آج اردو کے نامور صحافی، ادیب اور شاعر محمود شام کا یوم پیدائش ہے

——
جناب محمود شام کا اصل نام محمد طارق محمودہے اور وہ 5 فروری 1940ء کو راجپورہ (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد جھنگ میں سکونت اختیار کی۔ متعدد جرائد اور اخبارات سے وابستہ رہے جن میں روزنامہ نوائے وقت، ہفت روزہ قندیل اور ہفت روزہ اخبار جہاں کے نام شامل ہیں۔
انہوں نے خود بھی کئی معیاری جرائد جاری کیے۔ روزنامہ جنگ کے گروپ ایڈیٹر رہے۔
شعری مجموعوں میں کارڈیو اسپازم، آخری رقص، چہرہ چہرہ میری کہانی، نوشتہ دیواراور قربانیوں کا موسم کے نام اور نثری کتابوں میں لاڑکانہ سے پیکنگ ،روبرو، برطانیہ میں خزاں، کتنا قریب کتنا دور، بھٹو کے آخری ایام، نئی آوازیں، تقدیر بدلتی تقریریں، محلوں میں سرحدیں، خواتین و حضرات، شب بخیر، بھارت میں بلیک لسٹ، امریکا کیا سوچ رہا ہے اور مملکت اے مملکت کے نام شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : سکوں پہ واجب رہے وہ دل میں خرد پہ لازم رہے وہ حاضر
——
حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2009ء کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کرلینے سے انکار کر دیا کہ وہ قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں اور انہوں نے کسی قسم کا سرکاری اعزاز پہلے بھی قبول نہیں کیا تھا اور اب بھی اس اعزاز کو قبول نہیں کریں گے۔ کراچی میں قیام پذیر ہیں۔
——
محمود شام کی آپ بیتی، ایک جائزہ : تحریر فاکہہ قمر
——
نام ہونا ایک بات ہے اور نامور ہونا اس سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان کی صحافت کا ایک بڑا، معتبر اور جانا مانا نام محمود شام بلاشبہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے مجھے جس قدر حیرت کے جھٹکے لگے ہیں، یہ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اس قدر مفصل اور جامع معلومات ان کے متعلق جان کر بے اختیار دل چاہا کہ اے کاش! ان سے ملنے کا شرف حاصل ہو، کچھ براہ راست سیکھنے کو ملے۔
بڑی حیران کن بات ہے کہ ایک شخص جس کا بچپن اور لڑکپن دو ملکوں کی تقسیم کی نذر ہو گیا ہو، اس کی نفسیات پر ہمیشہ کے لیے ایک منفی تاثر چھوڑ جاتا ہے، ساری زندگی وہ اسی ٹراما کے گرد گھومتا رہتا ہے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ محمود شام کی آپ بیتی پڑھنے کے دوران مجھے کوئی منفی پہلو نظر نہیں آیا۔ زندگی کے ہر موڑ پر مثبت پہلو اور سوچ عیاں ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ عموماً بچوں سے بچپن میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟ محمود شام صاحب کا ذہن، سوچ اور نظریہ بچپن سے ہی پختہ اور شفاف ہے، وہ اپنے مستقبل کے لیے پرعزم رہے اور انہوں نے یہ بات ثابت بھی کر دکھائی اپنی عملی زندگی میں۔
محمود شام کہتے ہیں: کسی انگریزی کتاب میں یہ جملہ پڑھا تھا کہ: پبلشر کو عام پڑھنے والوں سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ کہانی کا انجام کیا ہے؟ اس بات نے گویا مجھ پر سحر طاری کر دیا کہ دوسروں سے پہلے جاننے اور علم حاصل کرنے کا دوسروں سے آگے بڑھنے کا شوق تھا۔ پہلے خود جان کر دوسروں کو بھی اس کا حصہ دینا چاہتا ہوں، اپنی معلومات ان سے بانٹنا چاہتا ہوں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز افسانہ نگار سید قاسم محمود کا یوم پیدائش
——
کیا ہی خوبصورت خیالات ہیں۔ آج کل کہاں لوگ دوسروں کے لیے سوچتے ہیں؟ ہر کوئی اپنی ذات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ ایسے میں یہ معلومات حاصل کرنے کے شیدائی ہیں لیکن خود تک محیط رکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں بلکہ سب کو اس سے فیض یاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واہ! کیا خوب انسان ہیں۔
محمود شام صاحب تاریخی شہر جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جھنگ جس کی گلیاں ادب، ثقافت اور شعروسخن کا مرکز جانی جاتی ہیں۔ وہاں مختلف ادبی شخصیت کے زیر شفقت میں رہے۔ بے شمار ادبی لوگوں سے ان کے مراسم استوار ہوئے، سب سے سیکھتے چلے گئے اور اپنی صاحیتوں کا لوہا منواتے گئے۔ بچپن سے جس چیز میں دلچسپی لی اسی کو بطور پیشہ اپنایا۔ قلم کو ہتھیار بنایا اور ادب کے میدان میں فتوحات حاصل کرتے چلے گئے۔ بڑی چھوٹی سی عمر میں اللہ نے مطالعہ اور ادب کے شغف کی بنا پر بہت بڑی ذمہ داریوں اور عہدوں سے نوازا۔ ان کے سر سہرا ہے کہ انہوں نے ملک کے بڑے اور نامور جرائد کی کمان سنبھالی اور انہیں عروج پر پہنچا دیا۔ دوران تعلیم علامہ اقبال کی نسبت کی بنا پر فلسفہ جیسا خشک مضمون کا انتخاب کیا لیکن مزاج میں ذرا بھی خشک مزاجی نہیں تھی۔
بقول محمود شام: کچھ لوگ مجھ پر خشک مزاجی اور کسی قدر مغروریت کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ میں تو عجزو انکساری کا دامن نہیں چھوڑتا، ہاں میرے اندر کسی حد تک غرور ہے لیکن اپنی انا کا غرور ہے، پندار کا ہے، خود داری کا ہے، صاحب اقتدار کے سامنے سر ضرور غرور سے بلند رکھتا ہوں لیکن اپنی کلاس کے لوگوں سے سر جھکا کر قدم ملا کر بات کرتا ہوں۔ اگر کسی کی میرے مزاج سے کوئی دل آزاری ہوئی ہے تو دلی معذرت چاہتا ہوں۔
کیا ہی خوبصورت انداز اور سوچ کا پیراہن ہے، یہ نظریہ کسی عام انسان کا نہیں ہو سکتا ہے، یہ بہت خاص شخص کی شخصیت کو واضح کرتے الفاظ ہیں۔ کہاں ہیں آج کل ایسے لوگ؟ یہی تو ہمارے عظیم لوگ ہیں۔ انہوں نے صرف رسائل یا صحافت تک خود کو محدود نہیں رکھا، رسالے کی اشاعت کرنے پر آئے تو بے مثال کام کی بنیاد رکھ ڈالی۔ شاعری کی تو لوگوں کا دل موہ لیا، سفرنامے اور رپورٹ لکھنے پر آئے تو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غیر ملکی زبانوں میں شاعری مجموعوں کا ترجمہ کر کے سب کو حیرت میں مبتلا کر ڈالا۔ کہانیوں کا ترجمہ کرنا آسان ہے لیکن شاعری کا ترجمہ، چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے۔ غرض کوئی ایسا کام نہیں جو انہوں نے نہ کیا ہو۔ محمو د شام صاحب ہر فن مولا کے مصداق اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : مرے آقا زمینیں اور زمانے آپ کے ہیں
——
اپنے پہلے رسالے ”گلستان” کی اشاعت کے موقع پر محض پنسل اور کاربن پیپر کو کارآمد بنا کر دس کاپیاں تیار کیں۔ وسائل کی کمی کے باعث بھی کام اور جذبے میں کوئی کمی نہیں آنے پائی۔ ان کی آپ بیتی میں جگہ جگہ حیرتوں کے جھٹکے ہیں ہم جیسے لوگوں کے لیے، ایسا لگتا جیسے کوئی افسانوی کردار ہے جو بغیر کسی مفاد یا غرض کے کام کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بے غرض کام کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت انمول ہوتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی بامقصد کاموں میں وقف ہو جاتی ہے اور شومئی قسمت خاص کام لکھے بھی ان کے ذمے جاتے ہیں جیسے نوشاد عادل ایک زندہ مثال ہیں، انوکھے اور اچھوتے آئیڈیاز کی بنا پر۔
انسان کی فطری خواہش ہے جب وہ کام کرے تو اس کو سراہا جائے، ایوارڈ کی بدولت لیکن یہ اللہ کا بندہ اس قدر بے نیاز ہے کہ جب ان کو ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ: مجھے کسی قسم کا ایوارڈ نہیں چاہیے نہ میں خود کو اس کا مستحق سمجھتا ہوں۔ مجھے کسی بھی ایوارڈ سے وابستہ نہ کیا جائے اور بعد از مرگ بھی کوئی ایوارڈ میرے نام نہ کیا جائے۔ اس قدر بے نیاز اور سادہ دل جو کام کو جنون کی مانند کریں اور کرتے ہی چلے جائیں۔ بغیر کسی معاونت، غرض یا ایوارڈ کے، آج کے اس دور میں یہ بہت مشکل امر ہے۔ ایسے لوگ بہت بے لوث اور نایاب ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کی کاوش کا اصل صلہ یہ ہے کہ اس پر عام عوام اپنی داد سے نوازیں۔
اس عظیم انسان نے 1965 کی جنگ آزادی کے موقع پر ملی نغمے لکھے، آرمی اور نیوی کے جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کی خاطر، ان کو اس قدر پذیرائی ملی کہ ان کو باقاعدہ ریڈیو پر گایا گیا، عام لوگوں کی زبانوں پر وہ ملی نغمے عام تھے، ایک مدت تک ان کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ اسی کو محمود شام اپنی اصل کامیابی قرار دیتے ہیں۔ محمود شام صاحب کے حوالے سے کئی دل چسپ اورحیرت انگیز واقعات آپ بیتیاں کے مجموعے میں شامل ان کی آپ بیتی سے پڑھ سکتے ہیں اور میری مانند ان کے گرویدہ ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے جو لکھا ہے دل سے لکھا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : جس کو خدا نے اپنا محبوب چن لیا ہے
——
منتخب کلام
——
کہیں آگ بانٹتے ہیں ، کہیں خون چاٹتے ہیں
نئے شعبدہ گراں سے یہ زمانہ بے خبر ہے
——
زمانہ سرکش ہے ، شہر برہم ہے ، اجنبی ہیں تمام اپنے
ہر ایک دستے پہ گرم خوں کے دیے جلانا ہی زندگی ہے
——
فیصلے کرنے لگے خود ہی سبھی فریادی
شہ کا دربار تو کیا جانیے ، کب لگتا ہے
——
ایک جنگل جس میں انساں کو درندوں سے ہے خوف
ایک جنگل جس میں انساں خود سے ہی سہما ہوا
——
چاندنی شب تو جس کو ڈھونڈنے آئی ہے
یہ کمرہ وہ شخص تو کب کا چھوڑ گیا
——
اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا
——
یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت
——
نظر کسی کی نظر سے نہیں الجھتی تھی
وہ دن بھی تھے کہ یوں ہی زندگی گزرتی تھی
ستارے اپنے لیے خواہشوں کی منزل تھے
حسین رات ہمیں چاندنی پلاتی تھی
رہے تھے اپنی ہواؤں میں ایک عمر مگر
بکھر پڑے تو ہر اک گام اپنی ہستی تھی
یہی بہت تھا کہ کچھ لوگ آ کے کہتے تھے
وہ میرا ذکر بہت مخلصانہ کرتی تھی
نظر میں پیار بھی تھا اور تکلفات بھی تھے
کہا کریں گے کبھی ہم عجیب لڑکی تھی
خموش رہتی تھی گہرے سمندروں کی طرح
وہ آنکھیں جن سے نری شاعری بکھرتی تھی
اسے ملے تو پھر اس بات کا سراغ ملا
ہمیں یہ زندگی کیوں اتنی پیاری لگتی تھی
نہ جانے کتنے ہی صفحوں پہ دل بکھیرا مگر
نہ کہہ سکے تو وہ اک بات ہی جو کہنی تھی
——
راحت نظر بھی ہے وہ عذاب جاں بھی ہے
اس سے ربط لذت بھی اور امتحاں بھی ہے
فاصلے مٹے بھی ہیں اور کچھ بڑھے بھی ہیں
یہ سفر ضروری ہے اور رائیگاں بھی ہے
عمر بھر کی الجھن دے ایک پل کا نظارہ
تیرا غم حقیقت بھی اور بے نشاں بھی ہے
تیری میٹھی باتوں میں جھیل جھیل آنکھوں میں
آگ بھی سلگتی ہے درد سے اماں بھی ہے
طے کریں تو ہم کیسے فاصلے دل و جاں کے
ایک یہ انا کا پل اپنے درمیاں بھی ہے
لاکھ میں تجھے بھولوں لاکھ تو مجھے بھولے
ایک رشتۂ بے نام اپنے درمیاں بھی ہے
عشق دل میں طغیانی برف برف ہونٹوں پر
سرپھری بھی ہے چاہت اور بے زباں بھی ہے
تیری زندگی سرگرم میری زندگی الجھن
رقص میں بھی ہے خواہش اور سرگراں بھی ہے
شامؔ جانے کیوں ہم نے سی لیا ہے ہونٹوں کو
ورنہ اپنے ہاتھوں میں وقت کی عناں بھی ہے
——
کس رنگ میں ہیں اہل وفا اس سے نہ کہنا
کیوں پھول ہیں خوشبو سے جدا اس سے نہ کہنا
ڈوبی نہیں مدت سے جو نظروں کے بھنور میں
اس آنکھ کا جو حال ہوا اس سے نہ کہنا
یادوں کے در و بام پہ اک نام وہی نام
کیا جانے کئی بار لکھا اس سے نہ کہنا
لپٹی تھی دریچوں سے حسیں چاندنی کیسے
کیا کیا مجھے تاروں نے کہا اس سے نہ کہنا
بجھتی ہی نہیں پیاس یہاں جلتے لبوں کی
بن برسے گزرتی ہے گھٹا اس سے نہ کہنا
بکھری تھیں کبھی رنگتیں اس سونے نگر میں
اب شامؔ نہ خوشبو نہ ہوا اس سے نہ کہنا
——
مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت
کہ دیکھ لوں تجھے پل بھر مجھے یہی ہے بہت
یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت
کچھ اس خطا کی سزا بھی تو کم نہیں ملتی
غریب شہر کو اک جرم آگہی ہے بہت
کہاں سے لاؤں وہ چہرہ وہ گفتگو وہ ادا
ہزار حسن ہے گلیوں میں آدمی ہے بہت
کبھی تو مہلت نظارہ نکہت گزراں
لبوں پہ آگ سلگتی ہے تشنگی ہے بہت
کسی نے ہنس کے جو دیکھا تو ہو گئے اس کے
کہ اس زمانے میں اتنی سی بات بھی ہے بہت
——
نظم : لیپ کا سال
اس برس ایک دن زیادہ ہے
کام کر لیں بہت ارادہ ہے
لیپ کا سال جب بھی آتا ہے
ایک دن اور ساتھ لاتا ہے
چار پر جب اسے کریں تقسیم
پورا پورا ہی بٹ یہ جاتا ہے
اس برس ایک دن زیادہ ہے
کام کر لیں بہت ارادہ ہے
فروری ہوگی اب کے انتیس کی
برتھ ڈے ہوگی جانے کس کس کی
تین برسوں سے جو رکی ہوگی
خوش رہیں برتھ ڈے ہو جس جس کی
اس برس ایک دن زیادہ ہے
کام کر لیں بہت ارادہ ہے
ہر نیا سال ایک نعمت ہے
وقت جتنا بھی ہے وہ دولت ہے
خرچ اس کو کریں محبت سے
پھر تو اس میں بہت ہی برکت ہے
اس برس ایک دن زیادہ ہے
کام کر لیں بہت ارادہ ہے
تین سو ساٹھ جمع چھ دن اور
کتنی دولت ہیں یہ کرو تو غور
جو نہیں ہو سکا ہے پچھلے سال
کام کرنا ہے اب کے وہ ہر طور
اس برس ایک دن زیادہ ہے
کام کر لیں بہت ارادہ ہے