
نیست نہ ہو تو ہست نہیں یہ ہستی کیا ہستی ہے
عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے
وحشت دل سے پھرنا ہے اپنے خدا سے پھر جانا
دیوانے یہ ہوش نہیں یہ تو ہوش پرستی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے
——
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبح محشر ہم رکاب آنے کو ہے
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
ہائے کیسی کشمکش ہے یاس بھی ہے آس بھی
دم نکل جانے کو ہے خط کا جواب آنے کو ہے
خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہم راہ ہیں
کس ڈھٹائی سے مرے خط کا جواب آنے کو ہے
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
بھر کے ساقی جام مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے
خانۂ تصویر میں آنے کو ہے تصویر یار
آئنے میں قد آدم آفتاب آنے کو ہے
پھر حنائی ہونے والے ہیں مرے قاتل کے ہاتھ
پھر زبان تیغ پر رنگ شہاب آنے کو ہے
گدگداتا ہے تصور چٹکیاں لیتا ہے درد
کیا کسی بے خواب کی آنکھوں میں خواب آنے کو ہے
دیکھیے موت آئے فانیؔ یا کوئی فتنہ اٹھے
میرے قابو میں دل بے صبر و تاب آنے کو ہے
——
اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا
مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا
جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے
وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا
کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر
جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا
یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا
دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں
درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا
دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی
پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا
رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو
کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا
بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے
جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا
فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل
آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا