آج معروف شاعر نواب مصطفٰی خان شیفتہ کا یوم پیدائش ہے

——
نواب مصطفٰی خان شیفتہ 27 دسمبر 1809ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی کے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔
انھوں نے الطاف حسین حالی کو مرزا غالب سے متعارف کروایا تھا۔
شیفتہ کے تمام اساتذہ کے نام نہ معلوم ہو سکے البتہ میاں جی مالا مال جو دہلی کے سر بر آوردہ معلم تھے ، سے فارسی اور عربی پڑحی ۔
تجوید اور حدیث کی تعلیم مولانا حاجی محمد نور دیلوی نقشبندی سے پائی ۔
——
آغازِ شاعری
——
مصطفٰی خان شیفتہ نے ۱۸۲۴ میں شعر و شاعری کے میدان میں قدم رکھا ۔ شیفتہ کی علمی استعداد قدیم نصاب تعلیم کے مطابق اچھی خاصی ہو چکی تھی ۔ وہ عربی ، فارسی اور اردو میں شعر موزوں کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ پھر فطرت سے موزوں طبع اور ذہن رسا لے کر آئے تھے ۔ دہلی کے شرفاء کے لیے شاعر ہونا بھی کمالات علمی میں داخل تھا ۔ شاہ نصیر ، حافظ عبد الرحمان احسان ، سرور ، حکیم قدرت اللہ قاسم ، نظام الدین ممنون ، محمد ابراہیم ذوق ، اسد اللہ خان غالب اور محمد مومن خان مومن وغیرہ بزمِ ریختہ گوئی کو آراستہ کیے ہوئے تھے ۔
بادشاہِ وقت اکبر ثانی اور ولی عہد بہادر شاہ ظفر شعرا کی سرپرستی کر رہے تھے ۔ شیفتہ ان شعرا سے کس طرح نہ متاثر ہوتے ، شعر و شاعری میں حصہ لیا اور مشقِ سخن سے کمال حاصل کیا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مصطفیٰ کے کوچے میں نور کے بسیرے ہیں
——
شاگردی
——
اس وقت نوجوان شعرا میں غالب اور مومن زیادہ نام آور تھے ، لیکن غالب کے طرزِ بیدل پر بعض ارباب سخن معترض تجے جن میں آزردہ سر فہرست تھے ۔ اس لیے مصطفٰی خان شیفتہ مومن سے مشورۂ سخن حاصل کرنے لگے ۔
——
سفرِ حجاز
——
مصطفٰی خان شیفتہ کی والدہ اور نانی نے بھی بیت الحرام کے سفر کا ارادہ کیا ، ۔ دہلی سے یہ قافلہ روانہ ہوا ۔ منزل بہ منزل بمبئی تک خشکی کا سفر طے کیا ۔ اس کے بعد بحری سفر شروع ہوا ۔ راستے میں جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گیا ۔ شیفتہ اور دوسرے مسافروں نے ایک جزیرے میں پناہ لی ۔ ناقابلِ بیان سختیاں اٹھا کر آخر مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔
حج سے فراغت پائی تو شیفتہ کی ماں اور نانی چار دن کے فصل سے عالم آخرت کو سدھار گئیں اور جنت البقیع میں جگہ پائی ۔
دو مہینے پانچ دن تک مکہ معظمہ میں قیام کر کے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور دیارِ حبیبِ خدا کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ سرورِ کائنات نے اپنی مہمان نوازی سے سرفراز کیا اور شیخ الحرم کو خواب میں ہدایت فرمائی کہ انہیں اپنا مہمان کرے ۔ اس کے بعد طائف وغیرہ کو دیکھتے ہوئے مکہ معظمہ کی زیارت سے دوبارہ سرفراز ہو کر وطن واپس ہوئے ۔ اور دو سال چھ دن بعد دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے ۔
——
تقویٰ
——
وہی رندِ شاہد باز شیفتہ سفرِ حجاز کے بعد پاک باز اور متقی بن گئے ۔ کل تک جو مومن کے فتوے پہ عمل کرتے رھے اور داد عیش دے کر یہ کہتے تھے کہ
——
شیفتہ حضرتِ مومن کا ہے فتویٰ بس اب
حسرتِ حُرمتِ صہبا و مزامیر نہ کھینچ
——
اب انہوں نے اپنے سابقہ رویے میں ترمیم کر کے اس طرح تبدیلی ضروری سمجھی
——
وجد کو زمزمۂ مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ ناز مغنی و مزامیر نہ کھینچ
——
مصطفٰی خان شیفتہ کی زندگی میں جو انقلاب سفر حجاز سے پیدا ہوا تھا وہ تمام عمر رہا ۔ شاہ اسحاق کے بعد ابو سعید اور احمد سعید مجددی خلفائے مولانا شاہ غلام علی سے شیفتہ استفادہ کرتے رہے ۔ آخر میں شاہ عبد الغنی سے تجدید بیعت کی اور انہوں نے سلسلہ نقشبندیہ کی سند خلافت بھی دی۔
——
وفات
——
شیفتہ کو ذیابیطس کا مرض تھا ۔ آخر عمر میں کالا دانہ نکلا اور یہ جان لیوا ثابت ہوا ۔ شیفتہ بیماری کے دنوں میں دہلی میں ہی مقیم تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں
——
شادی اور اولاد
——
بقول مالک رام شیفتہ نے دو نکاح کیے تھے ۔ پہلی بیوی سے محمد علی خان متخلص بہ رشکی پیدا ہوئے اور دوسری بیوی افضل بیگم سے دو لڑکے نقش بند خان اور محمد اسحاق پیدا ہوئے ۔
نقش بند خان کی تعلیم کے لیے مولانا حالی مقرر ہوئے تھے ۔
——
تصانیف
——
گلشنِ بے خار
تقریظ: غالب پر تعریفی تنقید
دیوانِ اردو شیفتہ
سفر نامۂ حجاز
دیوان فارسی اور رقعات فارسی
——
شعرا اور ادباء کی آراء
——
حالی یادگارِ غالب میں ان کی مرزا سے شاگردی کے بارے میں لکھتے ہیں :
شیفتہ اگرچہ مرزا کے تلامذہ میں شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ جب تک مومن خان زندہ رہے انہیں سے مشورۂ سخن کرتے رہے ۔ لیکن خان موصوف کی وفات کے بعد ریختہ اور فارسی دونوں زبانوں میں وہ مرزا کو اپنا کلام دکھاتے اور اگر ہمارا قیاس غلط نہ ہو تو مرزا کے بعد ان کے معاصرین میں سے کسی کی فارسی غزل ان کی غزل سے لگا نہیں کھاتی تھی اور شعر کا جیسا صحیح مذاق اُن کی طبیعت میں پیدا کیا گیا تھا ویسا بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے ۔
لوگ ان کے مذاق کو شعر کے حسن و قبح کا معیار جانتے تھے ۔ ان کے سکوت سے شاعر کا شعر خود اُس کی نظر سے گر جاتا تھا ۔ اور اُن کی تحسین سے اُس
کی قدر بڑھ جاتی تھی ۔ یہی وہ شخص تھے جن کی نسبت مرزا غالب فرماتے ہیں :
——
غالب بہ فن گفتگو نازد بہ ایں ارزش کہ او
——
نصر اللہ خاں قمر کی رائے ہے :
نکتہ سنج ، زباں داں ، در نظم و نثر یکتائے زماں ، فصاحت و بلاغت از طرز کلامش پیدا ، وسعت خاطر و جودت طبع از ریختہ قلمش ہویدا ، عدیم المثال ، کریم الخصال ، دانائے رموز معانی ، بینائے غوامض نکتہ دانی ، تذکرہ گلشن بے خار بہ عبارت شستہ و رفتہ و آب دار یادگار است ، فاما خالی از خار نیست ، چہ گلشن را خار لازم و آں لزوم تعصب است ، الحق کہ جز ذاتِ حق از عیب خالی نیست ۔ لیکن آں بزرگ فارسی خوش گفتہ گویا کہ در سفتہ ۔ چہ دریں جزو زماں شخصے از امراے ہندوستاں چنیں بے نظیر بر نخاستہ ۔ خدائے تعالیٰ ذاتِ گرامی او را پائندہ دارد۔۔۔
——
صفا بدایونی لکھتے ہیں :
شیفتہ۔ شاگرد مومن دہلوی ۔ اردو فارسی دونوں زبانوں میں خوب شعر کہا کرتے تھے ۔
——
سرسید حامد خان "آثار الصنادید” میں اس طرح لکھتے ہیں :
نواب محمد مصطفیٰ خان ریختے میں شیفتہ اور فارسی میں حسرتی تخلص کرتے ہیں ۔ باوجود نازو نعم ثروت کے مشقِ سخن کو اس مرتبے تک پہنچایا ہے کہ قلم تردد سے آسودہ نہیں ہوتا اور فکر کی تلاش سے ۔ بلبل کی سجع خونای سے اور قمری کی فصیح بیانی انہیں کی نستعلیق گوئی سے مستفساد ہے ۔ الحق پایہ فصاحت کا اور سرمایہ بلاغت کا خدا داد ہے ۔
——
حالی کے ایک خط سے شیفتہ کی علمی استعداد نظروں کے سامنے آ جاتی ہے ۔ ملاحظہ ہو :
غدر کے جب کئی برس پانی پت میں بے کاری کی حالت میں گزر گئے تو فکر معاش نے گھر سے نکلنے پہ مجبور کیا ۔ حسنِ اتفاق سے نواب مصطفیٰ خان مرحوم سے شناسائی ہو گئی اور آٹھ برس تک ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مری آنکھوں نے اے دلبر عجب اسرار دیکھا تھا
——
مصطفٰی خان شیفتہ صاحب جس درجے کے فارسی اور اردو زبان کے شاعر تھے اس کی بہ نسبت اُن کا مذاق شعری بہ مراتب بلند تر اور اعلیٰ تر واقع ہوا تھا ۔
شعیفتہ مبالغے کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دل فریب بنانا اسی کو منتہائے کمالِ شاعری سمجھتے تھے ۔
چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے ۔
حالی کا کہنا تھا :
——
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے ، مقلد ہے میر کا
——
حسرت موہانی لکھتے ہیں :
شعرائے دہلی کے قدیم انداز کی کیفیتیں جیسی ان کے کلام میں پائی جاتی ہیں ویسی ان کے معاصرین میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ، بلکہ حق یہ ہے کہ اس باکمال کے ساتھ دہلی کے قدیم طرز سخن کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ شیفتہ کے بعد ، بہ استثنائے چند ، اہل دہلی سے علوم و فنون کا چرچا جاتا رہا ۔ یہاں تک کہ وہ فارسی سے بھی بیگانہ ہوتے گئے ۔
——
منتخب کلام
——
اظہار عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہؔ
یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا
——
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
——
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
——
جس لب کے غیر بوسے لیں اس لب سے شیفتہؔ
کمبخت گالیاں بھی نہیں میرے واسطے
——
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
——
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
——
فسانے یوں تو محبت کے سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے
——
یہ بھی پڑھیں : خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
——
گہ ہم سے خفا وہ ہیں گہے ان سے خفا ہم
مدت سے اسی طرح نبھی جاتی ہے باہم
کرتے ہیں غلط یار سے اظہار وفا ہم
ثابت جو ہوا عشق کجا یار کجا ہم
کچھ نشۂ مے سے نہیں کم نشۂ نخوت
تقویٰ میں بھی صہبا کا اٹھاتے ہیں مزا ہم
موجود ہے جو لاؤ جو مطلوب ہے وہ لو
مشتاق وفا تم ہو طلب گار جفا ہم
نے طبع پریشاں تھی نہ خاطر متفرق
وہ دن بھی عجب تھے کہ ہم اور آپ تھے باہم
کیا کرتے ہیں کیا سنتے ہیں کیا دیکھتے ہیں ہائے
اس شوخ کے جب کھولتے ہیں بند قبا ہم
یہ طرز ترنم کہیں زنہار نہ ڈھونڈو
اے شیفتہؔ یا مرغ چمن رکھتے ہیں یا ہم
——
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
فرش رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
خاک ہو رونق گلزار ترے کوچے میں
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں
ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
لے گیا شوق غلط کار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرت دیدار ترے کوچے میں
ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
خلد میں روح تن زار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے کہاں رہتے ہو
ترے کوچے میں ستم گار ترے کوچے میں
شیفتہؔ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
——
اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
کچھ تو ہی اثر کر، ترے قربان خموشی!
نالوں سے تو کچھ کام مرا ہو نہیں سکتا
گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلم
کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا
کھولے گرہِ دل کو ترا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
زنہار یہ اے راہ نما! ہو نہیں سکتا
میں نے جو کہا ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، ہو نہیں سکتا
یہ رازِ محبت ہے نہ افسانۂ بلبل
محرم ہو مری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
——
یہ بھی پڑھیں : تیرا نقشِ قدم شہِ نوّاب
——
تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب
شکوہ مجھے نہ ہو جو مکافات حد سے ہو
واں صلح ایک دم ہے لڑائی تمام شب
یہ ڈر رہا کہ سوتے نہ پائیں کہیں مجھے
وعدے کی رات نیند نہ آئی تمام شب
سچ تو یہ ہے کہ بول گئے اکثر اہلِ شوق
بلبل نے کی جو نالہ سرائی تمام شب
دم بھر بھی عمر کھوئی جو ذکرِ رقیب میں
کیفیتِ وصال نہ پائی تمام شب
تھوڑا سا میرے حال پہ فرما کر التفات
کرتے رہے وہ اپنی بڑائی تمام شب
وہ آہ، تار و پود ہو جس کا ہوائے زلف
کرتی ہے عنبری و صبائی تمام شب
وہ صبح جلوہ، جلوہ گرِ باغ تھا جو رات
مرغِ سحر نے دھوم مچائی تمام شب
افسانے سے بگاڑ ہے، ان بن ہے خواب سے
ہے فکرِ وصل و ذکرِ جدائی تمام شب
جس کی شمیمِ زلف پہ میں غش ہوں شیفتہ
اس نے شمیمِ زلف سنگھائی تمام شب
——
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا
جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا
یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا
قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا
دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا
رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام، نہ ہو گا
برق آئینۂ فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا
اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا
اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا
اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا
——
حوالہ : کلیاتِ شیفتہ صفحہ نمبر ۱۵ تا ۳۶
1809 تا 1869
——