اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف کلاسیکل شاعر جلیل مانک پوری کی برسی ہے۔

جلیل مانک پوری(پیدائش: 1866ء- وفات: 6 جنوری، 1946ء)
——
جلیل حسن نام ، جلیل تخلص۔ ۶۷۔۱۸۶۶ء میں مانک پور(اودھ) میں پیدا ہوئے۔
طالب علمی کا زمانہ لکھنؤ میں گزرا جہاں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔
ابتدا ہی سے سخن گوئی کا شوق تھا۔
بیس سال کی عمر میں امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔
۵؍ستمبر۱۹۰۰ء کو حضرت امیر مینائی کے ہمراہ حیدرآباد دکن پہنچے۔
حضرت داغ کی وفات کے بعد میر محبوب علی آصف نے اپنی استادی کا شرف بخشا اور ’’جلیل القدر‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔
جب نواب میر عثمان علی تخت پر بیٹھے تو انھوں نے بھی اپنی استادی کے شرف سے سرفراز کیا۔
آپ نے ’فصاحت جنگ بہادر‘ اور پھر ’امام الفن‘ کے لقب سے عزت افزائی کی۔
۶؍جنوری۱۹۴۶ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے۔
’’تاج سخن‘‘، ’’جان سخن‘‘ اور ’’روح سخن‘‘ ، تین دیوان ان کی یادگار ہیں۔
’’معراج سخن ‘‘ نعتیہ کلام اور سلام وغیرہ کا مجموعہ۔
’’معیار اردو‘‘ محاورات کا مجموعہ بھی ان کی تصانیف ہیں۔
’’تذکیر وتانیث‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے۔
——
بشکریہ وکی پیڈیا
——
یہ بھی پڑھیں : مہرباں مجھ پہ مرا جب کہ خدا ہو جائے
——
روحانی معتقدات کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے جو سب سے پرکشش چیز شروع سے چلی آرہی ہے وہ ہے حسن کی جلوہ نمائی کی خواہش دیدار۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب کوہ طور پر حسن ازلی کو نور کی شکل میں دیکھا تو بے ہوش ہوگئے۔ ہمارے شاعروں میں میر تقی میرؔ نے یہ دیکھا کہ حسن مجسم جب بزم میں آیا تو ایسی مستی کا عالم طاری ہوا کہ ان کی نگاہیں رخ پر بکھر بکھر گئیں اور ایک نقاب کا کام کرنے لگیں نظارہ نہ ہوسکا۔ حضرت داغؔ نے رخ روشن اور شمع کے حسن و نور کا انتخاب پروانے پر چھوڑ دیا خود کچھ فیصلہ نہ کرسکے۔ ان کے بعد حضرت جلیلؔ نے حسن کی جلوہ گاہ کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ نہ تو نگاہیں برق ہیں اور نہ ہی چہرہ آفتاب ہے لیکن خود ان میں دیکھنے کی تاب اور قوت برداشت نہیں ہے باوجود اس کے کہ حسن انسانی شکل میں ہے۔
——
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
——
جلیل مانک پوری کے شعر میں ’’آدمی‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جب کہ پچھلے شاعروں کے اشعار میں ایسا نہیں ہے یہی کلیدی لفظ اس شعر کا حسن ہے اور اسی لیے اسے قبول عام کی سند ملی ہے۔ اگر یہ مصرع یوں ہوتا کہ
نہ جانے کیا ہے جسے دیکھنے کی تاب نہیں
تو شعر کا مضمون معمولی سا ہوجاتا۔ اس حسین شعر کے خالق جناب جلیلؔ مانکپوری کا مزید تعارف یہ ہے۔
——
جلیلؔ حسن 1862ء میں قصبہ مانک پور (ضلع پرتاب گڑھ۔ اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا نام عبدالرحیم اور والد کا نام عبدالکریم تھا۔ یہ نہ معلوم ہوسکا کہ ان کے اجداد مانک پور میں کب اور کہاں سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ مانک پور کے محلہ سلطان پور میں ان کا آبائی مکان تھا جس سے متصل ایک مسجد میں حافظ عبدالکریم مانک پور کے رئیسوں اور زمینداروں کے بچوں کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دیتے تھے۔ جلیل حسن، عبدالکریم کی زوجہ ثانیہ کے بڑے بیٹے تھے۔ یہ سب 9بھائی بہن تھے۔ جلیل نے ابتدائی تعلیم مانک پور میں ہی اپنے والد سے حاصل کی۔ بارہ برس کی سن میں پورا قرآن شریف حفظ کر لیا۔ رواج کے مطابق فارسی اور عربی علوم اور فنون کی تعلیم مکمل کرتے رہے اور یہ سلسلہ بیس برس کی عمر تک جاری رہا۔ اس کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے وہ لکھنؤ آگئے اور وہاں کے مشہور و معروف مدرسہ فرنگی محل میں داخلہ لیا۔ مولانا عبدالحلیم اور مولانا عبدالعلی جیسے قابل اساتذہ کی نگرانی میں عربی فارسی صرف و نحو، معقولات اور منقولات (منطق اور دیگر علوم)کا درس مکمل کر کے مانک پور واپس آگئے۔ شعر و شاعری کا شوق ابتدائے عمر سے تھا جس کو لکھنؤ کے ادبی ماحول نے اور ابھار دیا۔ خود مانک پور میں بھی اہل ذوق حضرات کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ جلیل مانک پوری کے بڑے بھائی حافظ خلیل حسن خلیلؔ بھی اچھے شاعر تھے۔ ان کی صحبت میں رہ کر جلیلؔ نے بھی غزل کہنا شروع کردی۔ والدین اور اہل خاندان نے کبھی ان کی شعری سرگرمیوں پر اعتراض نہیں کیا۔ یہ دونوں بھائی مانک پور کے راجہ تعیش حسین کے مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے اور آس پاس کے مشاعروں میں مدعو کئے جانے لگے کیوں کہ ان کا کلام پسند کیا جاتا تھا۔ قیام لکھنؤ کے دوران جلیل مانک پوری کا تعارف امیر احمد مینائی سے ہوچکا تھا۔ جلیلؔ اور خلیلؔ نے مشترکہ عریضہ امیرؔ مینائی کو لکھا کہ وہ ان کی شاگردی میں آنا چاہتے ہیں۔ امیرؔ مینائی نے یہ عرض قبول کر لی۔ وہ ان دنوں رامپور میں تھے جہاں امیر اللغات کی تالیف کا کام جاری تھا۔ جلیلؔ سے مراسلت کا سلسلہ زیادہ دن نہیں چلا بلکہ نہایت اصرار سے امیرؔ مینائی نے جلیلؔ کو رامپور بلا لیا اور امیر اللغات کے دفتر کا معتمد بنا دیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیبہ ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ کا یومِ پیدائش
——
یہ 1887ء کا زمانہ تھا۔ رامپور میں نواب حامد علی خاں والیٔ ریاست تھے جو اب شعرا کا مرجع ہوگیا تھا کیوں کہ دہلی اور پھر لکھنؤ کے مراکز ختم ہوگئے تھے۔ رامپور کا یہ نیا ادبی سنگم دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں سے ل کر بنا تھا۔ رامپور میں 17 برس تک جلیل پر امیرؔمینائی کی نوازشیں جاریرہیں۔ انہوں نے ضعیف العمری میں اصلاح سخن کا کام بھی جلیلؔ کے سپرد کردیا تھا۔ امیراللغات سے متعلق تمام امور تو جلیل دیکھتے ہی تھے۔ رامپور کے مالی حالات درست نہ تھے اس لیے جو رقم امیر اللغات کے لئے مختص تھی وہ داخل دفتر ہوگئی۔ لغت کے کام کو جاری رکھنے کے لئے امیرؔ مینائی کی نظریں بھوپال اور حیدر آباد کے سربراہان مملک کی طرف گئیں۔ اس کام کے لئے جلیلؔ بھوپال گئے مگر کام نہ بنا۔ 1899ء میں نظام سادس کلکتہ آئے تھے۔ ان کی واپسی براہ بنارس ہوئی تو امیرؔ مینائی ان سے ملنے جلیلؔ کے ساتھ بنارس گئے۔ نظام سے باریابی کے بعد یہ طے ہوا کہ امیرؔ مینائی حیدر آباد آجائیں تو کام بن سکتا ہے۔ چنانچہ 1900ء میں امیرؔ مینائی اپنے وہ فرزندوں اور جلیلؔ کے ہمراہ حیدرآباد پہنچے اور حضرت داغؔ دہلوی کے مہمان ہوئے جو ان دنوں استاد شاہ تھے۔ پھر قریب ہی مکان کرایہ پر لے کر وہاں رہنے لگے۔ ابھی سرکار میں باریابی بھی نہیں ہوئی تھی کہ امیرؔ مینائی بیمار پڑگئے۔ باوجود علاج معالجہ کے افاقہ نہ ہوا وہ 5ہفتہ بیمار رہ کر وفات پاگئے اور درگاہ یوسفین میں مدفون ہوئے۔ جو لوگ شاعری کے سلسلے میں امیرؔ مینائی سے وابستہ تھے اب ان کے مرجع جلیلؔ بن گئے کیوں کہ ان کے لائق تلامذہ میں یہی سب سے ممتاز تھے۔ حیدرآباد کے ابراہیم خاں کے ہاں جو مشاعرہ ہوتا تھا اس کی طرح نظام سادس دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب اس مشاعرے میں جلیلؔ نے اپنی طرحی غزل پڑھی تو ان کو بے حد داد ملی اور اس کا مطلع تو گویا ان کی پہچان بن گیا:
——
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
——
جب مشاعرہ کی رپورٹ نظام کے ملاحظے میں آئی تو انہوں نے بھی بہت سراہا۔ داغؔ دہلوی اور نظمؔ طباطبائی اور مہاراجہ کشن پرشاد ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ جلیلؔ کا حیدرآباد میں قیام کا مقصد دربار تک رسائی حاصل کرنا تھا یہ کام مہاراجہ کے ذریعہ ممکن تھا۔ مہاراجہ جب شاہ دکن کے ساتھ ایڈورڈ ہفتم کے جشن تاج پوشی میں دہلی گئے تو ان کے ہمراہ جلیلؔ بھی تھے۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ اس کے بعد جب حیدر آباد میں مہاراجہ نے مشاعرہ بسلسلہ تقریب سلور جبلی نظام منعقد کیا تو وہاں بھی جلیلؔ کا کلام مشاعرے کے بعد نظام نے بہ نفس نفیس پاس بلا کر سنا اور داد دی۔ لیکن کوئی مستقل صورت نہیں پیدا ہوئی۔ 9برس تک ایسی ہی آویزش کا زمانہ رہا۔ آخر کسی شہزادے کی بسم اللہ کی تقریب میں نظام کو اپنے کلام پر اصلاح کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے مہاراجہ کی وساطت سے جلیلؔ کو طلب کیا۔ چوں کہ داغؔ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس لئے جلیل کو استاد شاہ کا عہدہ بذریعہ فرمان 16شوال 1327 ھ (1909)عطا کیا گیا بعد کو انہیں مصاحبین میں شامل کر لیا گیا اور داغؔ کی جگہ کو پُر کیا گیا۔
1911ء میں نظام سادس کا انتقال ہوگیا۔ اسی سال جارج پنجم کی تاج پوشی کا جشن دہلی میں ہوا تو جلیل مانک پوری بھی نظام سابع میر عثمان علی خاں کے ساتھ دہلی گئے لیکن کوئی بات نہ ہوسکی۔ نظام سابع کی تخت نشینی کے موقع پر عام دربار میں جب اکابرین سلطنت کے ساتھ جلیل مانک پوری نے بھی نذر گزرانی تو نظام نے کنگ کوٹھی پر حاضر ہونے کے لئے کہا۔ اس کے بعد کنگ کوٹھی پر دیر مصاحبوں کے ساتھ جلیلؔ کی بھی حاضری ہونے لگی۔ شاعری کا اوڑھنا بچھونا ہوگئی۔
جلیل مانک پوری نے ایک طویل جدوجہد کے بعد فراغت کی من پسند زندگی گزاری اور یہ سلسلہ 35 برس تک چلتا رہا۔ اب عمر بھی اسی سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ آخر عمر میں ضعف دماغ اور رعشہ کی شکایت شروع ہوگئی۔ شاہی طبیبوں نے اور ڈاکٹروں نے علاج کیا لیکن بلڈپریشر کی شکایت بڑھتی گئی۔ آخر دو دن کوما میں رہنے کے بعد 6 جنوری 1946ء کو رحلت فرمائی اور خطہ صالحین درگاہ یوسفین میں مدفون ہوئے۔ نظام نے تاریخ نکالی ’’دکن گفت آہ استاد جلیلے‘‘ (1365ھ)جلیلؔ کو نظام سادس نے ’’فصاحت جنگ‘‘ اور ’’امام الفن‘‘ کے خطابات عطا کیے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : جہاں سے نقش ظلمت کا مٹانا کس کو آتا ہے
——
جلیل مانک پوری ایک درویش صفت عابد و مرتاض تھے اور متوسط قامت،چھریرے بدن، رنگ گندمی باریش چہرہ کے مالک تھے۔ قدیم وضع کے لکھنوی پٹے رکھتے تھے اور سر پر خاص وضع کی سیاہ مخملی ٹوپی، شیروانی اور سلیم شاہی جوتا پہنتے تھے۔ آنکھوں میں گہرا سرمہ لگاتے تھے اور پان نوشی سے ہونٹ سرخ رہتے تھے۔ سرکار تقاریب میں سفید دستار اور کمر میں بکلوس اور ڈنریا بینکوٹ میں شکرت کے وقت انگریزی لباس زیب تن کرتے تھے۔
ان کے مجموعۂ کلام تاج سخن، جان سخن اور روح سخن کے نام سے شائع ہوئے اور نثر میں 1908ء میں ’’تذکیرہ و تانیث‘‘ معیار اردو 1924ء میں محاورات کا لغت اور 1940ء میں اردو کا عروض نامی کتب و رسائل شائع ہوئے۔ جلیلؔ کا تقریباً نے عمل، قصیدہ کلام فی البدیہہ ہے۔ رؤساء اور دوبادشاہوں کی مصاحبت اور استادی کی وجہ سے ان کو بہ عجلت حسب موقع اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی بروئے کار لانا پڑتا تھا۔ اصلاح کا کام بھی قلم برداشتہ ہوتا تھا۔ اس لیے جلیلؔ کے کلام کا ایک بڑا حصہ روانی طبع اور قدرت کلام کو ظاہر کرتا ہے۔ فنی صلاحیتیں غزل میں نمایاں ہیں اس بارے میں خود ان کا ایک شعر حقیقت حال پر پورا اترتا ہے۔
——
اپنا دیوان مرقع ہے حسینوں کا جلیلؔ
نکتہ چیں تھک گئے کچھ عیب نکالے نہ گئے
——
یقیناً جلیل مانک پوری کے کلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بے عیب ہے کسی جگہ عامیان پن، ثقل مبان کی دقت یا بیان میں تعقید یا تفہیم میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کی غزلوں کے کچھ بے حد خوبصورت اشعار درج ذیل ہیں:
——
جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
جب تم چلو زمین چلے آسماں چلے
——
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
ہنرور شاعر اور جوہر شناس حکمراں میں جو قریبی تعلقات مسلمانوں کے عباسی دور حکومت سے چلے آرہے تھے حضرت جلیل مانک پوری اور عثمان علی خاں کو اس کی آخری کڑی سمجھنا چاہئے۔ جلیل کے انتقال کے دو برس کے بعد آصف جاہی حکومت کی بساط بھی الٹ گئی۔
——
منتخب کلام
——
آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دل بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی
——
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے
——
بات الٹی وہ سمجھتے ہیں جو کچھ کہتا ہوں
اب کی پوچھا تو یہ کہہ دوں گا کہ حال اچھا ہے
——
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
——
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا
——
بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی
میں بھی شریک ہوں ترے حال تباہ میں
——
کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
——
عشق میں رنگیں جوانی ہوگئی
زندگانی زندگانی ہوگئی
تم جو یاد آئے تو ساری کائنات
ایک بھولی سی کہانی ہوگئی
موت سمجھا تھا میں اُلفت کو مگر
وہ حیاتِ جاودانی ہوگئی
خونفشاں تھے سب مرے زخمِ جگر
ہنس پڑے تم، گلفشانی ہوگئی
اُن کی آنکھیں دیکھ کر اپنی نظر
کاشفِ رازِ نہانی ہوگئی
چلتے چلتے ان کی تیغِ آب دار
موجِ آبِ زندگانی ہوگئی
پھر ہے دل سرگرمِ نالہ شام سے
رات پھر اپنی سہانی ہوگئی
خامُشی سے کُھل گئے اسرارِ حق
سو زباں اک بےزبانی ہوگئی
ہم نے جس دنیا کو دیکھا تھا جلیل
آج وہ قصّہ کہانی ہوگئی!
——
مجھے جس دَم خیالِ نرگسِ مستانہ آتا ہے
بڑی مشکل سے قابو میں دِلِ دیوانہ آتا ہے
مزہ دیتا ہے جب بادل سوئے میخانہ آتا ہے
صُراحی جھومتی ہے وجد میں پیمانہ آتا ہے
بہارِ جام و مینا بس گئی ہے ایسی آنکھوں میں
جدھر جاؤں جدھر دیکھوں نظر میخانہ آتا ہے
فِراقِ یار سے بڑھ کر وِصالِ یار آفت ہے
قریبِ شمع مرنے کے لئے پروانہ آتا ہے
گھٹا کو دیکھ کر رِندوں کے دِل لہرائے جاتے ہیں
گھٹا آتی ہے ساقی یا کوئی میخانہ آتا ہے
تری محفل کو میں اے شمع رُو مقتل سمجھتا ہوں
پلٹ کر پھر نہیں جاتا ہے جو پروانہ آتا ہے
مرے جانے پہ اُٹھ جاتی ہے فوراً آنکھ ساقی کی
وہ میکش ہوں کہ اِستقبال کو میخانہ آتا ہے
جُنوں انگیز کیا آب و ہوا ہے کوئے جاناں کی
کہ جاتا ہے جو عاقل ہو کے وہ دیوانہ آتا ہے
مری توبہ ہے ایسی جسکو خود توبہ کی حاجت ہے
بدل جاتی ہے نیت یاد جب میخانہ آتا ہے
صدائے قُلقُلِ مینا جتاتی ہے یہ رندوں کو
کہ ہوش اپنے سنبھالو دور میں پیمانہ آتا ہے
مچلنا رُوٹھنا بے چین دِل کا اِک تماشہ ہے
یہ وہ عاشق ہے جس کو نازِ معشوقانہ آتا ہے
بہار آنے پہ سب لیتے ہیں رستہ باغ و صحرا کا
جو کچھ بھی ہوش رکھتا ہے سُوئے میخآنہ آتا ہے
کوئی ساغر بکف ہے کوئی محوِ چشمِ ساقی ہے
ہمارے ہاتھ دیکھیں کونسا پیمانہ آتا ہے
تجھے تو شوقِ مے نوشی ہے مجھ کو رشک اسکا ہے
ترا منہ چومنے کو دم بدم پیمانہ آتا ہے
مزے لیتے ہوئے جاتے ہیں تیرے مست کعبے کو
ٹھہر جاتے ہیں رستے میں جہاں میخانہ آتا ہے
مشیّت جب یونہی ٹھہری تو میری کیا خطا ناصح
حرم کو ڈھونڈتا ہوں سامنے بُتخانہ آتا ہے
حواس آئے ہوئے پھر کھو دئے لیلٰی نے مجنوں کے
یہ کہنا تازیانہ تھا مرا دیوانہ آتا ہے
رسائی کی ہوس تجھ کو ہے اے دِل سوچ لے اِتنا
کہ زُلفِ یار تک صد چاک ہو کر شانہ آتا ہے
جلیل اس سے پتہ چلتا ہے دِل کی بیقراری کا
کہ لب پر شعر جو آتا ہے بےتابانہ آتا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : گماں امکان کی تاویل ہونے پر نہیں آتا
——
جام جب تک نہ چلے ہم نہین ٹلنے والے
آج ساقی ترے فقرے نہین چلنے والے
نام روشن جو ہوا حسن میں پروانوں سے
شمع کہتی ہے کہ ٹھنڈے رہیں جلنے والے
کیا حکومت مرے ساقی کی ہے مے خانے میں
جتنے ساغر ہیں اشارے پہ ہیں چلنے والے
فتنے اٹھ اٹھ کے یہ کہتے ہیں کہ او مست خرام
ہم بھی ساۓ کی طرح ساتھ ہیں چلنے والے
فائدہ کیا ہوس دل کے بڑھانے سے جلیلؔ
وہی نکلیں گے جو ارماں ہیں نکلنے والے
——
جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
یاد کیا کیا تری مستانہ ادا آئی ہے
ایسے نازک کبھی پابند حنا ہوتے ہیں
ہاتھ دھو ڈالے ہیں رنگت جو ذرا آئی ہے
تم بھی رخسار پہ زلفوں کو ذرا بکھرا دو
کالی کالی سر گلزار گھٹا آئی ہے
حسن اخلاق بھی ہے حسن جوانی کی طرح
جھک گئی ہیں تری آنکھیں جو حیا آئی ہے
ہاۓ وہ کھول کے جوڑا یہ کسی کا کہنا
آئیے سو رہیں اب رات سوا آئی ہے
سچ ہے تم نے جو لگایا نہیں منہ غنچوں کو
انہیں پھر کس کے تبسم کی ادا آئی ہے
کس کا دل خون نہیں ہے چمن عالم میں
پتی پتی سے ہمیں بوۓ وفا آئی ہے
رات بھر گریہء شبنم سے جو غنچے تھے اداس
صبح ہوتے ہی ہنسانے کو صبا آئی ہے
شعر خوانی پر تری سب کو گماں ہے کہ جلیلؔ
بزم میں راح امیر الشعرا آئی ہے
——
چال وہ ایسی شوخ چلتا ہے
حشر کا جس پہ دم نکلتا ہے
اشک خوں کیوں نہ آنکھ سے ٹپکیں
دل کا ارماں یوں ہی نکلتا ہے
ساقیا ایک جام کے چلتے
کتنے پیاسوں کا کام چلتا ہے
میں کسی زرزمیں کا قصد کروں
آسماں ساتھ ساتھ چلتا ہے
ہاۓ گردش وہ چشم ساقی کی
میں یہ سمجھا کہ جام چلتا ہے
سرو ہے نام نخل الفت کا
پھولتا ہے کبھی نہ پھلتا ہے
کیا زمانہ بھی ہے اسیر ترا
کہ اشارے پہ تیرے چلتا ہے
تیر دل کا نہ کھینچ رہنے دے
لطف صحبت ہے جی بہلتا ہے
شعر رنگیں نہ سمجھو ان کو جلیلؔ
طوطی فکر لعل اگلتا ہے
——
چلے ہاۓ دم بھر کو مہمان ہو کر
مجھے مار ڈالا مری جان ہو کر
یہ صورت ہوئی ہے کہ آئینہ پہروں
مرے منہ کو تکتا ہے حیران ہو کر
جواں ہوتے ہی لے اڑا حسن تم کو
پری ہو گۓ تم تو انسان ہو کر
بگڑنے میں زلف رسا کی بن آئی
لیے رخ کے بوسے پریشان ہو کر
کرم میں مزہ ہے ستم میں ادا ہے
میں راضی ہوں جو تجھ کو آسان ہو کر
جدا سر ہوا پر ہوۓ ہم نہ ہلکے
رہی تیغ گردن پر احسان ہو کر
نہ آخر بچا پردہء راز دشمن
ہو چاک میرا گریبان ہو کر
حواس آتے جاتے رہے روز وعدہ
تری یاد ہو کر مری جان ہو کر
بتوں کو جگہ دل میں دیتے ہو توبہ
جلیلؔ ایسی باتیں مسلمان ہو کر
——
کیا حنا خوں ریز نکلی ہاۓ پس جانے کے بعد
بن گئی تلوار ان کے ہاتھ میں آنے کے بعد
جام جم کی دھوم ہے سارے جہاں میں ساقیا
مانتا ہوں میں بھی لیکن تیرے پیمانے کے بعد
شکریہ واعظ جو مجھ کو ترک مے کی دی صلاح
غور میں اس پر کروں گا ہوش میں آنے کے بعد
شمع معشوقوں کو سکھلاتی ہے طرز عاشقی
جل کے پروانے سے پہلے بجھ کے پروانے کے بعد
آشنا ہو کر بتوں کے ہو گۓ حق آشنا
ہم نے کعبے کی بنا ڈالی ہے بت خانے کے بعد
میں کروں کس کا نظارہ دیک کر تیرا جمال
میں سنوں کس کا فسانہ تیرے افسانے کے بعد
شمع محفل کا ہوا یہ رنگ ان کے سامنے
پھول کی ہوتی ہے صورت جیسے مرجھانے کے بعد
سش یہ کہتے ہیں کہ ہنسنے کی جگہ دنیا نہیں
چشم عبرت ہیں چمن کے پھول مرجھانے کے بعد
فکر و کاوش ہو تو نکلیں معنیء رنگیں جلیلؔ
لعل اگلتی ہے زباں خون جگر کھانے کے بعد
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ