اردوئے معلیٰ

آج ممتاز محقق, دانشور, شاعر اور مترجم پرتو روہیلہ کا یوم پیدائش ہے

پرتو روہیلہ(پیدائش: 23 ستمبر 1933ء – وفات: 29 ستمبر 2016ء)
——
اردو کے ممتاز محقق، دانشور، شاعر، مترجم اور غالب کے فارسی مکتوبات کے اردو ترجمے اور اپنے ”دوہے” کے لیے مشہور جناب پرتو روہیلہ کا اصل نام وہ 23 نومبر 1932ء کو روھیل کھنڈ (یوپی بھارت) کے مشہور شہر بریلی میں ایک پٹھان زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسبی تعلق حافظ رحمت خان والئی روھیل کھنڈ سے ہونے کے سبب اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ روہیلہ بھی لکھتے تھے۔ چنانچہ ادبی نام پرتو روہیلہ ٹھہرا۔
پرتو روہیلہ کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1950ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ مستقر بنوں صوبہ پختونخواہ تھا۔ اسلامیہ کالج پشاور، لاء کالج پشاور اور پشاور یونیورسٹی سے بی اے آنرز ایم اے ایل ایل بی کیا۔
مقابلے کے امتحان میں منتخب ہو کر 1957ء میں پاکستان ٹیکسیشن سروس میں شامل ہوئے جہاں سے 1993ء میں بحیثیت ممبر سنٹرل بورڈ آف ریونیو ریٹائر ہوئے۔ چند سال وزیراعظم معائنہ کمیشن میں بھی رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پرتو روہیلہ کا یوم پیدائش
——
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد انہوں نے غالب کے فارسی مکتوبات کی طرف توجہ دی اور غالب کے سارے فارسی مکتوبات کو انتہائی دل کش اردو میں ترجمہ کر نے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے علاوہ غالب کے مشکل اشعار کی ایک شرح اور غالب پر چند مقالے بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔
شعری مجموعے ایک دیا دریچے میں ، آواز ، شکست رنگ، سفر دائروں کا، رین اجیارا، نوائے شب اور پرتو شب کے نام سے اور کلیات دام خیال کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
سفر گزشت کے نام سے امریکا کا سفرنامہ تحریر کیا۔
1406ھ میں اکادمی ادبیات پاکستان نے نوائے شب پر ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ عطا کیا
23 مارچ 1994ء کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا
2008ء میں انھیں ستارہ امتیاز بھی عطا کیا گیا تھا۔
پرتو روہیلہ 29 ستمبر 2016ء کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں وفات پا گئے۔
——
تصانیف
——
غالب اور غمگین کے فارسی مکتوبات (اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان)
نامہ ہائے فارسیِ (غالب)
کلیات ِ عطا (مرتب)
اِک دیا دریچے میں (شاعری)
آواز (شاعری)
دام ِ خیال (کلیات)
شکست رنگ (شاعری)
سفر دائروں کا (شاعری)
سفر گزشت (امریکا کا سفرنامہ)
رین اجیارا (دوہے)
نوائے شب (شاعری)
پرتوِ شب (شاعری)
——
فقید المثال مختار علی خان پرتو روہیلہ از ڈاکٹر عبد القدیر خان
——
پاکستان نے یوں تو لاتعداد اعلیٰ مصنف، ادیب، دانشور اور شعراء پیدا کئے ہیں لیکن میں آج آپ کا تعارف ملک کے مایہ ناز، گوہر نایاب روہیلہ پٹھان جناب مختار علی خان عرف پرتو روہیلہ سے کرا رہا ہوں۔
آپ مختار علی خان سے ملے ہوں تو دیکھتے ہی پہچان لینگے کہ یہ اصلی پٹھان ہیں جسامت سے بھی اور شکل و صورت سے بھی اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے صوبہ سرحد (یعنی کے پی کے) میں کئی فقید المثال شخصیتیں پیدا کی ہیں مثلاً خوشحال خان خٹک، رحمٰن بابا، غلام فاروق خان، غلام اسحق خان، احمد فرازؔ، عجب خان، ایوب خان وغیرہ اسی طرح اسی زمین کے غیّور پٹھانوں سے مختار علی خان پر تو روہیلہ صاحب کا تعلق ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : تمہارے ذرے کے پرتو ستار ہائے فلک
——
رُوہیلہ لفظ روہیل کھنڈ کے رہنے والوں سے منسوب ہے۔ یہ علاقہ اِنڈیا میں یوپی کے شمال میں واقع ہے جہاں روہیلہ افغان بہادر جنگجو قبائل نے اپنی ریاست بنا لی تھی اور داؤد خان اور ان کے بیٹے علی محمد خان روہیلہ اس علاقے کے پہلے شخص تھے جنہوں نے روہیل کھنڈ کی بنیاد ڈالی تھی۔ روہیلوں نے پانی پت کی جنگ میں افغان حکمراں احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیا تھا اور 14 جنوری 1761 ءمیں پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو بُری طرح شکست ہوئی تھی۔ احمدشاہ اَبدالی کے جانے کے بعد اور روہیل کھنڈ کے حکمراں علی محمد خان روہیلہ کے انتقال کے بعد آپس کے اختلافات سے روہیل کھنڈ کئی حصّوں بخروں میں بٹ گیا تھا اور مرہٹوں نے ان سے بدلہ لینے کیلئے ان پر حملہ کرکے شکست دیکر قبضہ کرلیا تھا۔ ان پٹھانوں نے اپنی شناخت قائم رکھی اور رامپور ، بھوپال اور ٹونک وغیرہ میں ہجرت کرلی تھی۔ روہیل کھنڈ کا دارالحکومت بریلی، بدایوں کا علاقہ تھا۔دیکھئے کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ روہیلے غیّور پٹھان و پختون ہیں اور انھوں نے احمد شاہ ابدالی کی مدد کی اور انہوں نے ہی نواب اودھ شجاع الدٓولہ کو بھی مدد کیلئے تیار کیا تھا۔ روہیلوں نے چالیس ہزار کی فوج اور ستّر توپوں سے جنگ میں شرکت کی تھی اور مرہٹوں کا قلع قمع کردیا تھا۔ اس وقت ہمارے بھوپال کے حکمراں نواب فیض محمد خان عرف نواب فیض بہادر تھے۔ مرہٹہ سردار بالا جی بالا راؤ نے ان کو پیغام بھیجا کہ چلو پٹھانوں کے خلاف جنگ میں شرکت کرو۔ بھوپال کے حکمراں خود اورکرزئی پٹھان تھے۔ نواب فیض بہادر نے (جو خود ایک ولی اللہ تھے اور رانا کملا پتی کے محل کے باغ میں ان کا مزار اور مسجد ہے) بالاجی کو انکار کردیا اور میرے مرحوم بڑے بھائی عبدالحفیظ خان اَشکی بھوپالی نے بھوپال نامہ (منظوم تاریخ بھوپال) میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔
——
فیضؒ نے چھوڑی نوابی بن گئے کامل ولی
شاہ محمد غوثؒ کے حلقہ سے یہ برکت ملی
ہے کرامت کا بڑا مشہور ان کا واقعہ
باجی راؤ پیشوا ان کو یہ دھمکی دے گیا
پانی پت سے واپسی پر میں اُسے سمجھاؤں گا
فیضؒ نے سن کر کہا ’’راؤ نا واپس آئے گا‘‘
راؤ ابدالی کے ہاتھوں جنگ میں مارا گیا
جو ولیؒ نے کہدیا، اللہ نے پورا کیا
——
روہیلہ غیّور قوم بھی سازش کا ہی شکار بن گئی، اَوِدھ کے نواب نے ان پر حملہ کردیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرنل الیگزینڈر چیمپئن نے فوراً موقع سے فائدہ اُٹھا کر نواب اودھ کا ساتھ دیا اور روہیلہ حکومت پر حملہ کردیا۔ 1774 ء میں حافظ رحمت خان ہلاک ہوگئے اور نواب اودھ نے روہیل کھنڈ پر قبضہ کرلیا اور انگریزوں کا غلام بن گیا۔ روہیلہ اپنی جان بچانے کیلئے جنگلوں میں بکھر گئے اور گوریلا جنگ شروع کردی۔ انگریزی فوج (ہندوستانی غلام فوج) نے ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا۔ 1774ء سے 1799ءتک اس علاقے پر اودھ کے نمائندے خواجہ الماس خان جاٹ آف ہریانہ نے حکومت کی اور ان پر مظالم ڈھائے۔ 1799ءمیں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور حافظ رحمت خان کے وارثوں کا وظیفہ مقرر کردیا۔ روہیل کھنڈ کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ ہوگیا تو روہیلوں نے ریاست رام پور قائم کرلی اور نواب فیض اللہ خان نے 7اکتوبر 1774ءکو برٹش کمانڈر کرنل چیمپئن کی موجودگی میں انگریزوں کے زیر سایہ اقتدار سنبھال لیا۔ اور ریاست رام پور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں ضم کرلی گئی۔میں نے روہیلوں کی تاریخ پر اسلئے روشنی ڈالی ہے کہ پیارے دوست و دانشور مختار علی خان عرف پرتو روہیلہ کا تعلق رامپور سے ہے اور تقسیم کے بعد یہ لوگ بنّوں میں قیام پذیر ہوگئے۔ پرتو روہیلہ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اور قانون کی ڈگریاں لیں اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں کمشنر انکم ٹیکس اور پھر وزیر اعظم کی اِنسپکشن ٹیم کے ممبر بھی رہے ہیں۔ فارسی، اردو، انگریزی، پشتو، پنجابی پر عبور حاصل ہے۔ قد و جسامت ، شکل و صورت اور رنگ سے اصلی پٹھان نظر آتے ہیں۔ ہندوستان میں روہیلے زیادہ تر بریلی، سہارنپور، رامپور، مُراد آباد، بجنور، بدایوں، ٹونک، بھوپال وغیرہ میں تھے۔ تقسیم کے بعد بہت بڑی تعداد سندھ میں آکر بس گئی۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور تو اور جنوبی امریکہ کے بالکل شمال میں سری نام اور گیانا نامی ملکوں میں بھی یہ موجود ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : امیدِ کرم ہے مجھے سرکار زیادہ
——
مختار علی خان پرتو روہیلہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی نہایت مصروف اور کارآمد گزاری ہے۔ آپ غالبیات پر ایک ماہر، اتھارٹی ہیں۔ آپ کی غالب پر گیارہ مطبوعات ہیں، شاعری پر بشمول دوہہ اور سفر نامے تیرہ ہیں یعنی آپ چوبیس اعلیٰ تصانیف کے مالک ہیں۔ آپ کی ابھی جو کتاب شائع ہوئی ہے وہ ایک انمول ہیرا ہے۔ یہ کلّیات مکتوبات فارسی غالبؔ ہے۔ یہ اردو ترجمہ، فارسی مکتوبات کا متن اور مکتوب اِلیہم کے حالات زندگی پر 972صفحات پر مشتمل ہے۔ جناب جمیل جالبی نے اس پر یوں تبصرہ کیا ہے، ’’میں یہ بات نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ترجمے میں وہی بات ہے جو غالبؔ نے فارسی میں کہی تھی اور اس کو اسی شان و شوکت اور سجاوٹ کیساتھ اردو میں منتقل کردی ہے اور یہ واقعتا ترجمے کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ میں پرتو روہیلہ کو ادب کے اس عظیم کارنامے کی تکمیل پر کھڑے ہو کر سلام کرتا ہوں۔ اگر غالب زندہ ہوتے تو وہ بھی ایسے ہی الفاظ میں داد دے کر پرتوروہیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھالیتے۔‘‘ جناب مشفق خواجہ کہتے ہیں ’’پرتورُوہیلہ فارسی زبان پر ماہرانہ دسترس رکھنے کیساتھ ساتھ غالب کے مزاج داں بھی ہیں ، اسی لئے تو انہوں نے اِنشائے غالبؔ کو منشائے غالبؔ کے مطابق اس طرح اردو میں منتقل کیا ہے کہ ترجمے پر تخلیق کا گماں ہوتا ہے‘‘۔آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مختار علی خان پر تو روہیلہ پشاور یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ ہیں اور آپ نے ایم اے فارسی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ آپ کا یہ شاہکار اتنے اعلیٰ پائے کا ہے کہ اگر کسی غیرملک میں اسکو ڈاکٹریٹ کیلئے پیش کیا جاتا تو ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری اعلیٰ گریڈ کے ساتھ دی جاتی۔ مگر بدقسمتی ہے اس ملک کی اور پرتوروہیلہ کی کہ وہ یہاں پیدا ہوئے کہ جاہلوں نے ہیرے کی قدر شناسی نہیں کی۔ اس صوبے کے کسی گورنر، وزیر اعلیٰ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لائق فرزند صوبہ کو ایک اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری اس کی اپنی تعلیم گاہ سے عطا کروا دیتے۔ یہاں جاہلوں اور کرپشن میں ملوث افراد کو ملک کے اعلیٰ ترین اعزازات و ڈگریوں سے نوازا جاتاہے مگر جوہر گرانمایہ کی قدر نہیں کی جاتی۔ وہ کہاوت کہ جو قومیں اپنے ذہینوں، دانشوروں کی قدر نہیں کرتیں ان کی قسمت میں تباہی لکھی جاتی ہے۔ اس قوم کی بدقسمتی دیکھئے کہ کیسے کیسے لوگ کہاں بیٹھے ہیں اور کیسے کیسے جواہر پارے کہاں پڑے ہیں۔ آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس جوہر پارے کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن نے نہایت خوبصورت پیرایہ میں شائع کیا ہے اور 700روپیہ میں یہ ایک مفت تحفہ ہے۔ یہ ایسی اعلیٰ کتاب ہے کہ اس کو ہر اسکول، ہر کالج، ہر یونیورسٹی کی زینت ہونی چاہئے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ دنیا کے جن ممالک میں یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے ہیں ان کو مفت تحفتاً بھیجنا چاہئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : قبا گلوں کی ہے پہنے ترا خیال حسین
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
شبِ ازل دمِ اعجاز کُن فکاں تجھ سے
ضمیرِ ہست میں نقشِ طلسمِ جاں تجھ سے
دھڑک رہا ہے اگر دل تو اِذن ہے تیرا
حریمِ جاں میں جو گونجی ہے تو اذاں تجھ سے
حطیمِ فکر جو روشن ہے تیرے نام سے ہے
مرے دہن میں ہے گویا تو یہ زباں تجھ سے
ترے سبب ہیں جزا و سزا کے سب قصے
امید و بیم کی ہر ایک داستاں تجھ سے
مرے تمام ارادوں میں تیری مرضی ہے
مرے ہر ایک عمل کا ہے امتحاں تجھ سے
مرے گمان کے ہر مرحلے کا تو رہبر
مرے یقین کی منزل کا ہر نشاں تجھ سے
تمام فکر و تفکر کی انتہا تُو ہے
تمام حرف و حکایت ہے درمیاں تجھ سے
مکاں کی حد بھی تصور سے میرے باہر ہے
میں کیا کہوں متصور ہے لامکاں تجھ سے
یہ ہست و بود کی نیرنگیاں پکارتی ہیں
بہار تجھ سے ، خزاں تجھ سے ، گلستاں تجھ سے
بسانِ بسترِ سنجاب ، آتشِ نمرود
بشاخِ برق ، یہ توفیقِ آشیاں تجھ سے
تری رضا سے بشر عرشِ پاک پر پہنچا
زمیں سے تا بفلک طرحِ نردباں تجھ سے
وہ ذاتِ خاص جسے تو نے فیضِ قرب دیا
فنا پذیر تھی ، لیکن ہے جاوداں تجھ سے
کہاں ہے راکبِ نوری جو رات گزرا تھا
سوال بن کے مخاطب ہے کہکشاں تجھ سے
مرے شرف کے لیے کیا یہ مرتبہ کم ہے
فلک پہ جا کے ہو انسان ہمزباں تجھ سے
ظن و گماں کی تمازت سے ہو گیا ثابت
مرے یقین کا محفوظ سائباں تجھ سے
سپاسِ ہدیۂ جاں ہو ادا تو کیسے ہو
بغیر مانگے جو پاؤں یہ ارمغاں تجھ سے
طلوعِ صبح ، اندھیروں میں آرزو تیری
مری تلاش کا ہر گنجِ شائگاں تجھ سے
ترے جہان میں خوشبو تری تو ہے لیکن
نجانے دور ہے کتنا ترا مکاں تجھ سے
تمام جسم میں گردش تری لہو ، بن کر
چھلک رہا ہے یہ لیوانِ ارغواں تجھ سے
مرے خیال کو تجھ سے مفر نہیں ہر گز
زمیں بھی مری تجھ سے ہے ، آسماں تجھ سے
ہے میرے شوق کو مہمیز ، بندگی تیری
مرے نیاز کی جولانیاں جواں تجھ سے
ترا کرم کہ ہوا ہے مکاں مکاں مجھ پر
مرے گلے کہ رہے ہیں زماں زماں تجھ سے
میں اپنی کون سی مشکل کروں عیاں تجھ پر
مرے خیال کا در ، کون سا نہاں تجھ سے
میں اپنا نفس گزیدہ ، سکونِ دل کے لیے
ہجومِ کرب میں مانگوں تو بس اماں تجھ سے
تمام عمر تری پیشگاہ میں گزری
خدا ہی جانے ملوں گا تو اب کہاں تجھ سے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
حدِ خرد سے ماورا اُس کے کمال کا حساب
روزِ اول ہی جو ہوا ، خالقِ کُل کا انتخاب
رازداں سے باخبر لوح و قلم کا کارواں
دیکھا نہ جس نے مدرسہ ، اس پہ نزولِ الکتاب
مالکِ کُل نے ایک شب اپنے حبیبِ پاک کو
خود ہی بلا کے عرش پر ، توڑ دئیے سبھی حجاب
تا نہ ہوا زمین پر اُس مہِ نور کا ورود
قلزمِ حسنِ ذات سے اٹھی نہ موجِ اضطراب
قطرۂ بے وقار کو جس نے محیط کر دیا
ہو گئے محو ، ریت میں کینہ و جہل کے سراب
جس کا کلام پھیر دے چہرۂ جہلِ کافراں
چیر دے ظلمتوں کے دل جس کی نگاہِ خوش خطاب
قریۂ راستی کا اک سالکِ بے نوا و برگ
عالمِ ہست و بود کا نام پہ اس کے انتساب
بے بصر آنکھ کے لیے ، اُس کا وجود روشنی
اُس کا ورود رات میں رشکِ طلوعِ ماہتاب
کون و مکان کے حسن کو اس کے جمال سے ثبات
قدموں سے رنگِ کہکشاں ، ماتھے سے نورِ ماہتاب
کون بجز علیمِ کُل ، سمجھے گا اُس کا مرتبہ
بیٹی ہو جس کی فاطمہؓ ، بھائی ہو جس کا بوتراب
ذات سے اس کی متصل دونوں جہاں کی برکتیں
اس پہ درود بھی صلوۃ ، اس پہ سلام بھی ثواب
——
آنکھ سے اوجھل ہو اور ٹوٹے پربت جیسی پریت
منہ دیکھے کی یاری پرتوؔ شیشہ کی سی پریت
——
ساجن تم تو آپ ہی بھولے اپنے پریت کے بول
اب میں کس کے دوارے جاؤں لے چاہت کشکول
——
تیرے ملن کا سکھ نہ پایا پیت ہوئی جنجال
ساجن میرے من میں دھڑکے برہا کا گھڑیال
——
فرصت کہاں کہ لوحِ تصور پہ تیرا نقش
مژگانِ آرزو سے سنوارا کرے کوئی
اس دورِ انتشار میں ممکن نہیں رہا
پرتوؔ خیالِ یار بھی یکجا کرے کوئی
——
آج تک مجھ کو زمیں پر نہیں رہنا آیا
دھوم ورنہ مرے ہونے کی تو افلاک میں ہے
——
ہائے مرگِ تنہائی ! محفلوں نے آ گھیرا
جان کے نکلتے ہی دوستوں نے آ گھیرا
——
میں تھک کے سرِ راہِ طلب بیٹھ نہ جاؤں
دنیا مرے پیچھے ہے تو عقبیٰ مرے آگے
——
میرا ہمدم ہی بجھانے لگا اب میرا چراغ
میرا دمساز ہی آخر مرا قاتل ٹھہرا
——
پھر تنورِ امکاں سے سیلِ آب پھوٹے گا
نوح کے پسر لاکھوں ، ایک خاکداں اپنا
——
یہ بھی پڑھیں : ازل سے خلق میں پہلا جو نقش روشن ہے
——
دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن مرے مکان میں تھے
ناخدا سے گِلہ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے
سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے
یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے
یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے
تیشۂ وقت ہی بتائے گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے
میں ہی اپنا رقیب تھا پرتو
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے
——
میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا
اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے
کاش اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا
وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی
آگے بڑھتے ہوئے ہم نے جو یہ سوچا ہوتا
ہنستے ہنستے جو ہمیں چھوڑ گیا ہے حیراں
اب رلانے کے لیے یاد نہ آیا ہوتا !!!!
وقت- رخصت بھی نرالی ہی رہی دھج تیری
جاتے جاتے ذرا مڑ کے بھی تو دیکھا ہوتا
کس سے پوچھیں کہ وہاں کیسی گزر ہوتی ہے
دوست اپنا کبھی احوال ہی لکھا ہوتا
ایسا لگتا ہے کہ بس خواب سے جاگا ہوں ابھی
سوچتا ہوں کہ جو یہ خواب نہ ٹوٹا ہوتا
زندگی پھر بھی تھی دشوار بہت ہی دشوار
ہر قدم ساتھ اگر ایک مسیحا ہوتا !!!!
ایک محفل ہے کہ دن رات بپا رہتی ہے
چند لمحوں کے لیے کاش میں تنہا ہوتا
——
کارزار
نحیف چِڑیا، نزار چِڑیا
حسِیں چِڑیا، جمیل چِڑیا
کسی شکاری کا گھاؤ کھا کر نجانے کب سے سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مَری نہیں تھی
زمیں سے اس کو اٹھا کے میں نے قریب ہی اک درخت کی شاخ پر بٹھایا
کہیں سے چُلّو میں پانی لا کر اسے پلایا
وہ سانس دینے کا اک طریقہ کبھی جو بچپن میں جو میں نے سیکھا تھا، آزمایا
تو چند لمحوں میں اس نحیف و نزار چِڑیا نے سر اٹھایا
ابھی میں اپنی سِیہ ہستی کی ننھی نیکی پہ آفریں بھی نہ کہہ سکا تھا
کہ میں نے چِڑیا کو جَست بھرتے ہوا میں دیکھا
ہوا سے چڑیا جو واپس آئی
تو اس کی ننھی سی چونچ میں اک حسِین تتلی دبی ہوئی تھی
حسِین تِتلی، جمیل تِتلی
نحیف تِتلی، نزار تِتلی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مَری نہیں تھی
——
شعری انتخاب از انتہائے شب ، مصنف پرتو روہیلہ
شائع شدہ : 2008 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ