آج معروف شاعر جرم محمد آبادی کا یومِ پیدائش ہے

——
جناب جرم محمد آبادی کی ولادت 4 فروری 1903 میں ہوئی ۔ ہوش سنبھالا تو مشرقی طرزِ تعلیم شروع ہوئی ۔
مولانا محمد ہارون صاحب قبلہ مرحوم مصنف علوم القرآن ایسے فاضل جیّد کے درس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا ۔ 1920 ء میں کہ ہنوز سلسلۂ تعلیم جاری تھا کہ پدر شفیق کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور فکرِ معیشیت کی سخت و دشوار منزل سامنے آئی ۔
یہی تگ و دو دیس سے پردیس میں لائی اور آخر کار ہندوستان کے عظیم شہر کلکتہ میں پہنچا دیا ۔
کلکتہ میں روزگار کا سلسلہ شروع ہوا جو تادمِ آخر قائم رہا۔
طبیعت اوائل عمر سے ہی شعر و سخن کی جانب مائل تھی ۔ فطری ذوق مکروہاتِ زمانہ میں دب کر اور ابھرتا ہے ۔
زندگی کے مصائب و شدائد کے باوجود یہ ذوقِ فطری کم نہ ہوا بلکہ روز افزوں ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ استادی کی منزل تک پہنچا دیا ۔
اگرچہ فرائضِ منصبی کی بجا آوری بہت کچھ مانع ہوتی ہے لیکن جوشِ طبع اپنے اظہار کے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے ۔
جرم محمد آبادی صاحب خود اپنے لیے بھی فکرِ سخن کرتے رہے اور تلامذہ کو بھی اصلاح سے مستفیض فرماتے رہے ۔
اس وقت میں شاعری کو فن سمجھا جاتا تھا اور فن حاصل کرنے کے لیے کسی استاد کا ہونا لازمی مانا جاتا تھا ۔ چنانچہ جرم صاحب نے بھی ابتدا میں جناب سامریؔ غازی پوری کی شاگردی اختیار کی اور اس کے بعد خیام الہند جناب ریاضؔ خیر آبادی سے استفادہ کیا ۔
جناب ریاضؔ کی شاگردی نے شاعری میں خاص رنگ و کیف پیدا کیا ۔ ریاضؔ صاحب کے انتقال کے بعد جرم صاحب کچھ عرصہ تک ایک پختہ کار اور صاحب فکر و نظر شاعر کی حیثیت سے سامنے آتے رہے ۔
اسی زمانے میں علامہ آرزو لکھنوی کلکتہ تشریف لے گئے ۔ جرم صاحب نے جناب مرحوم کے کمالِ فن کا اندازہ کیا ۔ خدمت میں حاضر ہوئے اور بے تکلف تمنائے شاگردی کا اظہار کیا اور بہت اصرار کے بعد حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے ۔ یہ 1936 ء کا زمانہ تھا ۔
علامہ آرزو کی اصلاح اور جرم محمد آبادی سا پختہ اور پر مغز شاعر ، چند روز میں طبیعت کا رنگ ہی کچھ اور ہو گیا تھا ۔
جرم صاحب خود فرماتے ہیں کہ علامہ مرحوم کی شاگردی نے میرے لیے نئی راہِ فکر پیدا کر دی ۔ اس کے بعد وہ علامہ مرحوم کی ہی شاگردی کا اعلان کرتے رہے ۔ وہ بڑے فخر کے ساتھ اس کا اظہار اپنی شاعری میں بھی کرتے تھے :
——
گدائے آستانِ آرزوؔ کا نام پایا ہے
بنی ہے جرمؔ میری بے نشانی ہی نشاں میرا
——
ممکن نہیں کہ ترک کروں رنگِ آرزوؔ
اے جرمؔ سنگریزے چنوں کیوں گُہر کے بعد
——
جرم کا فخر اپنی جگہ بالکل درست ہے ۔ جرم صاحب نے مرثیہ اور مثنوی کے علاوہ کم و بیش ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔
کلامِ جرم کا بہت ہی مختصر حصہ منظرِ عام پہ آ چکا ہے مگر جو کچھ ہے یہی دعوتِ فکر و نظر کے لیے کافی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو
——
علامہ سید اختر علی تلہری از شعلۂ رنگین
——
جناب جرم محمد آبادی کا کلام زبان کی لغزشوں سے پاک ہے ، خیال و بیان میں الجھاؤ نہیں ہے ، ثقیل ترکیبیں اور حدودِ اعتدال سے متجاوز استعارے ان کی متاعِ سخن میں نہیں ہیں ۔ وارفتگی و برشستگی کے آثار ان کے تغزل میں نہیں ملتے لیکن ٹھہراؤ اور متانت کی کیفیتیں اس میں خاصی پائی جاتی ہیں ۔
خیالات کی پاکیزگی اور جذبات کی طہارت کے نشان ان کی غزل کی ہر منزل میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اُن کی عروسِ شعر چنداں ملیح نہ سہی ، زیبا انداز ہے ، جاذبِ نظر ہے ۔
جنابِ جرم محمد آبادی تیس پینتیس سال سے شعر و سخن کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں ، ابتدا میں ان کا کلام روایتی تغزل سے زیادہ وابستہ رہا لیکن جوں جوں مشقِ سخن بڑھتی گئی اس وابستگی کے اثرات خاصی حد تک کم ہو گئے ۔
1940 ء کے بعد والی غزلوں میں مختلف حقائق کی حسین ترجمانی ملتی ہے ۔ ندرتِ تخیل کی تصویریں پائی جاتی ہیں ، کہیں کہیں تفکر کی لطیف آمیزش نے انہیں حکیمانہ رنگ دے دیا ہے ۔ ان کی غزل کے موضوع میں وسعت پیدا ہو گئی ہے ۔ ان کے تغزل کا مزاج زیادہ روادارانہ ہو گیا ہے ، اس کا رنگ زیادہ نکھر گیا ہے ۔ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
——
توبہ کو غرقِ جام کیا ہے کبھی کبھی
فطرت کا احترام کیا ہے کبھی کبھی
——
خود اپنی کم نگاہی دشمنِ آرامِ دل نکلی
جسے گرداب سمجھے تھے حقیقت میں وہ ساحل تھا
——
یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے خزاں کی بنیاد رکھ رہے ہیں
کھلے گا رازِ بہارِ گُلشن ، طلسم ٹوٹے گا جب کلی کا
——
بھرے گا وہ پھولوں سے کیا اپنا دامن
جو کانٹوں سے گلشن میں اُلجھا رہے گا
——
کیوں چاک گریباں ہوئے آتے ہی جوانی
پھولوں میں کچھ رنگ ہمارا تو نہیں تھا
——
نہ ہوتی دھوپ تو سائے کی قدر کیا ہوتی
کرم کی شان دوبالا ہوئی عتاب کے بعد
——
تیری گلی کی دھن میں جو نکلے اس کو اتنا ہوش کہاں
راہ میں کتنے کانٹے بچھے ہیں ، پاؤں میں کتنے چھالے ہیں
——
کیا بادہ و ساغر کی حاجت ، محفل کی فضا گرمانے کو
ساقی کی نشیلی آنکھوں کا پُر کیف نظارا کافی ہے
——
کہیں جینے کی تدبیروں پہ خوشیاں
کہیں مرنے کا بھی ماتم نہیں ہے
——
اگرچہ جنابِ جُرمؔ نے اپنے مشقِ سخن کے طولانی عرصے میں زیادہ تر شاعری کی صنفِ جمیل غزل سے ہی تعلق رکھا ہے لیکن دوسرے اصنافِ سخن کی طرف سے بھی بے نیازانہ نہیں گزرے ۔ نظمیں بھی کہی ہیں ، قصیدے بھی لکھے ہیں اور رباعیات بھی لیکن غزل کے مقابلے میں منظومات کا پلہ ذرا سبک ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز کلاسیکل شاعر عزیز لکھنوی کا یوم وفات
——
حقیقتاََ وہ غزل کے شاعر ہیں ۔ منظومات ان کی قادر الکلامی کا نتیجہ ہیں ۔
——
منتخب کلام
——
سنائے جا رہا ہوں آپ بیتی
کسی کو اعتبار آئے نہ آئے
——
ممکن نہیں کہ ترک کروں رنگِ آرزو
اے جُرمؔ سنگریزے چُنوں کیوں گُہر کے بعد
——
جنوں کے دامنِ امکان میں سب کچھ
خرد کی جیب میں کچھ بھی نہیں
——
ہوائے شوق میں ہوا امتیازِ نیک و بد کیونکر
جنوں کے ہاتھ میں ہر شے گریباں ہو کے رہتی ہے
——
افسردہ دل اٹھا نہ سکا لذتِ حیات
دھارے پہ آئی ناؤ تو طوفاں نہیں رہا
——
پہن کر آج اسے اہلِ خرد ہُشیار بنتے ہیں
وہ جامہ جس کو ہم دیوانہ بنتے ہی اُتار آئے
——
یہ قول عقل کا ہے مرا فیصلا نہیں
محتاج جو ثبوت کا ہو وہ خدا نہیں
——
پائے تلاش تھک گئے ، عقل نے ہار مان لی
جس کے پتے ہیں بے شمار ، اس کا پتا نہ پا سکے
——
یہ بھی پڑھیں : تری صورت حسیں تر از مہِ کامل سمجھتے ہیں
——
طالب نے جو مطلوب کا نقشہ کھینچا
ثانی کوئی ملتا نہیں ، ایسا کھینچا
غالب تھا کثافت پہ لطافت کا شعور
اس واسطے سائے نے کنارا کھینچا
——
ہر لفظ محبت کا فسانہ ہو جائے
فریاد بھی دلچسپ ترانہ ہو جائے
اے جُرمؔ عجب شے ہے جنونِ حکمت
جو کہدوں وہ دستورِ زمانہ ہو جائے
——
عنوان بدلتے ہی کہانی پلٹی
بہتے ہوئے دھارے کی روانی پلٹی
اے جُرمؔ محبت نے جو پہلو بدلا
جاتی ہوئی رستے سے جوانی پلٹی
——
پہیلی کون بوجھے گا جواب ناز جاناں کی
ہم اس ہوں کو سمجھتے ہیں نہیں کی اس نے یا ہاں کی
ازل سے یہ امانت ہے جنون فتنہ ساماں کی
خرد کے ہاتھ لگ سکتی نہیں دھجی گریباں کی
اگر موجوں سے ڈر کے ہم بھی ساحل ہی پہ رہ جاتے
تو دنیا پر حقیقت حشر تک کھلتی نہ طوفاں کی
گرفتار بلا کے حق میں وہ زنجیر بنتا ہے
جو نالہ نیند اڑا دیتا ہے زنداں کے نگہباں کی
کہے کچھ تو بھرم جائے جو چپ بیٹھے تو ہوک اٹھے
ضرورت موت بن جاتی ہے غیرت دار انساں کی
کچھ ایسے پھول ہم نے بھی چنے تھے اپنے دامن میں
جو اپنے ساتھ رونق لے گئے گلزار امکاں کی
وہ دیوانہ مرے نزدیک ہوشیاروں سے اچھا ہے
حقیقت جس نے کچھ سمجھی نہیں تار رگ جاں کی
یہ مجبوری تماشا چشم عالم میں بنا ورنہ
خوشی سے دھجیاں کوئی اڑاتا ہے گریباں کی
چمن کیا ہے نمونہ میرے اک رنگیں تصور کا
نشاط کار نے صورت بدل دی ہے بیاباں کی
نکھاریں گے یہی کچھ پھول اور کانٹے کی رنگت کو
پھٹے دامن پہ جو تاریخ لکھیں گے گلستاں کی
مقدر میں جو تھی اے جرمؔ قید زیست کی سختی
عناصر کے روابط بن گئے دیوار و زنداں کی
——
نہیں معلوم وہ اپنی وفا کو کیا سمجھتے ہیں
ترے انکار کرنے کو بھی جو وعدا سمجھتے ہیں
زمانے کو تمہارا اور تمہیں اپنا سمجھتے ہیں
اگر ایسا سمجھتے ہیں تو کیا بے جا سمجھتے ہیں
نہ پوچھو ہم محبت کی خلش کو کیا سمجھتے ہیں
یہ وہ نعمت ہے جس کو حاصل دنیا سمجھتے ہیں
پہنچ جانے میں ان تک ہے تو بس یہ زندگی حائل
ہم اپنی سانس کو بھی راہ کا کانٹا سمجھتے ہیں
زمیں سے سر اٹھاتے ہی نگاہیں چار ہو جائیں
حقیقت میں اسی سجدے کو ہم سجدہ سمجھتے ہیں
سنانا تھا دل بیتاب کا قصہ سنا ڈالا
وہ سن کر دیکھیے کیا سوچتے ہیں کیا سمجھتے ہیں
انہیں کے واسطے ہیں امتحان عشق کی قیدیں
جو اپنی ہستئ موہوم کا منشا سمجھتے ہیں
وفاداروں سے پوچھو نرخ اپنی جنس الفت کا
اگر سر دے کے بھی مل جائے تو سستا سمجھتے ہیں
انہیں کے سر رہا کرتا ہے مہرا نا خدائی کا
جو قطرے کی حقیقت کو بھی اک دریا سمجھتے ہیں
گلہ بے سود ہے اے جرمؔ بے مہریٔ عالم کا
برا کچھ لوگ کہتے ہیں تو کچھ اچھا سمجھتے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : جرم کی کھو شرم گینی یا رسول
——
دکھاوے کے لئے اعلان فیض عام ہوتا ہے
مگر اک خاص ہی حلقہ میں دور جام ہوتا ہے
مورخ یوں جگہ دیتا نہیں تاریخ عالم میں
بڑی قربانیوں کے بعد پیدا نام ہوتا ہے
اسی کو سوچنا پڑتی ہیں تدبیریں رہائی کی
جو طائر جرم آزادی میں زیر دام ہوتا ہے
حباب بحر کی صورت ابھرنے کی ضرورت کیا
نمود بے محل کا جب برا انجام ہوتا ہے
کوئی سرشار ہو جائے کوئی اک بوند کو ترسے
انہیں باتوں سے ساقی مے کدہ بدنام ہوتا ہے
کہیں سبزے کو روندا جا رہا ہے لہلہانے پر
ہیں پھولوں کا رنگ و بو پہ قتل عام ہوتا ہے
زباں کیوں کھولتے ہو جرم یہ دنیا ہے الفت کی
اشاروں ہی اشاروں میں یہاں سب کام ہوتا ہے
——
نام رکھا ہے فسوں گر نے سخن ساز مرا
گھونٹے دیتی ہے گلا اب مری آواز مرا
رہ گیا راز کسی طرح اگر راز مرا
بے نیازی بھی اٹھائے گی تری ناز مرا
آج ہے موت بھی وہ عشق جو کل تک تھا حیات
مختلف کتنا ہے انجام سے آغاز مرا
بے پیے مست ہوا پی کے میں بہکا نہ کبھی
وہ تھی ساقی کی کرامت پہ ہے اعجاز مرا
ناوک ناز سے اڑتے ہیں نشانے دل کے
اور پردے میں ابھی ہے قدر انداز مرا
دھڑکنیں اب بھی ہیں ویسی ہی شکستہ دل کی
بے صدا ہو نہ سکا ٹوٹ کے بھی ساز مرا
عذر بے بال و پری تھا جو قفس توڑ چکا
دیکھ کے رہ گئی منہ حسرت پرواز مرا
روز اک تازہ بلا آتی ہے دل کے ہاتھوں
جرمؔ آمادہ ہے دم لینے پہ دم ساز مرا
——
عشق ناکام کا دستور تمہیں کیا معلوم
تم ہو اس سے حد بہت دور تمہیں کیا معلوم
غم کی دنیا سے ہو تم دور تمہیں کیا معلوم
آہ کیوں کرتے ہیں مجبور تمہیں کیا معلوم
زخم دل خوگر آزار کا بڑھتے بڑھتے
کس طرح بنتا ہے ناسور تمہیں کیا معلوم
ختم ہونے کو ہے ہنگامۂ طوفان حیات
درد کیوں ہوتا ہے کافور تمہیں کیا معلوم
عشق سرجوش نے کیا دل پہ ستم توڑے ہیں
نشۂ حسن سے ہو چور تمہیں کیا معلوم
تم الگ ہو گئے پردے سے گرا کر بجلی
کس پہ کیا گزری سر طور تمہیں کیا معلوم
اپنے شعروں میں ادا کرکے تمہاری شوخی
ہو گیا جرمؔ بھی مشہور تمہیں کیا معلوم
——
تذکرہ چھیڑ دیا آپ نے کیوں جانے کا
گھر میں نقشہ نظر آنے لگا ویرانے کا
جرم الفت نہیں اظہار تمنا لیکن
ہاتھ پھیلانا بھی شیوہ نہیں دیوانے کا
ظلم کے بعد ہوا صبر کا درجہ روشن
غم کیا شمع نے کس حسن سے پروانے کا
دشت گردی میں گریباں کے اڑائے پرزے
پاؤں کے ساتھ چلا ہاتھ بھی دیوانے کا
اب سمجھ بوجھ کے اس دور میں پینا اے جرمؔ
رنگ اچھا نظر آتا نہیں میخانے کا
——
حوالہ جات
——
تحریر و شعری انتخاب از شعلۂ رنگین ، مصنف : جرم محمد آبادی
شائع شدہ : 1961 ، متفرق صفحات