اردوئے معلیٰ

آج نامور شاعر نظم طبا طبائی کا یوم وفات ہے

نظم طبا طبائی
(پیدائش: 29 نومبر 1852ء – وفات: 23 مئی 1933ء)
——
جناب نظم طبا طبائی کی عظیم المرتبت اور بھاری بھر کم شخصیت دنیائے ادب اور خاص کر اہل حیدرآباد کیلئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔ یہ وہ صاحب قلم ہیں جنہوں نے اردو کو نہایت متین اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ایسے اصول و ضوابط و ضع کئے کہ ہر قسم کے دقیق اور جدید سائنسی مضامین ادب کی چاشنی کے ساتھ با آسانی تحریر کئے جاسکتے ہیں ۔نظم طبا طبائی حیدرآباد کے دارالترجمہ اور مجلس وضع اصطلاحات کے قیام کے روز اول سے تاحیات وابستہ رہے اور دارالترجمہ کے ناظر ادبی کی حیثیت سے دیکھئے تو کوئی کتاب ایسی نہ تھی جس کے ترجمہ ہونے کے بعد اس کے ہر ہر لفظ کو اور جملوں کی ساخت کو انہوں نے دیکھا اور پرکھا نہ ہو ۔ یوں سمجھئے کہ جامعہ عثمانیہ کے اردو میں تمام تدریسی مواد کی صحتِ زبان پر نظم طبا طبائی کی مہر تصدیق ثبت تھی ۔
ان کی اسکریننگ کے بعد ہی کوئی ترجمہ لائق طباعت و اشاعت سمجھا جاتا تھا ۔نقد و نظر ‘ شاعری ‘ نثر نگاری ‘ ترجمہ ‘ قواعد ‘ عروض ‘ ضائع بدائع یا اور کوئی شعبہ زبان ایسا نہ تھا جس میں نظم ؔ صاحب کا اجتہاد داخل نہ ہو ۔ ان کے زبان سے متعلق کسی بھی فیصلے کو ادبیات کی دنیا میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ اس کی تردید کرتا یا اس کے بر خلاف رائے دیتا ۔ ہماری زبان میں جناب نظم طبا طبائی ایک طرح سے مجتہد جامع الشرائظ تھے ۔ جناب نظم طبا طبائی کا سلسلہ نسب حسنی سادات سے ملتا ہے ۔ امام حسن ؑ کے پوتے جناب اسمعٰیل تھے جن کا لقب ’’طبا طبا‘‘ تھا اس لئے یہ سلسلہ طباطبائی کے نام سے موسوم ہے ۔
ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور لکھنؤ میں آکر آباد ہوئے ۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ سید محمد خان عرف آغا میر کے خاندان کی تھیں اور ان کے والد سید مصطفےٰ حسین دربار اودھ سے وابستہ تھے ۔
18 نومبر 1853ء کو محلہ حیدرگنج قدیم میں بروز جمعہ نظمؔ طباطبائی پیدا ہوئے ۔ سید علی حیدر نام تھا۔ کبھی نظمؔ اور کبھی حیدرؔ تخلص کرتے تھے ۔ علم و فضل میں یہ خاندان لکھنؤ میں مشہور تھا ۔ نظمؔ صاحب کی تعلیم ایک مکتب میں ہوئی جہاں ملا باقر جیسے عالم ان کو پڑھاتے تھے عربی ادب اور فقہ میں استعداد علمی کا آغاز انہیں بزرگ اساتذہ کی بدولت ہوا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : دستِ قدرت کے اشارے ڈھونڈتے پھرتے ہو تم
——
فارسی اور علم عروض کی تعلیم انہوں نے میندولال رازؔ سے حاصل کی ۔ 1868ء میں پندرہ برس کی عمر میں یہ اپنی والدہ کے ساتھ مٹیا برج (کلکتہ ) چلے آئے جہاں واجد علی شاہ کی بدولت ایک چھوٹا لکھنؤ آباد ہوگیا تھا ۔ یہاں مولانا محمد علی مجتہد العصر سے درسِ نظامی منطق اور فلسفہ پڑھا اور اس طرح اپنی تعلیم مکمل کی ۔ پھر وہ مٹیا برج میں ہی واقع شہزادگانِ اودھ کے لئے قائم کردہ مدرسہ میں ملازم ہوگئے ۔
مدرسہ کے انگریزی کے استاذ محمد عسکری سے انہوں نے انگریزی زبان سیکھی اور اسکے بدلے عسکری صاحب کو عربی پڑھائی ۔واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مدرسہ ٹوٹ گیا تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا ۔ پھر مولوی سید افضل حسین لکھنؤی ‘ چیف جسٹس حیدرآباد کی دعوت پر 1887ء میں نظمؔ صاحب حیدرآباد آگئے ۔ افضل حسین صاحب سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اس سے قبل تفریحاً حیدرآباد آئے تھے ۔ کسی مستقل معاشی وسیلہ کے فراہم ہونے تک افضل حسین صاحب نے اپنے فرزند آغا سید حسین کی اتالیقی ان کے سپرد کی ۔ 1889ء میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی نے جو ناظم تعلیمات تھے نظمؔ صاحب کو مدرسہ اعزہ میں عربی کا استاد مقرر کردیا ۔ 1890ء میں کتب خانہ آصفیہ کے پہلے مہتمم بنائے گئے ۔ اس کی تنظیم اور توسیع میں نظمؔ صاحب نے بڑی دلچسپی لی ۔ اس وقت یہ کتب خانہ اس جگہ تھا جہاں پر اب صدرٹپہ خانہ عابد روڈ سرکل پر ہے ۔
اسکے بعد مدرسہ عالیہ میں عربی فارسی کے استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ۔ پھر ان کا تبادلہ نظام کالج کردیا گیا جہاں پہلے عربی اور فارسی پڑھاتے رہے پھر اردو کے پروفیسر بنادئے گئے ۔ 1912ء میں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک شہزادگان آصفیہ کے اتالیق رہے پھر نظام سابع کے حکم سے 1918ء نظمؔ صاحب کو صرفِ خاص مبارک سے جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ منتقل کردیا ۔ یہاں پر ان کی تدریسی مشغولیات ختم ہوئیں اور علمی اور ادبی تحقیقات کی زندگی کا آغاز ہوا ۔ 1921ء میں وظیفہ پر علحدہ ہونے کے بعد ان کو دوبارہ ملازمت پر بلالیا گیا کیونکہ ان کے بغیر بہت سے کام رک گئے تھے۔
ملازمت کا یہ سلسلہ ان کے انتقال 1933ء تک جاری رہا ۔
سرکاری وظیفہ کے علاوہ ان کو دارالترجمہ کی خدمت اور تاریخ طبری کے اردو ترجمے پر انعام واکرام سے نوازا گیا تھا ۔ 1927ء کو انہیں سرکار نظام کی طرف سے حیدریارجنگ کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔
شاعری میں انکے شاگردوں میں سلطنت اودھ اور سلطنت آصفیہ کے شہزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیائے ادب میں نامور ہوئے ۔ مرزا آسمان جاہ انجم ‘ پرنس جہاں قدرنیر (داماد واجد علی شاہ )‘ عبدالحلیم شرر ‘ پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ‘ منشی فیاض الدین فیاض ؔ ‘ سید غلام مصطفےٰ ذہین ‘ سید ناظر حسین ہوش بلگرامی ‘ مہاراجہ کرشن پرشاد، نواب تراب یارجنگ سعید، حکیم محمد عابد غیور ؔ ، شہید یارجنگ شہید، اصغر یارجنگ اصغر ؔ اور میرے والد سید علی محمد اجلال ۔ یہ نسبت دیگر ماہرین زبان کے نظمؔ صاحب کی شہرت یوں عام نہیں ہے ان کے رشحاتِ قلم اتنے بلند ہیں کہ ان کو پڑھنے والا اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے گھبراتا ہے اور اس لئے صرف نظر کرلیتا ہے ۔
جب نظمؔ صاحب نے دیوان غالبؔ کی شرح اعلیٰ جماعتوں میں پڑھنے والے اور ریسرچ کے طالب علموں کی مدد کے لئے لکھی تو عام ادیبوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ شرح ایسی ہے جس کیلئے ایک اور شرح کی ضرورت ہے ۔ یہ بالواسطہ اعتراف کم علمی تھا ۔ یہ نظم طبا طبائی کی ہی جلالتِ علمی تھی کہ انہوں نے غالب کے ہر شعر پرنگاہ ڈالی اور اسکے محاسن اور معائب پر بے لاگ تبصرہ کیا اور جو فیصلہ انہوں نے سنادیا وہ آج تک حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شرح عوام کے لئے نہیں لکھی گئی تھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہر اک جانب ہے جلوہ روشنی کا
——
ویسے بھی دیکھا جائے تو غالب کا کلام باوجود شہرت کے جس قدر عام آدمی کے لئے ہے وہ صرف چند ہی اشعار پر مشتمل ہے ۔ غالب کے کلام کے دیگر شارحین نے نظمؔ صاحب کی شرح کو ہی پیش نظر رکھا ہے یا ان ہی کے اشارات کو تفصیل یا اجمال یا تکرار سے بیان کیا ہے ۔ اور اختلاف وہاں کیا ہے جہاں انہوں نے غالب ؔ کے خلاف لکھا ہے ۔
غالب ؔ کے بعد شاعری میں جو تجربے کئے گئے وہ موضوع کے اعتبار سے تھے جس میں ردیف ‘ قافیہ ‘ اور بحر کی ساری رائج الوقت پابندیاں سامنے رکھی گئی تھیں لیکن نظم ؔ صاحب نے یہ اجتہاد کیا کہ نظمؔ اور شعر کی ’’ہئیت ‘‘ میں نئے نئے تجربات کئے ۔ غزل ‘ مثنوی ‘ رباعی وغیرہ کی عام ہئیت سے ہٹ کر انہوں نے اردو میں اسٹینز (stanza) کو رائج کیا اور انگریزی ساخت کی نظمیں لکھیں جو ایک بالکل نئی چیز تھی ۔ انہوں نے انگریزی منظومات کے اردو منظومات میں انگریزی نہج پر ترجمے کئے اور ایک نئی بات یہ کی کہ ردیف اور قافیہ انگریزی اصولوں کی بناء پر متعین کئے ۔
نظمؔ صاحب کے بعد ہی اردو میں اسٹینزا نویسی کا آغاز ہوا ۔ نظم طبا طبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گورغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ ’’گورغیرباں ‘‘ کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسکی ادب اردو کی بلند پایہ منظومات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔
بقول پروفیسر سروری کے یہ ان چند ترجموں میں سے ایک ہے جو اصل سے بڑھ گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک اٹھا ہے ۔ یہ نظمؔ اس طرح شروع ہوتی ہے ۔!
——
وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
——
چونکہ یہ ایک مرثیہ کا ابتدائی بند ہے اسلئے اگر آپ اسکی لفظیات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ الفاظ وداع ،شامِ غریباں ، بے زبانی ، ویرانہ وغیرہ ایسے ہیں جو نوحہ گری کا ماحول پیدا کررہے ہیں اس کے علاوہ بحر میں بھی ایک دھیمے قسم کا سوز پایا جاتا ہے ۔ یہی تاثرات کم و بیش آخر تک موجود ہیں ۔ اس مختصر مضمون میں تحسین کی زیادہ گنجائش نہیں ہے صرف ایک بند کی طرف توجہ دلانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا بے نام،غریب اور معصوم زندگی جی کر گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوجانے والوں کے لئے کتنی خوبصورت تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں ۔
——
بہت سے گوہر شہوار باقی رہ گئے ہونگے
کہ جن کی خوبیاں سب مٹ گئیں تہہ میں سمندر کی
ہزاروں پھول دشت و در میں ایسے بھی کھلے ہونگے
کہ جن کے مسکرانے میں ہے، خوشبو مشک اذفر کی
(ازفر۔ تیز خوشبو )
——
طباطبائی کی شعری تخلیقات صرف دو ۔ دو ادین کی صورت میں ہیں ۔ ایک دیوان قصائد اور منظومات کا ہے جو ’’ نظم طبا طبائی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور دوسرا دیوان ’’صوتِ تغزل‘‘ ہے ۔ غزلیں ساری فرمائشی ہیں یا کسی مصرعہ طرح پر ہیں ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ارادے سے کبھی کوئی غزل نہیں کہی ۔ ان کے کچھ اشعار یہ ہیں ۔
——
عبث ہے آپ کی تغیر حال کا رونا
جناب نظمؔ رہی ایک سدا کس کی
اے صبا ! تذکرہ وطن کا نہ کر
رہنے والے ہیں دشتِ غربت کے
آدمی آدمی کے کام آئے
یہی معنی ہے آدمیت کے
تقدیر کے لکھے کو نہ ہرگز برا سمجھ
لغزش محال ہے قلم کارساز میں
——
نظمؔ صاحب دراز قد ‘ کسی قدر مٹانے کی طرف مائل جسم ‘کتابی چہرہ ‘ بھرے بھرے گال ‘ گھنی داڑھی اونچی ناک ‘ غلافی آنکھیں (مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے آنکھوں کے پپوٹے ڈھلک گئے تھے ) اور سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے ۔ شیر وانی زیب تن کرتے تھے ۔ کبھی ایرانی کبھی ترکی ٹوپی پہنتے تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور ہے جہاں میں حضور! آپ کی عطا
——
آصف جاہی دربار میں ان پر درباری لباس کی پابندی نہیں تھی ۔1928ء میں رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد ان کی عام تندرستی بہت خراب ہوگئی مگر ان کی مصروفیات میں کوئی خلل نہیں آسکا چنانچہ انتقال سے دودن قبل تک وضع اصطلاحات کی مجلس میں شریک رہے ۔ 23 مئی 1933ء بروز سہ شنبہ داعی اجل کو لبیک کہا ۔ باغ مرلی دھر کے عقب میں تکیہ موسیٰ شاہ قادری میں مدفون ہوئے ۔ ان کے مدفن پر جوکتبہ لگا ہے اس پر ان کا یہ شعر کندہ ہے ۔
——
مل گئی قبر کی جگہ اے نظمؔ
ہو گئی ختم عمر بھر کی تلاش
——
اور اسی لوح کی دوسری طرف ’’گور غریباں ‘‘ کے آخری بنددرج ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ طامس گرے کے مزار پر بھی یہی اشعار انگریزی میں تحریر ہیں ۔ سچ ہے کہ غم ہستی کے افسانے میں ساری انسانیت شریک ہے ۔
——
منتخب کلام
——
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
ہاتھ جس طرح سے آتا ہے گریباں کی طرف
——
کعبہ و بت خانہ عارف کی نظر سے دیکھیے
خواب دونوں ایک ہی ہیں فرق ہے تعبیر میں
——
دل اس طرح ہوائے محبت میں جل گیا
بھڑکی کہیں نہ آگ نہ اٹھا دھواں کہیں
——
ظاہر میں تو خاطریں مداراتیں ہیں
دل میں بیٹھا ہے چور اور گھاتیں ہیں
باقی نہیں ہم میں انتفاقِ کلمہ
جتنے منہ ہیں بس اتنی ہی باتیں ہیں
——
کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے
اپنے دل کو فگار کر بیٹھے
صبر کی اک قبا جو باقی تھی
اس کو بھی تار تار کر بیٹھے
آج پھر ان کی آمد آمد ہے
ہم خزاں کو بہار کر بیٹھے
وائے اس بت کا وعدۂ فردا
عمر بھر انتظار کر بیٹھے
خود جو غم ہیں تو آئنہ حیراں
کس غضب کا سنگھار کر بیٹھے
ہم تہی دست تجھ کو کیا دیتے
جان تجھ پر نثار کر بیٹھے
——
ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیاں مجھ کو
ملا ہمدم یہاں کوئی نہ کوئی ہم زباں مجھ کو
دکھائے جا روانی توسن عمر رواں مجھ کو
ہلال برق سے رکھ ہم رکاب و ہم عناں مجھ کو
بنایا ناتوانی نے سلیمان زماں مجھ کو
اڑا کر لے چلے موج نسیم بوستاں مجھ کو
دم صبح ازل سے میں نوا سنجوں میں ہوں تیرے
بتایا بلبل سدرہ نے انداز فغاں مجھ کو
مری باتوں میں کیا معلوم کب سوئے وہ کب جاگے
سرے سے اس لیے کہنی پڑی پھر داستاں مجھ کو
بہا کر قافلہ سے دور جسم زار کو پھینکا
کہ موج سیل تھی بانگ درائے کارواں مجھ کو
یہ دل کی بے قراری خاک ہو کر بھی نہ جائے گی
سناتی ہے لب ساحل سے یہ ریگ رواں مجھ کو
اڑائی خاک جس صحرا میں تیرے واسطے میں نے
تھکا ماندہ ملا ان منزلوں میں آسماں مجھ کو
تصور شمع کا جس کو جلا دے ہوں وہ پروانہ
لگ اٹھی آگ دل میں جب نظر آیا دھواں مجھ کو
وہ جس عالم میں جا پہنچا وہاں میں کس طرح جاؤں
ہوا دل آپ سے باہر پنہا کر بیڑیاں مجھ کو
غبار راہ سے اے نظمؔ یہ آواز آتی ہے
گئی اے عمر رفتہ تو کدھر پھینکا کہاں مجھ کو
——
یہ بھی پڑھیں : واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
——
تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے
وہ ہرزہ گرد ہوں کہ پری خانہ ساتھ ہے
ہنگامہ اک پری کی سواری کا دیکھنا
کیا دھوم ہے کہ سیکڑوں دیوانہ ساتھ ہے
دل میں ہیں لاکھ طرح کے حیلے بھرے ہوئے
پھر مشورہ کو آئینہ و شانہ ساتھ ہے
روز سیہ میں ساتھ کوئی دے تو جانیے
جب تک فروغ شمع ہے پروانہ ساتھ ہے
دیتا نہیں ہے ساتھ تہی دست کا کوئی
جب تک کہ مے ہے شیشہ میں پیمانہ ساتھ ہے
سیکھا ہوں میکدہ میں طریق فروتنی
جب تک کہ سر ہے سجدۂ شکرانہ ساتھ ہے
جو بے بصر ہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں دور دور
اور ہر قدم پہ جلوۂ جانانہ ساتھ ہے
کیا خوف ہو ہمیں زن دنیا کے مکر کا
اپنی مدد کو ہمت مردانہ ساتھ ہے
غم کی کتاب سے دل صد پارہ کم نہیں
جس بزم میں گئے یہی افسانہ ساتھ ہے
مانند گرد باد ہوں خانہ بدوش میں
صحرا میں ہوں مگر مرا کاشانہ ساتھ ہے
——
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں
یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں
تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں
اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا
یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں
اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں
ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں
محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں
طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو
منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی
معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں
اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر
کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں
زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو
مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں
اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے
دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ
سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں
کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی
مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں
اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر
بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے
وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں
اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا
کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : خوار ہے اُمت، پریشاں حال ہے ہر اُمتی
——
پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
لے خون میں نے بخشا تو یاد کیا کرے گا
ہوں دام میں پر افشاں اور سادگی سے حیراں
کیوں تیز کی ہیں چھریاں صیاد کیا کرے گا
ظالم یہ سوچ کر اب دیتا ہے بوسۂ لب
جب ہونٹ سی دیئے پھر فریاد کیا کرے گا
زنجیر تار داماں ہے طوق اک گریباں
زور جنوں نہ کم ہو حداد کیا کرے گا
ہم ڈوب کر مریں گے حسرت رہے گی تجھ کو
جب خاک ہی نہ ہوگی برباد کیا کرے گا
یعقوب قطع کر دیں امید وصل دل سے
یوسف سا بندہ کوئی آزاد کیا کرے گا
دل لے کے پوچھتا ہے تو کس کا شیفتہ ہے
بھولا ابھی سے ظالم پھر یاد کیا کرے گا
اے خط بیاض عارض درکار ہے جو تجھ کو
تحریر حسن کی کچھ روداد کیا کرے گا
کنج قفس سے اک دن ہوگی رہائی اپنی
مر جائیں گے تو آخر صیاد کیا کرے گا
مثل سپند دل ہے بیتاب سوز غم میں
رہ جائے گا تڑپ کر فریاد کیا کرے گا
اے شیخ بھر گیا ہے کیوں وعظ کی ہوا میں
ریش سفید اپنی برباد کیا کرے گا
ظلم و ستم سے بھی اب ظالم نے ہاتھ کھینچا
اس سے ستم وہ بڑھ کر ایجاد کیا کرے گا
ازبسکہ بے ہنر ہوں میں ننگ معترض ہوں
مضموں پہ میرے کوئی ایراد کیا کرے گا
اے نظمؔ جس کو چاہے وہ دے بہشت دوزخ
نمرود کیا کرے گا شداد کیا کرے گا
——
حوالہ : شرح دیوانِ غالب ، از نظم طبا طبائی
تحریر : سید محمد حسین محسن حیدرآبادی​
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات