اردوئے معلیٰ

آج بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی برسی ہے۔

فقیر محمد فقیر(پیدائش: 5 جون، 1900ء – وفات: 11 ستمبر، 1974ء)
——
بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر از اظہار احمد گلزار
——
بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر 5 جون1900ء کو پنجاب کے مردم خیز شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور11 ستمبر 1974ء کو یہیں وفات پائی اور مزار حضرت مبارک شاہ ؒ کے احاطے میں سپردِ خاک ہوئے۔
اپنے ایک مطبوعہ مضمون بعنوان ’’ میری آپ بیتی‘‘ میں بابائے پنجابی رقمطراز ہیں :
’’1915ء کے ابتدائی ایام میں اپنے والد حکیم میاں لال دین مرحوم و مغفور کی وفات پر میَں نے اچانک اپنی طبیعت کو شعر گوئی کی طرف مائل پایا‘‘ گویاکم سِنی ہی میں اُنھوں نے دوسرے جنم کے مرحلے کو طے کر لیا تھا۔ فقیر محمد سے فقیر محمد فقیر کی سمت طبیعت گامزن ہو چکی تھی۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا:
——
ہم بہت رنج و الم سہتے ہیں
تب کہیں جا کے غزل کہتے ہیں
——
اپنے والد گرامی سے محبت کی شدّت نے اُن کی قلم سے ایک مرثیہ تخلیق کروایا،جس کامطلع ہے:
——
دل دی وسدی بستی اُجاڑ میری واسی آپ نیں کِتے سدھار چلے
رونا دے کے میریاں اکھیاں نوں لے کے دل دا صبر قرار چلے
——
بیسو یں صدی میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے اور پنجابی ادب کے استحکام کی خاطر محنت کرنے والوں میں سب سے معتبر ، اہم اور اوّلین نام بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہی کا ہے ۔ آپ ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ قدرت نے اُنھیں بے شمار گُنوں سے نوازا تھا۔ ڈاکٹر فقیر مرحوم نے شاعری میں تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، پنجابی زبان کی قدیم کلاسیکی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اُنھوں نے وارثی بحر میں ہیر لکھنے کا تجربہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے پوتے عبدالباسط باسط سے مِلنے والی چند نایاب ڈائریوں میں با بائے پنجابی نے ہیر کے کچھ شعر نقل کیے ہیں ،جن کے اختتام پر22 جنوری1927ء کی تاریخ مرقوم ہے۔ میری تحقیق کے مطابق آپ نے مکمل داستانِ ہیر کو پنجابی زبان میں نظم کیا اور کئی ایک ادبی مجلسوں اور مشاعروں میں پڑھ کر بھرپور داد بھی حاصل کی ۔ حتیٰ کہ پنجابی زبان کے معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے1944ء میں رُباعیاتِ فقیر کے بارے میں تبصرہ لکھتے ہوئے تحریر کیا :
’’ ڈاکٹر فقیر دی ہیر دا اکار وارث توں وڈا اے ‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعرہ ثمینہ راجا کا یوم پیدائش
——
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟؟؟ میَںنے یہ سوال اُن کے کئی ایک قریبی ملنے والوں اور ہم عصر ادیبوں شاعروں سے کیا ،جس سے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے کسی مجلس میں ہیر کے شعر سنائے، تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ وارث شاہؒ کا مقابلہ کرنے کی گستاخی کی جا رہی ہے۔ فقیر مرحوم کو یہ بات اچھی نہ لگی ،تو دل برداشتہ ہوئے ایک دو اور بزرگوں نے ایسی ہی ملتی جُلتی باتیں کیں ۔ خیر خدا بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا تھی، مگر ایک حقیقت جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوئی ،وہ یہ کہ با بائے پنجابی بے نیاز طبیعت کے مالک تھے۔ اُنھوں نے زندگی بھر خود نمائی سے درگزر کیا اور پنجابی کے صوفیاء کے کلام کو منظر عام پر لانے کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔ اس داستان کا مکمل غیر مطبوعہ مسوّدہ ارشد میر مرحوم کی ذاتی لائبریری میں عرصہ دراز سے محفوظ ہے۔کلامِ فقیر کی زیر ترتیب جِلد سوم میں مَیں نے ہیر کے ایک سو بہتّر مِصرعے (چھیا سی شعر) جو مختلف عنوانات کے تحت لکھے گئے ہیں یک جا کر دیئے ہیں(اِن شآء اللہ) فن ِشاعری کو پرکھنے والے ذی شعور حضرات یہ اشعار پڑھ کر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے اس فنکارانہ شاہکار کے مقام کا تعیّن بہتر طور پر کر سکیں گے۔ میَں یہاں اس شاہکار داستان کے بالکل آغاز سے حمد کے چند شعر آپ کی خدمت میں پیش کر نے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں :
——
حمد عالمِ حُسن و جمال دی اے عاشق ہین جس دے روادار سائیں
گھونگھٹ میم دا گھت کے مُکھڑے تے چُھپیا وچ پردے پردہ دار سائیں
پایا بھید مخفی بھید یار وچوں کیتا شہرتاں نے آشکار سائیں
لے کے میم امانت دی اُٹھ ٹُریا رازدار کولوں رازدار سائیں
رکھے ننگ ناموس ہماتڑاں دے پردے پوش ستّار غفار سائیں
اوگنہگار فقیر دے ساز اندر تار تار بولے بخشنہار سائیں
——
پنجابی زبان میں منظوم داستان گوئی کی روایت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے جواں عُمری ہی میں با بائے پنجابی نے ایک اور عظیم المر تبت مثنوی ’’ سنگی‘‘ تخلیق کی جو کہ 894 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی پنجابی کلاسیکل روایات کی معروف مولوی غلام رسول عالم پوری اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک کی بحر میں تخلیق کی گئی ہے۔ اس مثنوی کی تکمیل 7 جون1939ء بروز منگل ہوئی۔مجھے اس مثنوی کے قلمی مسودے کے چند صفحات دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
مختلف عنوانات تلے تخلیق کیے ہوئے تین سو ستائیس (327) اشعار اس مثنوی کے تلاش کرنے میں مجھے کامیابی ہوئی ہے۔ یہ تمام اشعار بھی میں نے کلامِ فقیر کی زیر ترتیب جلد سوم میں یک جا کر دئیے ہیں ۔ اس مثنوی کا کتابت شدہ مکمل غیر مطبوعہ مسوّدہ بھی ارشد میرؔ مرحوم کی ذاتی لائبریری میں عرصہ دراز سے محفوظ ہے۔ اس مثنوی کا ہر دوسرا شعر ایک قولِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے۔ چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں:
——
یہ بھی پڑھیں : رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ
——
عِلم میرے دی تیرے اگے بند زبان خدایا
مُردے دے وِچ فضلوں کرموں پائیں جان خدایا
عِلم تیرا جد سینیاں دے وچ معنیاں دے در کھولے
کیکر فیر زباناں وچوں جبرائیل نہ بولے
اکھاں دے وچ ناچ کرے جس سوہنے دی وڈیائی
دیاں فقیر میں ناں اوہدے دی بھلا نہ کِویں دُہائی
لایاں عشق نہ لگے دل نوں تے نہ چھڈیاں چُھٹے
جس بستی وچ وڑدا ڈاکو کِلے کوٹھے لُٹے
عشق فقیر دلاں دا ضامن مارے باہر نہ جھاتی
عشق فقیر ہے ساری دُنیا عشق فقیر حیاتی
رُت سہانی درد میرے تھیں ڈاہڈی پھبی
ہوئی دل سینے وچ، اگ جویں وچ ککھاں دبی
ہوئی سوچ میری دے ٹورے ٹُردا عرش بُلند گواچا
مکن وچ نہ آوے کدھرے پندھ میرا اَن جاچا
چڑھدا چن کرے رُشنائی تارے لاندے لوواں
لیندے میریاں کیڑاں دوویں، میں جد سُتا ہوواں
——
اور پھر فرماتے ہیں :
——
گل بندے نوں تخت بہاندی، گل چڑھاندی سولی
گلوں واہدے وٹے لکھاں گلوں گھاٹ سمولی
——
افسوس کہ پنجابی زبان کے ادب عالیہ کی یہ دو عظیم تخلیقات جن کا ہر شعر ہماری معاشرتی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور اپنی ادبی اہمیت اور آب وتاب کا راگ الاپ رہا ہے وہ ہماری سُستی اور لاپرواہی کی وجہ سے وقت کی گرد میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہماری بھاگ دوڑ اور کھوج پرکھ کے بعد جو شعر ان تخلیقات کے ہمیں ملے ہیں وہ اِن شآء اللہ کلامِ فقیر کی تیسری جلد کی صورت قارئین ِ ادب کی خدمت میں بہت جلد پیش کر دیئے جائیں گے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے کے دَور ہی میں ڈاکٹر فقیر کا تیسرا بڑا شعری کارنامہ جس نے علمی ادبی اور شعری مجلسوں میں اُنھیں شہرت اور عزت سے نوازا وہ ’’دامن ‘‘ ہے۔’’ دامن ‘‘پنجابی زبان کے ماضی قریب میں ایک معروف صنفِ سخن رہی ہے۔ اس میں بالعموم کسی عشقیہ داستان کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ مسدس نظم کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس کے پہلے بند کے تمام مصرعوں میں لفظ ’’دامن ‘‘ کو ردیف رکھا جاتا ہے بعدازاں ہر بند کے آخری دو مصرعوں میں ’’دامن‘‘ ردیف کے طور پر باندھا جاتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو اور پنجابی کے معروف شاعر شیر افضل جعفری کا یوم پیدائش
——
دامن لکھنے کی روایت بیسویں صدی کے پنجابی ادب ہی میں متعارف ہوئی۔ اُستاد عِشق لہر نے زلیخا کے حضرت یوسف ؑ سے عشق کو دامن کا موضوع بنایا، پیر فضل حسین فضل گجراتی نے سوہنی مہینوال کے عِشق اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے سسی پنوں کے عشق کو دامن کا موضوع بنایا اور تینوں اساتذہ نے شاہکار دامن تخلیق کیے۔ڈاکٹر فقیر نے ایک نعتیہ دامن بھی لکھا ،جس کا صرف ایک بند ارشد ؔمیر مرحوم نے نقل کیا۔باقی ماندہ اشعار اُنھیں نہ مِل سکے۔ یہاںہم آپ کی خدمت میں اُن کے تخلیق کیے ہوئے دامن کے دو بند پیش کرتے ہیں : لتھے ہوت آ سسی دے باغ اندر چوغے کار چوبی زرنگار دامن شعلہ رُو جاں حشر دی چال چلن مارن بجلیاں وانگ لشکار دامن پتے پُچھیاں جدوں بلوچ دسن لوکیں چُمدے نال پیار دامن کنبدے پھرن دل کئیاں نمانیاں دے کھلے چھڈ کے میر شکار دامن محرم دِلاں دے آن مہمان ہوئے لنگھے کھول جاں سرِ بازار دامن مخبر سسی نوں وی پتے آن دِتے لے شہزادئیے اَج سوار دامن جب سسی پنوں کو پہلی بار دیکھتی ہے، تو اُس کی بے قراری کا عالم دیکھیے اور شاعر کا اندازِبیان ملاحظہ فرمائیے :
——
بغلوں کڈھ تصویر ملان لگی گھڑی خوشی دی جویں دلگیر ویکھے
ویکھے کدی تصویر تے کدی پنوں کدی پنوں تے کدی تصویر ویکھے
پایا رُوپ بہروپ دا اکھیاں نے بیٹھا کول صیاد اسیر ویکھے
مِلیا مال تے چور دی لادھ ہوئی سسی ہوت جاں نال نظیر ویکھے
پلا پنوں دا دوڑ کے پگڑ ہتھیں ول کے کر لیتو سو گل دا ہار دامن
جاتا عاشقاں حشر بپا ہویا پگڑ کھلا جاں یار دا یار دامن
——
پنجاب یونی ورسٹی ،شعبہ پنجابی کے سِینئر اُستاد مرحوم پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم رانا لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی حیثیت پنجابی زبان کے کلاسیکل اور جدید دَور کے درمیان ایک پُل کی سی ہے ،اُنھوں نے ایک طرف ہیر اور سنگی جیسی شاہکار تخلیقات سے قدیم روایات کے آخری شاعر کی حیثیت حاصل کر لی اور دوسری طرف جدید طرزِ سخن کی مضبوط بنیادیں استوار کر کے جدید دَور کے شعراکی اوّلین صف میں اہم مقام حاصل کر لیا۔
اُن کا با قا عدہ پہلا شعری مجمو عہ جو منظرعام پر آیا وہ ’’صدائے فقیر‘‘ ہے۔ ہندوستان میں اُنیسویں صدی کے وسط میں جب انگریزی ڈاکوؤں نے ایک طویل سازش کے بعد بِالآخر1857ء میں تختِ ہندوستان پر قبضہ کر کے پہلے ہی سے براجمان ناجائز قابضین کو حراست میں لے لیا ،تو یہاں جس تحریک نے جنم لیا ،وہ تاریخ میں ’’ تحریکِ آزادی ٔ ہند‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریک میں ہند وستان کے تمام مذاہب کے لوگ بِلا امتیازِرنگ و نسل شریک تھے۔
بعد ازاں کئی ایک مذہبی اور سیاسی وجوہات کی بنیاد پر1930ء میں جب حکیم الاُمت ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال نے خطبہ ٔ الہ آباد پیش کیا، تو اُس کے نتیجے میں دوسری تحریک نے زور پکڑا جسے ہم ’’تحریک ِ قیامِ ِ پاکستان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ان کا خیال ہے مری دنیا کہیں جسے
——
ڈاکٹر فقیر کا پہلا شعری مجموعہ صدائے فقیر تحریک آزادی ٔ ہند کے زمانے میں شائع ہوا تھا۔ 1924ء میں شائع ہونے والے اس شعری مجموعے ’’صدائے فقیر‘‘ میں چودہ طویل نظمیں ،قطعات اور چو مصرعے شامل کیے گئے۔ان طویل نظموں کو بھی کلاسیکل طرزِ سخن کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ان نظموں میں بالعموم اہالیانِ ہندوستان اور بعض مقامات پرخصوصاً مسلم اُمہ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی رائے میں ’’صدائے فقیر کی تمام نظمیں دِلکش ہیں اور وقت کے تقاضے کو پورا کرتی ہیں۔ اس وقت ایک مفکر کا یہی منصب ہے کہ وہ قومی اور ملکی تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ برتے اور پوری توجہ اور انہماک سے اس کام کو جاری رکھے‘‘۔ صدائے فقیر میں شامل تقریباً تمام نظمیں انجمن ِحمایت اِسلام کے سٹیج پر پڑھی ہوئی ہیں، جو اُس دَور میں ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے اہم سیاسی سٹیج جانا جاتا تھا۔ افسوس ناک اتفاق یہ ہے کہ اِس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے آج تقریباً ایک صدی گذرنے کے بعد بھی اس کا ہر لفظ اور ہر مصرعہ عصر حاضر کی اندھیر نگری اور چوپٹ راج کاواویلا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے شعری سفر کو اگر ادوار میں تقسیم کیا جائے تو 1915ء یعنی زمانۂ آغاز سے 1930ء تک کا دَور اُن کے شعری سفر کا پہلا دَور کہلائے گا۔ اس دَور میں ہیر اور دامن جیسی تخلیقات کے علاوہ قطعات ،رُباعیات اور غزل گوئی کی جانب طبعیت مائل رہی نیز صدائے فقیر کی اشاعت ہوئی ۔1030ء سے 1947ء تک اُن کے شعری سفر کا دوسرا دَور ہے۔
دوسرے دَور کے آغاز میں وہ عجیب تذبذب کا شکار رہے۔ قیامِ پاکستان کی حمایت میں بات کی جائے یا متحدہ ہندوستان کے حمایتیوں کا ہم آواز بنا جائے ؟؟؟ بالآخر مولانا ظفر علی خان اور جسٹس شیخ دین محمد جیسے دوستوں کی قربت ہی رنگ لائی اور آپ نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ کے ہم آواز بنے بلکہ تحریکِ قیامِ پاکستان کی کامیابی کے لیے باقاعدگی سے چندہ دینے والوں میں بھی شریک ہو گئے۔ بشیر حسین ناظم اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ1946ء میں جب قائد اعظم ؒ گوجرانوالہ تشریف لائے ،تو بہت سے لوگوں نے اُنھیں چندے کے طور پر رقوم پیش کیں ۔ بعدازاں ایک شخص جو اپنے حسن و جمال خوش وصفی وخوش قطعی ورعنائی میں سب پر فوقیت رکھتا تھا آیا اور اُس نے اپنی گاڑی کی چابیاں قائداعظم ؒ کی خدمت میں پیش کیں اور بولا:’’گر قبول اُفتد زہے عِزّوشرف ‘‘۔قائد اعظم فرمانے لگے ’’ بہت اچھا فقیرؔ تم نام کے فقیر اور دل کے امیر ہو میں تمھارے اس تحفے کی قدر کرتا ہوں‘‘۔گویا اب ڈاکٹر فقیر محمدفقیر کے شب و روز تحریکِ قیامِ پاکستان کے لیے وقف ہو چکے تھے۔دوسرے دَورکے زمانہ میں’’ سنگی‘‘ مکمل ہوئی اور ’’رُباعیاتِ فقیر‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ رُباعیاتِ فقیر کو نیلے تارے کا نام بھی دیا گیا۔
مجھے ہندوستان کے پہلے سفر میں معروف سکھ سکالر پروفیسر ڈاکٹر ہرنام سنگھ شان سے ملاقات کا شرف ملا ،تو اُنھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل ہندوستان کی یونی ورسٹیوں کے لیے پنجابی کی ایک نصابی کتاب جو گُر مُکھی سکرپٹ میں چھپی ہوئی تھی ، اس کتاب کا نام ’’دومیل‘‘ ہے، وہ تحفتاً مجھے عنایت کی جس میں بابائے پنجابی کی رُباعیات شامل کی گئی تھیں۔ اس دَور میں رُباعیاتِ فقیر کے دو ایڈیشن شائع ہوئے پہلا1944ء میں اور دوسرا 1946ء میں شائع ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی اس کتاب کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ پنجابی زبان کی ادبی تاریخ میں ڈاکٹر فقیر کو پنجابی رُباعی کا باواآدم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے خود بھی اس بات کا دعوٰی کیا ہے۔ اُنھوں نے نہ صرف یہ کہ پنجابی ادب میں اِس صنفِ سخن کو رُوشناس کروایا بلکہ اسے بامِ عروج پر بھی پہنچایا۔
اپنی ایک غزل کا مقطع اِس طرح لکھتے ہیں :
——
فنِ شعر دے کول جواب جد کوئی اوہدی غزل تے میری رُباعی دا نہیں
کیوں نہیں غزل پنجابی دا فضل حافظ تے فقیر میں عمرخیام کیوں نہیں
——
فارسی اور پنجابی زبان وادب کے ناقدین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ عمر خیام اور ڈاکٹر فقیر کی رُباعیات کو فنی اور موضوعاتی اعتبار سے پرکھیں اور خیامِ پنجاب کے اِس دعوے پر اپنی مدلل آراء سے قارئین ِادب کے علم میں اضافہ فرمائیں۔ کلامِ فقیر جلد اول مطبو عہ بزمِ فقیر پاکستان کے آغاز میں شیخوپورہ کے معروف شاعر جناب صدیق تاثیر کا طویل مضمون بعنوان ’’رُباعی تے پنجابی رُباعی بھی اِس ضمن میں قابلِ تحسین کوشش ہے۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پنجابی نثر کی اوّلین کتاب ’’پنج ہادی‘‘ تصنیف کی۔ اس کتاب میں حضرت محمد اور اُن کے چار خُلفائے راشدین کی زندگیوں کے حالات اور کارہائے نمایاں کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ آئیے اب بابائے پنجابی کے شعری سفر کے تیسرے دَور کی سمت بڑھتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو اور پنجابی کے نامور ادیب محمد منشاء یاد کا یوم پیدائش
——
بابائے پنجابی کے شعری سفر کا یہ دَور 1947ء سے 1971ء تک کے چوبیس سالوں پر محیط ہے۔ پہلے دو ادوار میں وہ بالترتیب ’’تحریکِ آزادیٔ ہند‘‘اور ’’تحریکِ قیامِ پاکستان‘‘ کے تحریکی مجاہد کے طور پر کام کرتے رہے اور اس تیسرے دور میں اُنہوں نے ایک دانش ور ،حکیمِ ملت ، مصلحِ قوم اور لیڈر کا کردار ادا کیا اور ’’ تحریکِ تعمیرِ پاکستان ‘‘ کے ایک عظیم مجاہد کی حیثیت میں سامنے آئے ۔ یہاں ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ سب کردار ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اُن کی اوّلین حیثیت ایک پیدائشی شاعر ہی کی ہے۔ ایک ایسا شاعر جو اپنی قوم کا بہترین نباض ہے، جو اپنی قوم کو ایک جِسم کی صورت دیکھتا ہے اور خود بقول حضرت علامہ محمد اقبالؒ اُس کی آنکھ کا کردار ادا کرتا ہے اور جب اُس جسم کا کوئی حصہ مبتلائے درد ہوتا ہے، تو پھر اُس آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں ،جو شاعری کی صورت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔
بابائے پنجابی کے شعری سفر کے تیسرے دَور میں اُن کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔1956ء میں ’’موآتے‘‘1965ء میں ’’ستاراںدِن‘‘ اور1968ء میں ’’پاٹے گلمے‘‘ شائع ہوئی۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان لکھتے ہیں کہ مولانا الطاف حسین حالی ؔنے جو کام اپنی تخلیق ’’مسدسِ حالی ‘‘ سے لیا وہی کام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے’’ موآتے ‘‘سے لیا۔اس کتاب کو پنجاب یو نی ورسٹی نے انعام سے نوزا۔ نیا گھر آباد ہونے کے بعد گھر کے بزرگ بچوں کو اس تعمیرِ نو کی حفاظت اور ترقی کے لیے جو نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں وہی اس کتاب کے موضوعات ہیں۔ قومی اور ملی جذبات کو تحریک دینے کی خاطر تخلیق ہونے والی شاعری بھی تا ابد زندہ رہتی ہے۔یہ کتاب ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل ہے۔ بابائے پنجابی کی جنگی اور رزمیہ شاعری کا مجموعہ ’’ستاراں دِن‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے ۔ یہ کتاب عرصہ دراز تک پنجاب یونی ورسٹی اور دیگر یونی ورسٹیوں کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں قومی شاعری کے طور پر پڑھائی جاتی رہی ہے۔1968
ء میں گوجرانوالہ کے علمی ادبی حلقوں نے مجلسِ فکرو نظر کے زیرِ اہتمام بابائے پنجابی کے ساتھ ایک عالی شان شام منانے کا اہتمام کیا، جس کی صدارت اُس وقت کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور معروف دانشور الطاف گوہر نے کی۔ اس موقع پر بابا جی کی شاعری کا ایک مجموعہ ’’پاٹے گلمے‘‘ شائع کر کے حاضرین میں مفت تقسیم کیا گیا۔ ادبی سفر کے اس تیسرے پڑاؤ پر اُن کی نظر ایک طرف نو مولود وطنِ عزیز پاکستان کی مشکلات کا مشاہدہ کر رہی تھی تو دوسری طرف ’’ ماں بولی‘‘ کو اُس کا جائز مقام دلانے کے لیے تحریک چلا نے کی ضرورت محسوس کر رہی تھی۔ اس تحریک کاآغاز کرنے کے لیے اُنھیں خود ہی تحریک ساز ، خود ہی لیڈر اور خود ہی مجاہد بننا پڑا، گویا: میَں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر لوگ مِلتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا۔
1951ء میں گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور میں اُس وقت کے پرنسپل سیّد عابد علی عابد کے تعاون سے عُلماء کا ایک اجلاس منعقد کروایا ،جس میں خصوصی طور پر صوفی غلام مصطفٰی تبسم، مولانا عبدالمجید سالک، ایم ڈی تاثیر،ڈاکٹر محمد باقر، پروفیسر تاج محمد خیال اور اُستاد کرم امرتسری جیسے دیگر کئی علماء کرام شریک ہوئے۔ اِس اجلاس میں مرکزی خطاب بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے کیا اور پنجابی زبان کی اہمیت اور ضرورت پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے پنجابی کی دگرگوں حالت کا تذکرہ کیا۔ سب نے متفقاً ’’پاک پنجابی لیگ‘‘ کے نام سے پنجابی زبان کے فروغ اور ادبی سرمائے کی حفاظت کے لیے ایک تنظیم تشکیل دی۔ اس تنظیم کے صدر مولانا عبدالمجید سالک اور سیکریٹری ڈاکٹر فقیر محمد فقیر بنائے گئے۔
بعدازاں اس تنظیم کے پہلے باقاعدہ اجلاس میں پنجابی زبان میں ایک ماہوار رسالہ شروع کرنے کی ذمہ داری بابائے پنجابی کو سونپی گئی اور مولانا عبدالمجید سالک کو اُن کی معاونت کے لیے کہا گیا۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ بابائے پنجابی نے تنِ تنہا شبانہ روز محنت کر کے ستمبر1951ء کو ’’ ماہوار پنجابی لاہور‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کر دیا اور پھر یہ رسالہ اچھے بُرے حالات کا شکار ہوتا ہوا اپریل 1960ء تک شائع ہوتا رہا۔
دُنیائے صحافت کے نامور اُستاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر فقیر کے رسالہ ماہوار ’’پنجابی‘‘ کا پنجابی زبان کی تاریخ میں وہی مقام ہے، جو اُردو زبان کی تاریخ میں سر عبدالقادر کے رسالہ ’’مخزن‘‘ کا ہے۔
مخزن نے انگریزی لکھنے پڑھنے والوں کو اُردو لکھنے پڑھنے پر لگا دیا اور پنجابی نے انگریزی اوراُردو لکھنے پڑھنے والوں کو پنجابی لکھنے پڑھنے پر لگا دیا‘‘۔ ماہنامہ پنجابی کے بعد 1962ء میں ہفتہ وار ’’وارث‘‘ کے نام سے رسالہ شروع کیا۔ مسعود کھدر پوش نے دینی موضوعات پر پنجابی زبان میں اوّلین ماہنامہ رسالہ ’’حق اللہ‘‘ کے نام سے شروع کیا تو جنوری سے اپریل 1963ء تک بابائے پنجابی نے اس کی ادارت کی ۔
بعدازاں ایک اور ماہنامہ رسالہ شروع کرنے کی تحریک چلائی۔ڈاکٹر سیّد اختر حسین اختر اپنے ایک مطبوعہ اِنٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’’ بابائے پنجابی نے رسالہ شروع کرنے کی بات کی تو میَں نے انکار کر دیا ۔ وہ خود ہی جاکر ڈیکلریشن فارم لائے مطلوبہ فیس اپنے پاس سے جمع کروائی، خود ہی رسالے کا نام ’’لہراں‘‘ تجویز کیا، رسید بُک شائع کروائی اور برانڈرتھ روڈ کے تاجروں سے چندہ اکٹھا کر کے رسالہ شائع کردیا اور اوپر ایڈیٹر کے طور پر میرا نام شائع کر دیا۔
ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ مارچ 1965ء سے تادمِ آخر تک یہی تسلسل رہا کہ ہر مہینے رسالے کا مواد گوجرانوالہ اُن کی خدمت میں دستی یا بذریعہ ڈاک بھجوا دیا جاتا وہ ایڈیٹنگ کرکے اور ترتیب لگا کر واپس بھجواتے تو ہم رسالہ شائع کر دیتے۔ بارہا گذارشات کرنے کے باوجود اُنھوں نے اپنی فقیرانہ اور بے نیازانہ روش پر کاربند رہتے ہوئے ہمیں’’ لہراں‘‘ کے سر ورق پر سرپرست یا چیف ایڈیٹر یا بانی وغیرہ کے طور پر اپنا نام لکھنے کی اجازت ہر گِز نہیں دی۔ غالباً 1972ء کے ایک شمارے پر کچھ دوستوں کے اصرار پر باباجی کا نام سرپرست کی حیثیت میں لکھ دیا گیا، جس پر وہ اس قدر نالاں ہوئے کہ اگلے ہی شمارے میں اُسے ختم کرنا پڑا۔ 1952ء میں ماہوار پنجابی کی پہلی جلد میں سے نثری انتخاب کرکے ’’لہراں‘‘ کے نام سے ایک ضخیم پنجابی نثر کی شاہکار کتاب مرتب کی۔ یہ کتاب قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی پنجاب میں اوّلین نثر کی کتاب تھی، جس میں کہانیاں ،افسانے، مضمون انشائیے وغیرہ سب کچھ شامل کیا گیا۔ بعدازاں اس کتاب میں سے انتخاب کر کے پنجاب یونی ورسٹی کے بی اے کے نصاب میں پنجابی آپشنل کے پرچے کے لیے ’’لہراں‘‘ کے نام سے کتاب ترتیب دی۔
1952ء میں لائلپور (فیصل آباد) کی دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں بزمِ ادب فیصل آباد کے اِشتراک سے بین الاقوامی پنجابی کانفرنس عوامی سطح پر منعقد کروائی، جس میں حکومتِ وقت سے پنجاب کے سکولوں میں پرائمری سطح پر پنجابی زبان میں تعلیم دینے اور ہائی سکول ، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر پنجابی زبان اور اس کے ادب کی پڑھائی کو لازم قرار دینے کی اپیل کی گئی۔ گویا پنجابی زبان کے فروغ اور ادب کے استحکام کی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ 1957ء میں اوری اینٹل کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر کے اشتراک سے ’’ مغربی پاکستان پنجابی ادبی اکادمی‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس اکادمی کے زیرِ اہتمام پنجابی زبان کے تمام تر صوفیاء کرام کے کلام کو مرتب کر کے تحقیقی اور تنقیدی مقدمے لِکھ کے شائع کیا۔ ان میں ’’ کلیاتِ بُلھے شاہ، ہیر وارث شاہ، ہیر شاہ جہان مقبل، میاں محمد بخش کی سیف الملوک، نادر شاہ دی وار از نجابت، پیر محمد کی چٹھیاں دی وار، شاہ محمد کی سِکھاں دی وار،پیلو کی مرزا صاحباں، حافظ برخوردار کی مرزا صاحباں، کلیاتِ ہدایت اللہ از میاں ہدایت اللہ، کلیاتِ علی حیدر ملتانی، کُکارے ،کُلیاتِ ہاشم شاہ ، اور بول فریدی از بابا فریدالدین گنج شکرؒ شامل ہیں۔1960
ء میں پنجاب کے عظیم صوفی شاعر حضرت بابا بُلھے شاہؒ کے فکروفن پر ایک تحقیقی اور تنقیدی کتاب ’’بُلھے شاہ فن تے شخصیت‘‘ لکھی۔
اسی سال چھٹی جماعت کے لیے پنجابی کی نصابی کتاب ’’ پنجابی دی پہلی کتاب ‘‘ کے عنوان سے ترتیب دی۔ علاوہ ازیں ساتویں جماعت کے لیے ’’پنجابی دی دوجی کتاب‘‘ کے عنوان سے اور’’پنجابی دی تیسری کتاب‘‘آٹھویں جماعت کے لیے اور پھر ’’پنجابی کتاب ‘‘کے عنوان سے نویں دسویں جماعت کے لیے ڈاکٹر مہر عبدالحق کے اشتراک سے نصابی کتاب تیار کی۔ ان کتب کی اشاعت نیشنل ٹیکسٹ بُک کارپوریشن لاہور نے کی۔
’’پنجابی زبان تے ادب دی مختصر تاریخ‘‘ پنجابی میں اور مرکزی اُردو بورڈ کے زیرِ اہتمام ایک کتاب ’’ پنجابی زبان وادب کی تاریخ‘‘ تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل اُردو زبان میں تحریر کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : پنجابی زبان کے نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار وارث لدھیانوی کا یوم وفات
——
علاوہ ازیں ’’تاریخ گوجرانوالہ‘‘ بھی اُردو زبان میں تحریر کی۔پنجابی زبان میں نظری تنقید کی اوّلین کتاب ’’ مہکدے پُھل‘‘ تحریر کی، جس میں پنجاب کے عظیم صوفیاء کی زندگیوں کے احوال و آثار اور فکر و فن پر تحقیقی اور تنقیدی مقالے تحریر کیے۔
مرکزی اُردو بورڈ جو اب اُردو سائنس بورڈ بن چکا ہے کے زیر اہتمام ہیروارث شاہ کا اُردو ترجمہ کیا۔ فارسی زبان کے شہرہ آفاق شاعر عُمرخیام کی رُباعیات کا پنجابی رُباعیات کی صورت میں ترجمہ کیا۔
مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی کی سیرت النبی کے موضوع پر اُردو نثر میںلکھی ہوئی مشہورِ زمانہ کتاب ’’النبی الخاتم‘‘ کا منظوم پنجابی ترجمہ کردیا۔ وہ تمام عُمر پنجابی زبان و ادب کے طلباء اور شائقین کے درمیان شمع بن کر جلتے رہے۔ علامہ علاؤالدین صدیقی کی وائس چانسلری کے دَور میں پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے پنجابی کی کلاسیں شروع کروائیں۔
پنجاب یونی ورسٹی میں فاضلِ پنجابی کا امتحان پاس کرنے والوں کو وہی حقوق دلائے، جو دوسرے مضامین میں فاضل کا امتحان پاس کرنے والوں کو ملتے تھے۔اُن کی ذاتی فائلوں اور ڈائریوں سے ملنے والے بے شمار سرکاری خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف سطح کے تعلیمی اور امتحان لینے والے اداروں میں لیکچرز دینے اور زبان و ادب کے ممتحن کی حیثیت میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
گویا پنجابی زبان میں باقاعدہ فنی نثر نویسی کا آغاز اُنھوں نے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی پنجاب میں پنجابی پرچہ کاری کی مضبوط بنیاد یں استوار کیں۔پنجابی زبان کو معاصر ترقی یافتہ زبانوں کی مانند عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اور اسے علمی ادبی اخباری صحافتی تعلیمی اور معاشرتی سطح پر ایک معیاری اور ترقی یافتہ زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے انتھک جدو جہد کی اور سر گرم تحریک چلائی۔ بلا شبہ وہ پنجابی زبان کے نہایت عظیم فلسفی، شاعر، مفکر اور سیوک تھے۔ ہم بلا مبالغہ پنجابی زبان کی بیسویں صدی کو بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نام کے ساتھ منسوب کر سکتے ہیں۔
——
تیری یاد ستائے بابا
باغ توں آپ اگائے جیہڑے
بیجے آپ بیائے جیہڑے
پُھل نیں او کرمائے بابا
تیری یاد ستائے بابا
ڈھاندی اے جد ہمت ڈھیری
آوے تیری یاد بتھیری
آپ کمائی دولت تیری
جد کوئی سادھ چرائے بابا
تیری یاد ستائے بابا
دھوکھا جد کوئی پائے جھولا
دِسنا ایں توں ہوندا ہولا
بھکھے جد پاندے رولا
رون جدوں تریہائے بابا
تیری یاد ستائے بابا
(ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا قائداعظم محمد علی جناح کے لئے خراج عقیدت)
——
منتخب کلام
——
دو مصرعے
——
رکھیں لوکاں نال ‘فقیرا’ ایسا بہن کھلون
کول ہوویں تے ہسن سارے نہ ہوویں تے رون
——
دکھیاراں دے دکھاں دے وچ جنداں جالن والے
وسدے رہن اجاڑاں دے وچ دیوے بالن والے
——
باجھ عجز نہ ملے ‘فقیرا’ بندے نوں وڈیائی
رلکے علم دے نال تکبر رہن نہ دے وڈیائی
——
بندا اے متاکبر بندہ رہِ کے اجزوں دور
نیک نصیحت دا انکاری کردا قبر ضرور
——
فانی دنیا دے وچ وڈا آپ نوں جانن کبّ
وڈا دوہاں جہاناں دے وچ جان ‘فقیرا’ ربّ
——
رہنی سدا صفائی دل دی بھلی ‘فقیرا’ ریت
دل جے پاک نہ ہووے ہووے سارا بدن پلیت
——
کتھے گئے اوہ لوک ‘فقیرا’ وسدا چھڈّ جہان
وڈیاں عمراں سن جنہاں دیاں اچے سن نشان
——
بیہالاں نوں جنہاں ‘فقیراں’ دتی کدے امان
کتھے گئے اوہ عادل حاکم پچھے چھڈّ جہان
——
وسدا جگّ ہاسد دا ہندا انت ‘فقیر’ اجاڑ
پتھر حسد دا دندا ہاسد دا ای متھا پاڑ
——
آکڑ خانی بندے دی وچ دنیا قدر گھٹائے
نال خلق دے خلق ‘فقیرا’ خالق نال ملائے
——
سوبھا دے سر چڑھ کے بولے بندے دی تعریف
رکھے فضل کمال ‘فقیرا’ اپنے کول شریف
——
حرصی دے نال حرصاں کوئی بھر سکے نہ پوٹ
عیبی بھیڑا دل وچ رکھے سدا ‘فقیرا’ کھوٹ
——
حالَ حیران ہمیشہ رہندا مورخ نقطہ چین
وچ ہنیرے دلاں ‘فقیرا’ چانن کرے یقین
——
لوبھی حرصاں نوں گل لاون صابر دین طلاق
روزی دتی ونڈ ‘فقیرا’ پہلے دنوں رزاق
——
مڈھ قدیموں امر رضا دا مہکم اے دستور
منّ لیاں تقدیر ‘فقیرا’ غم ہندے نے دور
——
ودھدے جگّ پواڑے جانے ودھدے دولت دم
کٹھا کرکے مال ‘فقیرا’ نہ کر کٹھا غم
——
سکا تیلا بن کے بھردی کلر لائی داب
مورخ دی اے سانجھ ‘فقیرا’ کردی عقل خراب
——
بخل-بخیلا بریاں نوں اے لاؤندا عیب ہزار
نال سخاوت سخی ‘فقیرا’ بندا اے سردار
——
تھکے کٹّ وگار وگاری کرن کویں مڑ کار
لائے مدت بعد ‘فقیرا’ درباناں دربار
——
دکھاں دے وچ کرن نہ دردی کدی ‘فقیرا’ سی
یاری سکھ دی ساتھن جھگڑا برا بدی دا بی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔