اردوئے معلیٰ

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز( پیدائش: 21 اکتوبر 1950ء )
——
آج اس ضرب المثل شعر کے خالق معروف شاعر شعیب بن عزیز کا یوم پیدائش ہے۔
——
شعیب بن عزیز 21 اکتوبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔
شعیب بن عزیز صاحب نہایت نفیس مزاج ، وضع دار ، خوش اخلاق اور نستعلیق شخصیت ہیں ۔
شعیب بن عزیز نے ڈیلی کوھستان سے اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر فائز رھے ۔
آپ سکریٹری انفارمیشن ھیں ۔ الحمرا بورٖڈ آف گورنر کے ممبر بھی ھیں اور سنسر بورڈ کے ممبر بھی !
شعیب بن عزیز سیکریٹری سوشل ویلفئیر بھی رھے۔ ڈی جی پی آر رھے اور پبلک ریلیشن میں سب سے زیادہ طویل کرئیر آپ ھی کا رھا ۔ الیکشن اتھارٹی کے ممبر بھی رھے ھیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : مُجھے اک رس بھری کا دھیان تھا، ھے اور رھے گا
——
چونکہ آپ کو خود ستائشی اور خود نمائی کی عادت نہیں ھے اس لئے آپ کی پہچان آپ کے عہدے سے نہیں آپ کی شخصیت اور شاعری سے ھے۔ آپ مختصر لیکن چنیدہ حلقہء احباب رکھتے ہیں۔ آپ اردو ، فارسی اور پنجابی زبان پر دستگاہ رکھتے ہیں۔ بلا کا حافظہ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں اردو، فارسی اور پنجابی اشعار ازبر ہیں۔
عرصہء دراز سے شعر کہہ رھے ہیں ۔ لیکن چند ایک مشاعروں کے علاوہ کبھی کسی مشاعرے میں نہیں گئے۔
خود شعیب صآحب کے بقول انہوں نے کبھی اپنے اشعار اپنی کسی بیاض میں نہیں لکھے۔ کبھی اپنی کوئی تخلیق کسی بھی جریدے میں چھپنے کے لئے نہیں دی۔ اس کے باوجود ان کے اشعار کو قبول عام ھونے اور ضرب المثل بننے کی سند حاصل ھے۔
——
کچھ باتیں شعیب بن عزیز کی از فاروق عالم انصاری
——
لاہور کن کن نعمتوں سے محروم ہوا۔ انہی میں سے ایک مال روڈ کا شیزان ریستوران بھی ہے۔ اس کے جلنے کے ساتھ ہماری مل بیٹھنے کی اک تہذیبی روایت بھی جل گئی۔ چلو اچھا ہی ہوا۔ اب یاروں کو فرصت بھی کہاں رہی ہے۔ وہ فرصت فارغ البالی کے ٹھنڈے میٹھے زمانے اور تھے۔ اب نہ وہ لوگ رہے اور نہ ہی وہ فرصت اور نہ ہی آپس میں انس و محبت اور رواداری۔ ”تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی۔ سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی غم کا مارا گزرے تھا“ ۔
نوے کی دہائی کے کسی ابتدائی سال کا کوئی دن مہینہ تھا۔ جب یہیں شیزان کی بالائی منزل پر کالم نگار کے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور نے کالم نگار کو شعیب بن عزیز سے ملوایا۔ اب اس تعلق ناتے میں تیس برس بیت چکے ہیں۔ ان کے نام کی عربی ترکیب ہونے کی وجہ ان کا خاندانی مذہبی پس منظر ہے۔ خدا پرستی کے اس گھریلو ماحول میں ان کی اللہ تعالیٰ سے خوب شناسائی ہو گئی۔ یہ شناسائی پھر بے تکلفی میں ڈھل گئی۔
یہ بے تکلفی ان کی شاعری میں پوری طرح عیاں ہے۔ اللہ میاں سے ایسا بے تکلف لب و لہجہ صرف شعیب بن عزیز سے خاص نہیں۔ اللہ والوں کی شاعری میں ایسی بہت سی نظریں مل جاتی ہیں۔ اہل شریعت کو اہل طریقت کی یہ سرمستی و بے خودی گراں تو گزرتی رہتی ہے لیکن اہل معرفت کو اس کی پرواہ کب رہی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس گستاخی وبے باکی کو محبت کی رمزیں لکھا ہے۔
——
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
——
ادھر غیر معمولی محتاط طبع والے شعیب بن عزیز گستاخیوں سے پرے پرے اک مودب بے باکی سے کوئی عجب سے بات کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا پہروں سوچتا رہتا ہے۔ برطانوی آئین کی طرح ان کی شاعری بھی غیر تحریری سہی لیکن اس اللہ کے بندے کی طبعیت میں کچھ بے نیازی بھی اتنی ہے کہ کئی مرتبہ کسی کے منہ سے کوئی پھڑکتا ہوا شعر سن کر چونک پڑتے ہیں۔ پھر جھٹ سے یہ انکشاف بھی کر ڈالتے ہیں۔ ”ارے! یہ تومیرا بھولا بسرا شعر ہے“ ۔ ان دنوں عجب موج مستی میں ہیں۔ اکثر رات گئے داتا کے حضور دیکھے گئے۔ کیا داتا علی ہجویری کے بلاوے پر وہاں پہنچتے ہیں؟ ابھی یہ راز ہے۔ لیکن راز بھلا کب تک راز رہے ہیں۔
——
منتخب کلام
——
مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے
کہ میرا دوست مجھ جیسا نہیں ہے
قیامت ہے کہ میری داستاں میں
کوئی بھی واقعہ میرا نہیں ہے
——
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہُوئی تحریر بھی دیکھے
——
لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
——
غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کے لئے
میں نے یہ جانا کہ کچھ مجھ سے کہا ہو
——
جیسے نگار بزم تیری مسکراہٹیں تو کجا
جہاں پہ ہم ہیں وہاں جام تک نہیں آتے
پرائے شہر میں زندہ ہیں یاد کر کے اُنہیں
گئے ہوؤں کے جنھیں نام تک نہیں آتے
——
اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
——
یہ بھی پڑھیں : عائشہ، علینہ، عائلین، دُعا اور عائسل کے لیے
——
اب اداس پھرتے ھو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ھوتا ھے اس طرح کے کاموں میں
(یہ خوبصورت کلام ویب گاہ پہ راحیل فاروق کی آواز میں سماعت کے لیے بھی دستیاب ہے، پڑھنے کے لیے مصرعے پہ کلک کیجیے)
——
ھم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن
کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ھوتا
——
پختہ گھروں کو چھوڑ کر کشتی میں آ گئے
دریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا
——
بکھر جائے گا ان گلیوں میں نیلے کانچ کی صورت
یہ زعم ِ آسماں سارا ستارے ٹوٹنے تک ھے
——
کون سمجھے گا مرا درد ِمہہ و سال شعیب
میں نے لمحات خریدے ہیں زمانے دے کر
——
آداب و احترام ِ لب و رخ بجا مگر
ہر ہر نظر پہ حد ِ تمنا بدل گئی
——
شب گزرتی دکھائی دیتی ھے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
——
دعا نہ مانگیں تو غم سے رھائی دیتا نہیں
سنائی دیتا ھے اُس کو دکھائی دیتا نہیں
——
جبین ِوقت پہ ابھرے جو میرے جانے سے
میں چاھتا ھوں وہ منظر بھی دیکھ کر جاؤں
——
کچھ اپنے دل کی خبر رکھ کہ اس جزیرے میں
پڑا ھوں میں بھی کسی گنج ِ گمشدہ کی طرح
——
خوب ھو گی یہ سرا دھر کی لیکن اس کا
ھم سے کیا پوچھتے ھو ھم نے ٹھہرنا کب ھے
——
ڈوبتی شام کی پھٹکار ھو مجھ پہ میں اگر
چڑھتے سورج سے کبھی ھاتھ ملانا چاھوں
——
کوئی روکے کہیں دست ِ اجل کو
ھمارے لوگ مرتے جا رھے ھیں
——
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ھے
——
مٹتا ھے جس کے قرب میں کچھ دل کا اضطراب
اک شخص ھے مگر وہ مرے دشمنوں میں ھے
——
یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے
ترے محبوب پر اولاد مولا !
مرے لاھور پر بھی اِک نظر کر
ترا مکّہ رھے آباد مولا !
——
یہ بھی پڑھیں : نہ قیدِہست نہ صدیوں کی حد ضروری ہے
——
دِل ِ مرحوم یاد آتا ھے
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
مُجھ کو کیوں دار پر نہیں کھینچا !
میں بھی تو اپنی رائے رکھتا تھا
——
ھمیں یہ خاک نشینی ملی ھے نسل بہ نسل
عجیب عِجز ھے جِس میں نَسَب مَلا ھُوا ھے
نواح ِ حُسن میں اِک لہر ھے اُداسی کی
کِنار ِ شام سے دامان ِ شب مِلا ھوا ھے
——
آج پلکوں کی طرف آ نکلا
تھا یہ اک اشک پرانا دل میں
اس کے ھمسائے میں تم آن بسو
درد رھتا ھے اکیلا دل میں
——
اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں
اب تو اُس کی آنکھوں کے، میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے، ساغروں میں جاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
زندگی بکھرتی ہے، شاعری نکھرتی ہے
دلبروں کی گلیوں میں، دل لگی کے کاموں میں
جس طرح شعیب اس کا، نام چُن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چُن رکھّا، ایک نام ناموں میں
——
اداس گلیوں میں ناحق بکھر بکھر جاؤں
میں اپنے آپ کو لے کر کبھی تو گھر جاؤں
کبھی تو ڈوبتے دن کا ملال ھو مجھ کو
کبھی تو شام کی تنہائیوں سے ڈر جاؤں
کوئی ستارہ کبھی میرے گھر میں بھی اُترے
ھر ایک بام پہ کیا صورت ِ نظر جاؤں
جبین ِ وقت پہ اُبھرے جو میرے جانے سے
میں چاھتا ھوں وہ منظر بھی دیکھ کر جاؤں
اسیر ِ وقت ھوں اطراف ِ بے جہت میں شعیب
رُکوں تو کیسے رُکوں ، جاؤں تو کدھر جاؤں
——
دل ِآباد کا برباد بھی ھونا ضروری ھے
جسے پانا ضروری ھے ، اسے کھونا ضروری ھے
مکمل کس طرح ھو گا تماشہ برق و باراں کا
ترا ھنسنا ضروری ھے مرا رونا ضروری ھے
بہت سی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں
ترے جاگے ھوؤں کا دیر تک سونا ضروری ھے
کسی کی یاد سے اِس عُمر میں دِل کی مُلاقاتیں
ٹھٹھرتی شام میں اِک دُھوپ کا کونا ضروری ھے
یہ خود سر وقت لے جائے کہانی کو کہاں جانے
مصنف کا کسی کردار میں ھونا ضروری ھے
جناب ِ دل بہت نازاں نہ ھوں داغ ِ محبت پر
یہ دنیا ھے یہاں یہ داغ بھی دھونا ضروری ھے
——
مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں ھے
کہ میرا دوست مجھ جیسا نہیں ھے
یہ کس بستی میں لے آیا ھے رستہ
درختوں کا جہاں سایہ نہیں ھے
ھوا ڈر ڈر کے چلتی ھے یہاں پر
یہاں دریا ھے جو بہتا نہیں ھے
کسی چہرے سے لب کھرچے ھوئے ھیں
کسی آواز کا چہرہ نہیں ھے
لکھا رکھا ھے عہد ِ ترک ِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ھے
——
یہ بھی پڑھیں : آنکھ محرومِ نظارہ ہو ، ضروری کیا ہے
——
ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مُجھ کو
زندگی تُونے کہاں لا کے بکھیرا مُجھ کو
سفر ِ شب میں تو پھر چاند کی ھمراھی ھے
کیا عجب ھو کسی جنگل میں سویرا مُجھ کو
میں کہاں نکلوں گا ماضی کو صدائیں دینے
میں کہ اب یاد نہیں نام بھی میرا مُجھ کو
شکوہ ء حال ِ سیہ گردش ِ دوراں سے نہیں
شام باقی تھی کہ جب رات نے گھیرا مُجھ کو
——
اداس گلیوں میں ناحق بکھر بکھر جاؤں
میں اپنے آپ کو لے کر کبھی تو گھر جاؤں
کبھی تو ڈوبتے دن کا ملال ھو مجھ کو
کبھی تو شام کی تنہائیوں سے ڈر جاؤں
کوئی ستارہ کبھی میرے گھر میں بھی اُترے
ھر ایک بام پہ کیا صورت ِ نظر جاؤں
جبین ِ وقت پہ اُبھرے جو میرے جانے سے
میں چاھتا ھوں وہ منظر بھی دیکھ کر جاؤں
اسیر ِ وقت ھوں اطراف ِ بے جہت میں شعیب
رُکوں تو کیسے رُکوں ، جاؤں تو کدھر جاؤں
——
شعیب بن عزیز صاحب کا یہ کلام، اِک فریاد، اِک نوحہ، جو اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلا جسے انہوں نے”اپنے اندر کے سقوط” کا نام دیا
——
کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا !
مرا بصرہ ، مرا بغداد مولا !
بہت دُکھ سہہ لیا اھل ـ حرم نے
بہت دن رہ لیا ناشاد مولا !
بہت سے شاد و فرحاں پھر رھے ھیں
ھمارے ساتھ کے برباد مولا !
ھمارے حال کی بھی کچھ خبر لے
ھمارے دل بھی ھوں آباد مولا
یہاں بھی کھیتیاں سر سبز ھو جائیں
ادھر بھی آئیں ابر و باد مولا
ھمارے دُکھ جبینوں پر لکھے ھیں
بیاں ھم کیا کریں روداد مولا !
تو کیا ھم اپنی باری لے چُکے بس !
تو کیا اب ھم ھیں رزق ِ یاد مولا !
تو کیا یہ سب بساط ـ رنگ و مستی
بچھے گی اب ھمارے بعد مولا
تو کیا یہ ھمدمی دائم رھے گی؟
یہ غم ھے کیا مرا ھمزاد مولا !
ھمارے چاھنے والے ھمیں اب
نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا !
یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے
ترے محبوب پر اولاد مولا !
مرے لاھور پر بھی اِک نظر کر
ترا مکّہ رھے آباد مولا !
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ